The Ice Balls
برف کے گولے
बर्फ के गोले
Riaz Akber
12 Jul 2025
میرے بچپن کے محلے میں ایک کردار بستے تھے شیدی لال۔ شیدی لال بٹوارے کے بعد ادھر ہی رک گئے تھے۔ کچھ بڑے ہو کر یہ جانا کہ جہاں ان کا دل جڑا تھا وہ لڑکی مسلمان تھی- اس کے گھر والے نہیں مانے، پر شیدی لال جانے کیا سوچ کراسی محلے میں رہتے رہے، گئے نہیں۔
کچھ معلوم نہیں کہ جاڑے میں ان کی گزر بسر کیسے ہوتی مگر گرمیوں کے موسم میں شیدی لال میرے گھر سے کچھ دور ایک بڑی گلی میں برف کے گولے بیچتے تھے۔ ان کے کاروبار کا تمام اثاثہ لکڑی کا ایک بکس تھا جسے وہ گلی میں اٹھا لاتے۔ اس بکس کے ایک کونے میں بڑھی کا رندہ الٹا جڑا ہوا تھا۔ شیدی لال ٹاٹ میں لپٹی برف کی ایک چوکور سی ڈلی ایک ہاتھ میں تھام کر اس رندے پر رگڑتے اور دوسرے ہاتھ سے رندے کے نیچے کھرچی ہوئی برف پیتل کی ایک کٹوری میں وصول کرتے۔ بکس کے دوسری جانب چوکھٹوں میں رنگدار گاڑھے شیرے کی بوتلیں دھری رہتیں۔ پھر ٹین کے کچھ سانچے تھے جن میں وہ برف کے گولے ڈھالتے۔ گولہ بنانے کے لئے وہ سانچے کے دو برابر حصوں میں سے ایک پر کھرچی ہوئی برف کی مٹھی بھر ڈھیری بھرتے، درمیان میں سرکنڈے کا ایک ٹکڑا جڑتے اور دوسرے حصے سے اسے دبا دیتے۔ مختلف سانچے تھے جو برف کے گولے کو اس کی شکل دیتے - موٹی گیند، مرغا، اور بھالو دو پیسے کے، چھوٹی گیند، سیپ سمندر، اور چڑیا ایک پیسے کی۔ شیدی لال ان گولوں کے سرد بدن میں اندر تک رنگ برنگ شیرینی بھرنے کے ماہر تھے۔ سرکنڈے کی ڈنڈی کو تھام کر کبھی وہ بھالو نچاتے، کبھی چڑیا اڑاتے، کبھی گیند ادھر ادھر اسطرح گھماتے جیسے کھلاڑی فٹ بال اچھال رہے ہوں، یا کہیں پٹھو گرم کا کھیل جاری ہو۔ ان کے دوسرے ہاتھ میں ایک کے بعد دوسری شیرے کی بوتل گولے پر ایسے نچھاور ہوتی کہ گویا اس تماشے کی داد دے رہی ہو۔ گلی میں آتے جاتے کچھ خوش نصیب گولے خریدتے اور باقی کے بچے ان گولوں کے بننے کا نظارا دھیکتے اور شیدی لال کی بھالو نچانے، چڑیا اڑانے، یا پٹھو توڑنے کی ہانک سن کر خوش ہوتے۔
شیرے کی بوتلوں کی طرح شیدی لال کا لکڑی کا بکس بھی رنگین تھا اور وہ اس کی چمک دمک کا خیال بھی رکھتے۔ اس میلی سی گلی میں وہ چھوٹا سا صاف ستھرا بکس ایک زیارت گاہ کی طرح انوکھا لگتا تھا۔ رندے پر آگے پیچھے برف رگڑتے وقت اس بکس کے اندر سے ایک مترنم سی گونج ابھرتی اور شیدی لال اکثر اس دھن سے آواز ملا کر دھیرے دھیرے کچھ گنگناتے رہتے۔ ایک مرتبہ مجھے ان سے اس گیت کے بارے میں پوچھنے کا موقع ملا جسے وہ اپنے بند ہونٹوں سے گاتے رہے۔ میرے اس سوال پر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر دھیمی آواز میں بولے، 'بھجن ہے، مائی باپ گاتے تھے'۔ شیدی لال سے یہ بات چیت ان دنوں کی ہے جب برف کے گولوں نے مجھ پر جادو کرنے کا کام نکڑ کے ہوٹل میں موجود چائے کی پیالیوں کو سکھا دیا تھا۔
شیدی لال سے گاہے گاہے ملاقات اب بھی تھی۔ وہ چھوٹے سے کمرے کی ایک دوکان میں رہتے تھے۔ دوکان کے پچھواڑے میں صحن کو بھرنے کے لئے اگرچہ بیت الخلا اور پانی کا ایک نل ہی کافی تھے، پھر بھی گرمیوں میں شیدی لال کی کھاٹ کمال مہارت سے اپنی جگہ اسی صحن میں یوں نکالتی کہ پائنتی بیت الخلا کے سامنے اور سرہانہ نل کے نیچے پورے پورے آجاتے۔ سردیوں کے موسم میں جب شام ڈھلے دوکان کا مالک اپنا کاروبار بند کرتا تو شیدی لال یہی کھاٹ اندر لے آتے۔ صحن سے ایک طاق کا دروازہ آس پاس کے دو مکانوں کی دیواروں کے درمیان اتنی سی جگہ میں کھلتا تھا کہ ایک شخص کچھ ترچھا ہو کر سامنے والی گلی تک نکل سکے۔ ان دنوں میرا اور شیدی لال کا رابطہ اسی تنگ گلی کے ذریعے تھا۔ مہینے میں ایک دو بار شام گئے میں نکڑ کے ہوٹل سے تام چینی کے مگوں میں گرم ملائی دار چائے تھامے شیدی لال کی رہائش گاہ تک کچھ یوں پہنچتا جیسے بچپن میں کئی بار پیسے دیے بنا برف کے گولوں کا ناچ دیکھنے پر ایک قرض ہے جو اب ادا کرنا واجب ہے مجھ پر۔
شیدی لال نے خود بتایا کہ ان کے ماں باپ کا مکان بھی اسی محلے میں تھا اور اب اس میں مہاجر رہتے ہیں ۔ خود ان کے اپنے ماں باپ اور بھائی بہن مہاجر ہو کر کہاں گئے، یہ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ 1947 میں تمام ہندو آبادی کو شہر سے نکل کر ایک کھلے باغ میں کیمپ کرنے کا حکم ملا تھا۔ نوجوان شیدی لال اسی کیمپ سے بھاگ کر ایک رات چپکے سے اپنی گلیوں میں واپس لوٹ آئے تھے، مگر اسی دوران ان کا اپنا خالی گھر دوسری طرف سے آئے ہوئے مہاجروں کو مل چکا تھا۔ مگر شیدی لال نے اپنی سوچ کی لڑکی اور اس کے گھر والوں کا اتاپتہ کبھی نہیں بتایا۔ بس اتنا معلوم ہوا کہ اس کی شادی کسی دوسرے شہر میں ہوئی ہے اور بچوں والی ہے۔ شروع شروع میں سال دو سال میں ایک بار جب میکے آتی تو کسی کسی روز گلی کے پرلے ہاتھ کھڑے ہو کر بچوں کو برف کے گولے خریدتے کے لئے آگے کر دیتی۔ ' اب تو بچے بھی بڑے ہوگئے ہیں'۔ مجے یاد ہے کہ شیدی لال نے یہ جملہ اتنا آہستہ سے کہا تھا کہ جیسے وہ اسے اپنے آپ کو بھی سنانا نہیں چاہتے۔
اپنی تعلیم اور ملازمت مجھے دور لے گئی۔ اور پھر کئی برس بعد جب میں اپنے ماضی کی تلاش میں اس شہر واپس لوٹا تو شیدی لال نہیں تھے۔ بازار، دکانیں، لوگ سب کچھ ہی بدل گیا تھا۔ اس گلی میں اسی جگہ جہاں کبھی برف کے گولوں کا ناچ دیکھا تھا، وہیں اب میرا ماضی اور میرا حال دونوں ہی ایک مہاجر کی طرح حیران کھڑے تھے۔ ایسے میں کچھ یوں لگا کہ جیسے گلی کی ساری اجنبی آوازوں کو ایک مانوس سی گونج نے ڈھانپ لیا ہے، 'بھجن یے، مائی باپ گاتے تھے'۔ شیدی لال کو جاننے والے تو ویسے بھی کم ہی تھے۔ کچھ سمجھ نہ پایا کہ کسی سے اور کیا پوچھوں۔ معلوم نہیں کہ ان کی چتا کو دھونی بھی نصیب ہوئی یا بس یونہی لوگوں نے کہیں گاڑ دیا انہیں۔
اب ان سب باتوں کو کئی دہائیاں بیت گئی ہیں۔ سوچتا ہوں کہ شیدی لال نے کوئی تاج محل نہیں بنایا۔ لیکن اس کی ضرورت بھی کیا تھی۔ ان کی محبت ہی ایسی تھی جو مر نہیں سکی، سو مزار کیا بنتا۔ میری دنیا بھی بدل گئی ہے، مگر جب دنیا کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں بسنے والے دوست موسمِ سرما کی تصویریں شئیر کرتے ہیں تو ان میں نظر آنے والے راستے کے کناروں، اور گھروں کی منڈیروں پر رکی ہوئی برف کی سفید تہہ گویا لاکھوں برف کے گولوں کا ایک کیمپ بن جاتی ہے۔ ایسے شفاف برف کے گولوں کا مہاجر کیمپ جو رنگ اور مٹھاس کو اپنے اندر رچانے کی معصوم تمنا لئے ہم انسانوں کی کھینچی ہوئی لکیروں تک پہنچے، اور وہیں منتظر سسک سسک کر پگھل گئے۔ دولت، ذات پات، سرحد، اور اعتقاد کی لکیریں۔
ریاض اکبر
آسٹریلیا
کچھ معلوم نہیں کہ جاڑے میں ان کی گزر بسر کیسے ہوتی مگر گرمیوں کے موسم میں شیدی لال میرے گھر سے کچھ دور ایک بڑی گلی میں برف کے گولے بیچتے تھے۔ ان کے کاروبار کا تمام اثاثہ لکڑی کا ایک بکس تھا جسے وہ گلی میں اٹھا لاتے۔ اس بکس کے ایک کونے میں بڑھی کا رندہ الٹا جڑا ہوا تھا۔ شیدی لال ٹاٹ میں لپٹی برف کی ایک چوکور سی ڈلی ایک ہاتھ میں تھام کر اس رندے پر رگڑتے اور دوسرے ہاتھ سے رندے کے نیچے کھرچی ہوئی برف پیتل کی ایک کٹوری میں وصول کرتے۔ بکس کے دوسری جانب چوکھٹوں میں رنگدار گاڑھے شیرے کی بوتلیں دھری رہتیں۔ پھر ٹین کے کچھ سانچے تھے جن میں وہ برف کے گولے ڈھالتے۔ گولہ بنانے کے لئے وہ سانچے کے دو برابر حصوں میں سے ایک پر کھرچی ہوئی برف کی مٹھی بھر ڈھیری بھرتے، درمیان میں سرکنڈے کا ایک ٹکڑا جڑتے اور دوسرے حصے سے اسے دبا دیتے۔ مختلف سانچے تھے جو برف کے گولے کو اس کی شکل دیتے - موٹی گیند، مرغا، اور بھالو دو پیسے کے، چھوٹی گیند، سیپ سمندر، اور چڑیا ایک پیسے کی۔ شیدی لال ان گولوں کے سرد بدن میں اندر تک رنگ برنگ شیرینی بھرنے کے ماہر تھے۔ سرکنڈے کی ڈنڈی کو تھام کر کبھی وہ بھالو نچاتے، کبھی چڑیا اڑاتے، کبھی گیند ادھر ادھر اسطرح گھماتے جیسے کھلاڑی فٹ بال اچھال رہے ہوں، یا کہیں پٹھو گرم کا کھیل جاری ہو۔ ان کے دوسرے ہاتھ میں ایک کے بعد دوسری شیرے کی بوتل گولے پر ایسے نچھاور ہوتی کہ گویا اس تماشے کی داد دے رہی ہو۔ گلی میں آتے جاتے کچھ خوش نصیب گولے خریدتے اور باقی کے بچے ان گولوں کے بننے کا نظارا دھیکتے اور شیدی لال کی بھالو نچانے، چڑیا اڑانے، یا پٹھو توڑنے کی ہانک سن کر خوش ہوتے۔
شیرے کی بوتلوں کی طرح شیدی لال کا لکڑی کا بکس بھی رنگین تھا اور وہ اس کی چمک دمک کا خیال بھی رکھتے۔ اس میلی سی گلی میں وہ چھوٹا سا صاف ستھرا بکس ایک زیارت گاہ کی طرح انوکھا لگتا تھا۔ رندے پر آگے پیچھے برف رگڑتے وقت اس بکس کے اندر سے ایک مترنم سی گونج ابھرتی اور شیدی لال اکثر اس دھن سے آواز ملا کر دھیرے دھیرے کچھ گنگناتے رہتے۔ ایک مرتبہ مجھے ان سے اس گیت کے بارے میں پوچھنے کا موقع ملا جسے وہ اپنے بند ہونٹوں سے گاتے رہے۔ میرے اس سوال پر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر دھیمی آواز میں بولے، 'بھجن ہے، مائی باپ گاتے تھے'۔ شیدی لال سے یہ بات چیت ان دنوں کی ہے جب برف کے گولوں نے مجھ پر جادو کرنے کا کام نکڑ کے ہوٹل میں موجود چائے کی پیالیوں کو سکھا دیا تھا۔
شیدی لال سے گاہے گاہے ملاقات اب بھی تھی۔ وہ چھوٹے سے کمرے کی ایک دوکان میں رہتے تھے۔ دوکان کے پچھواڑے میں صحن کو بھرنے کے لئے اگرچہ بیت الخلا اور پانی کا ایک نل ہی کافی تھے، پھر بھی گرمیوں میں شیدی لال کی کھاٹ کمال مہارت سے اپنی جگہ اسی صحن میں یوں نکالتی کہ پائنتی بیت الخلا کے سامنے اور سرہانہ نل کے نیچے پورے پورے آجاتے۔ سردیوں کے موسم میں جب شام ڈھلے دوکان کا مالک اپنا کاروبار بند کرتا تو شیدی لال یہی کھاٹ اندر لے آتے۔ صحن سے ایک طاق کا دروازہ آس پاس کے دو مکانوں کی دیواروں کے درمیان اتنی سی جگہ میں کھلتا تھا کہ ایک شخص کچھ ترچھا ہو کر سامنے والی گلی تک نکل سکے۔ ان دنوں میرا اور شیدی لال کا رابطہ اسی تنگ گلی کے ذریعے تھا۔ مہینے میں ایک دو بار شام گئے میں نکڑ کے ہوٹل سے تام چینی کے مگوں میں گرم ملائی دار چائے تھامے شیدی لال کی رہائش گاہ تک کچھ یوں پہنچتا جیسے بچپن میں کئی بار پیسے دیے بنا برف کے گولوں کا ناچ دیکھنے پر ایک قرض ہے جو اب ادا کرنا واجب ہے مجھ پر۔
شیدی لال نے خود بتایا کہ ان کے ماں باپ کا مکان بھی اسی محلے میں تھا اور اب اس میں مہاجر رہتے ہیں ۔ خود ان کے اپنے ماں باپ اور بھائی بہن مہاجر ہو کر کہاں گئے، یہ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ 1947 میں تمام ہندو آبادی کو شہر سے نکل کر ایک کھلے باغ میں کیمپ کرنے کا حکم ملا تھا۔ نوجوان شیدی لال اسی کیمپ سے بھاگ کر ایک رات چپکے سے اپنی گلیوں میں واپس لوٹ آئے تھے، مگر اسی دوران ان کا اپنا خالی گھر دوسری طرف سے آئے ہوئے مہاجروں کو مل چکا تھا۔ مگر شیدی لال نے اپنی سوچ کی لڑکی اور اس کے گھر والوں کا اتاپتہ کبھی نہیں بتایا۔ بس اتنا معلوم ہوا کہ اس کی شادی کسی دوسرے شہر میں ہوئی ہے اور بچوں والی ہے۔ شروع شروع میں سال دو سال میں ایک بار جب میکے آتی تو کسی کسی روز گلی کے پرلے ہاتھ کھڑے ہو کر بچوں کو برف کے گولے خریدتے کے لئے آگے کر دیتی۔ ' اب تو بچے بھی بڑے ہوگئے ہیں'۔ مجے یاد ہے کہ شیدی لال نے یہ جملہ اتنا آہستہ سے کہا تھا کہ جیسے وہ اسے اپنے آپ کو بھی سنانا نہیں چاہتے۔
اپنی تعلیم اور ملازمت مجھے دور لے گئی۔ اور پھر کئی برس بعد جب میں اپنے ماضی کی تلاش میں اس شہر واپس لوٹا تو شیدی لال نہیں تھے۔ بازار، دکانیں، لوگ سب کچھ ہی بدل گیا تھا۔ اس گلی میں اسی جگہ جہاں کبھی برف کے گولوں کا ناچ دیکھا تھا، وہیں اب میرا ماضی اور میرا حال دونوں ہی ایک مہاجر کی طرح حیران کھڑے تھے۔ ایسے میں کچھ یوں لگا کہ جیسے گلی کی ساری اجنبی آوازوں کو ایک مانوس سی گونج نے ڈھانپ لیا ہے، 'بھجن یے، مائی باپ گاتے تھے'۔ شیدی لال کو جاننے والے تو ویسے بھی کم ہی تھے۔ کچھ سمجھ نہ پایا کہ کسی سے اور کیا پوچھوں۔ معلوم نہیں کہ ان کی چتا کو دھونی بھی نصیب ہوئی یا بس یونہی لوگوں نے کہیں گاڑ دیا انہیں۔
اب ان سب باتوں کو کئی دہائیاں بیت گئی ہیں۔ سوچتا ہوں کہ شیدی لال نے کوئی تاج محل نہیں بنایا۔ لیکن اس کی ضرورت بھی کیا تھی۔ ان کی محبت ہی ایسی تھی جو مر نہیں سکی، سو مزار کیا بنتا۔ میری دنیا بھی بدل گئی ہے، مگر جب دنیا کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں بسنے والے دوست موسمِ سرما کی تصویریں شئیر کرتے ہیں تو ان میں نظر آنے والے راستے کے کناروں، اور گھروں کی منڈیروں پر رکی ہوئی برف کی سفید تہہ گویا لاکھوں برف کے گولوں کا ایک کیمپ بن جاتی ہے۔ ایسے شفاف برف کے گولوں کا مہاجر کیمپ جو رنگ اور مٹھاس کو اپنے اندر رچانے کی معصوم تمنا لئے ہم انسانوں کی کھینچی ہوئی لکیروں تک پہنچے، اور وہیں منتظر سسک سسک کر پگھل گئے۔ دولت، ذات پات، سرحد، اور اعتقاد کی لکیریں۔
ریاض اکبر
آسٹریلیا
बर्फ के गोले
मेरे बचपन के मुहल्ले में एक किरदार बसते थे — शीदी लाल। शीदी लाल बँटवारे के बाद उधर ही रुक गए थे। कुछ बड़े होकर ये जाना कि जहाँ उनका दिल जुड़ा था, वह लड़की मुसलमान थी। उसके घर वाले नहीं माने, पर शीदी लाल जाने क्या सोचकर उसी मुहल्ले में रहते रहे, गए नहीं।
कुछ मालूम नहीं कि जाड़े में उनकी गुज़र-बसर कैसे होती, मगर गर्मियों के मौसम में शीदी लाल मेरे घर से कुछ दूर एक बड़ी गली में बर्फ के गोले बेचा करते थे। उनके कारोबार का तमाम संपत्ति लकड़ी का एक बक्सा था जिसे वे गली में उठा लाते। उस बक्से के एक कोने में बढ़ई का रंदा उल्टा जुड़ा हुआ था। शीदी लाल टाट में लिपटी बर्फ की एक चौकोर सी डली एक हाथ में थामकर उस रंदे पर रगड़ते, और दूसरे हाथ से रंदे के नीचे कुरेदी हुई बर्फ पीतल की एक कटोरी में इकट्ठा करते।
बक्से के दूसरी तरफ चौखटों में रंगदार गाढ़े शरबत की बोतलें रखी रहतीं। फिर टिन के कुछ साँचे थे जिनमें वे बर्फ के गोले ढालते। गोला बनाने के लिए वे साँचे के दो बराबर हिस्सों में से एक में कुरेदी हुई बर्फ की मुट्ठी भर ढेरी भरते, बीच में सरकंडे का एक टुकड़ा जोड़ते और दूसरे हिस्से से उसे दबा देते। अलग-अलग साँचे थे जो बर्फ के गोले को उसकी आकार देते — मोटी गेंद, मुर्गा और भालू दो पैसे के, छोटी गेंद, सीप समुद्र, और चिड़िया एक पैसे की।
शीदी लाल उन गोलों के ठंडे बदन में अंदर तक रंग-बिरंगी मिठास भरने के माहिर थे। सरकंडे की डंडी को थाम कर कभी वे भालू नचाते, कभी चिड़िया उड़ाते, कभी गेंद इधर-उधर इस तरह घुमाते जैसे खिलाड़ी फुटबॉल उछाल रहे हों, या कहीं पिट्ठू-गरम का खेल जारी हो। उनके दूसरे हाथ में एक के बाद दूसरी शरबत की बोतल गोले पर ऐसे निछावर होती जैसे इस तमाशे की दाद दे रही हो।
गली में आते-जाते कुछ खुशक़िस्मत गोले खरीदते और बाकी के बच्चे उन गोलों के बनने का नज़ारा देखते और शीदी लाल की भालू नचाने, चिड़िया उड़ाने या पिट्ठू तोड़ने की हाँक सुनकर खुश होते।
शरबत की बोतलों की तरह शीदी लाल का लकड़ी का बक्स भी रंगीन था और वे उसकी चमक-दमक का ख़याल भी रखते। उस मैली सी गली में वह छोटा सा साफ़-सुथरा बक्स एक ज़ियारतगाह की तरह अनोखा लगता था।
रंदे पर आगे-पीछे बर्फ रगड़ते समय उस बक्स के अंदर से एक संगीतमयी सी गूंज उठती और शीदी लाल अक्सर उस धुन में आवाज़ मिलाकर धीरे-धीरे कुछ गुनगुनाते रहते। एक बार मुझे उनसे उस गीत के बारे में पूछने का मौका मिला जिसे वे अपने बंद होंठों से गाते रहते थे। मेरे इस सवाल पर उन्होंने इधर-उधर देखा और फिर धीमी आवाज़ में बोले, "भजन है, माई-बाप गाते थे।"
शीदी लाल से यह बातचीत उन दिनों की है जब बर्फ के गोलों ने मुझ पर जादू करने का मंत्र नुक्कड़ की दुकान की चाय की प्यालियों को समझा दिया था। शीदी लाल से कभी-कभार मुलाकात अब भी होती थी। वे छोटे से कमरे की एक दुकान में रहते थे। दुकान के पिछवाड़े में आंगन को भरने के लिए यद्यपि शौचालय और पानी का एक नल ही काफ़ी थे, फिर भी गर्मियों में शीदी लाल की खाट कमाल की कुशलता से अपनी जगह उसी आंगन में इस तरह निकालती कि पायताने शौचालय के सामने और सिरहाना नल के नीचे पूरे-पूरे आ जाते।
सर्दियों के मौसम में जब शाम ढले दुकान का मालिक अपना कारोबार बंद करता, तो शीदी लाल यही खाट अंदर ले आते। आंगन से एक ताक का दरवाज़ा आस-पास के दो मकानों की दीवारों के बीच इतनी सी जगह में खुलता था कि एक व्यक्ति कुछ तिरछा होकर सामने वाली गली तक निकल सके। उन दिनों मेरा और शीदी लाल का संपर्क उसी तंग गली के ज़रिए था। महीने में एक-दो बार, शाम को मैं नुक्कड़ के होटल से तमचीनी के मगों में गर्म मलाईदार चाय थामे शीदी लाल की रिहाइश तक कुछ यूं पहुँचता जैसे बचपन में कई बार पैसे दिए बिना बर्फ के गोलों का नाच देखने पर एक क़र्ज़ है जो अब अदा करना मुझ पर ज़रूरी हो गया है।
शीदी लाल ने खुद बताया कि उनके माँ-बाप का मकान भी इसी मुहल्ले में था और अब उसमें मुहाजिर रहते हैं। खुद उनके अपने माँ-बाप और भाई-बहन मुहाजिर होकर कहाँ गए, यह उन्हें कुछ पता नहीं था।
1947 में तमाम हिंदू आबादी को शहर से निकल कर एक खुले बाग़ में कैंप करने का हुक्म मिला था। नौजवान शीदी लाल उसी कैंप से भागकर एक रात चुपके से अपनी गलियों में वापस लौट आए थे, मगर उसी दौरान उनका अपना ख़ाली घर दूसरी तरफ़ से आए हुए मुहाजिरों को मिल चुका था।
मगर शीदी लाल ने अपनी सोच की लड़की और उसके घर वालों का अता-पता कभी नहीं बताया। बस इतना मालूम हुआ कि उसकी शादी किसी दूसरे शहर में हुई है और वह बच्चों वाली है।
शुरुआत में, एक-दो साल में जब वह मायके आती थी, तो कभी-कभी किसी दिन गली के परले हाथ खड़े होकर बच्चों को बर्फ के गोले खरीदने के लिए आगे कर देती।
अपनी तालीम और नौकरी मुझे दूर ले गई। और फिर कई बरस बाद जब मैं अपने माज़ी की तलाश में उस शहर वापस लौटा, तो शीदी लाल नहीं थे। बाज़ार, दुकानें, लोग — सब कुछ ही बदल गया था।
उस गली में, उसी जगह जहाँ कभी बर्फ के गोलों का नाच देखा था, वहीं अब मेरा अतीत और मेरा वर्तमान — दोनों ही एक मुहाजिर की तरह हैरान खड़े थे।
ऐसे में कुछ यूं लगा जैसे गली की सारी अजनबी आवाज़ों को एक पहचानी सी गूंज ने ढाँप लिया हो — “भजन है, माई-बाप गाते थे।”
शीदी लाल को जानने वाले तो वैसे भी कम ही थे। कुछ समझ नहीं पाया कि किसी से और क्या पूछूँ। मालूम नहीं कि उनकी चिता को धूनी भी नसीब हुई या बस यूं ही लोगों ने कहीं गाड़ दिया उन्हें।
अब इन सब बातों को कई दशक बीत गए हैं। सोचता हूँ कि शीदी लाल ने कोई ताजमहल नहीं बनाया — लेकिन उसकी ज़रूरत भी क्या थी! उनकी मुहब्बत ही ऐसी थी जो मर नहीं सकी, तो मज़ार क्या बनती।
ऐसे पारदर्शी बर्फ के गोलों का मुहाजिर कैंप, जो रंग और मिठास को अपने भीतर समाने की मासूम तमन्ना लिए हम इंसानों की खींची हुई लकीरों तक पहुँचे — और वहीं इंतज़ार करते, सिसक-सिसक कर पिघल गए।
दौलत, जात-पात, सरहद, और आस्थाओं की लकीरें।
रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
मेरे बचपन के मुहल्ले में एक किरदार बसते थे — शीदी लाल। शीदी लाल बँटवारे के बाद उधर ही रुक गए थे। कुछ बड़े होकर ये जाना कि जहाँ उनका दिल जुड़ा था, वह लड़की मुसलमान थी। उसके घर वाले नहीं माने, पर शीदी लाल जाने क्या सोचकर उसी मुहल्ले में रहते रहे, गए नहीं।
कुछ मालूम नहीं कि जाड़े में उनकी गुज़र-बसर कैसे होती, मगर गर्मियों के मौसम में शीदी लाल मेरे घर से कुछ दूर एक बड़ी गली में बर्फ के गोले बेचा करते थे। उनके कारोबार का तमाम संपत्ति लकड़ी का एक बक्सा था जिसे वे गली में उठा लाते। उस बक्से के एक कोने में बढ़ई का रंदा उल्टा जुड़ा हुआ था। शीदी लाल टाट में लिपटी बर्फ की एक चौकोर सी डली एक हाथ में थामकर उस रंदे पर रगड़ते, और दूसरे हाथ से रंदे के नीचे कुरेदी हुई बर्फ पीतल की एक कटोरी में इकट्ठा करते।
बक्से के दूसरी तरफ चौखटों में रंगदार गाढ़े शरबत की बोतलें रखी रहतीं। फिर टिन के कुछ साँचे थे जिनमें वे बर्फ के गोले ढालते। गोला बनाने के लिए वे साँचे के दो बराबर हिस्सों में से एक में कुरेदी हुई बर्फ की मुट्ठी भर ढेरी भरते, बीच में सरकंडे का एक टुकड़ा जोड़ते और दूसरे हिस्से से उसे दबा देते। अलग-अलग साँचे थे जो बर्फ के गोले को उसकी आकार देते — मोटी गेंद, मुर्गा और भालू दो पैसे के, छोटी गेंद, सीप समुद्र, और चिड़िया एक पैसे की।
शीदी लाल उन गोलों के ठंडे बदन में अंदर तक रंग-बिरंगी मिठास भरने के माहिर थे। सरकंडे की डंडी को थाम कर कभी वे भालू नचाते, कभी चिड़िया उड़ाते, कभी गेंद इधर-उधर इस तरह घुमाते जैसे खिलाड़ी फुटबॉल उछाल रहे हों, या कहीं पिट्ठू-गरम का खेल जारी हो। उनके दूसरे हाथ में एक के बाद दूसरी शरबत की बोतल गोले पर ऐसे निछावर होती जैसे इस तमाशे की दाद दे रही हो।
गली में आते-जाते कुछ खुशक़िस्मत गोले खरीदते और बाकी के बच्चे उन गोलों के बनने का नज़ारा देखते और शीदी लाल की भालू नचाने, चिड़िया उड़ाने या पिट्ठू तोड़ने की हाँक सुनकर खुश होते।
शरबत की बोतलों की तरह शीदी लाल का लकड़ी का बक्स भी रंगीन था और वे उसकी चमक-दमक का ख़याल भी रखते। उस मैली सी गली में वह छोटा सा साफ़-सुथरा बक्स एक ज़ियारतगाह की तरह अनोखा लगता था।
रंदे पर आगे-पीछे बर्फ रगड़ते समय उस बक्स के अंदर से एक संगीतमयी सी गूंज उठती और शीदी लाल अक्सर उस धुन में आवाज़ मिलाकर धीरे-धीरे कुछ गुनगुनाते रहते। एक बार मुझे उनसे उस गीत के बारे में पूछने का मौका मिला जिसे वे अपने बंद होंठों से गाते रहते थे। मेरे इस सवाल पर उन्होंने इधर-उधर देखा और फिर धीमी आवाज़ में बोले, "भजन है, माई-बाप गाते थे।"
शीदी लाल से यह बातचीत उन दिनों की है जब बर्फ के गोलों ने मुझ पर जादू करने का मंत्र नुक्कड़ की दुकान की चाय की प्यालियों को समझा दिया था। शीदी लाल से कभी-कभार मुलाकात अब भी होती थी। वे छोटे से कमरे की एक दुकान में रहते थे। दुकान के पिछवाड़े में आंगन को भरने के लिए यद्यपि शौचालय और पानी का एक नल ही काफ़ी थे, फिर भी गर्मियों में शीदी लाल की खाट कमाल की कुशलता से अपनी जगह उसी आंगन में इस तरह निकालती कि पायताने शौचालय के सामने और सिरहाना नल के नीचे पूरे-पूरे आ जाते।
सर्दियों के मौसम में जब शाम ढले दुकान का मालिक अपना कारोबार बंद करता, तो शीदी लाल यही खाट अंदर ले आते। आंगन से एक ताक का दरवाज़ा आस-पास के दो मकानों की दीवारों के बीच इतनी सी जगह में खुलता था कि एक व्यक्ति कुछ तिरछा होकर सामने वाली गली तक निकल सके। उन दिनों मेरा और शीदी लाल का संपर्क उसी तंग गली के ज़रिए था। महीने में एक-दो बार, शाम को मैं नुक्कड़ के होटल से तमचीनी के मगों में गर्म मलाईदार चाय थामे शीदी लाल की रिहाइश तक कुछ यूं पहुँचता जैसे बचपन में कई बार पैसे दिए बिना बर्फ के गोलों का नाच देखने पर एक क़र्ज़ है जो अब अदा करना मुझ पर ज़रूरी हो गया है।
शीदी लाल ने खुद बताया कि उनके माँ-बाप का मकान भी इसी मुहल्ले में था और अब उसमें मुहाजिर रहते हैं। खुद उनके अपने माँ-बाप और भाई-बहन मुहाजिर होकर कहाँ गए, यह उन्हें कुछ पता नहीं था।
1947 में तमाम हिंदू आबादी को शहर से निकल कर एक खुले बाग़ में कैंप करने का हुक्म मिला था। नौजवान शीदी लाल उसी कैंप से भागकर एक रात चुपके से अपनी गलियों में वापस लौट आए थे, मगर उसी दौरान उनका अपना ख़ाली घर दूसरी तरफ़ से आए हुए मुहाजिरों को मिल चुका था।
मगर शीदी लाल ने अपनी सोच की लड़की और उसके घर वालों का अता-पता कभी नहीं बताया। बस इतना मालूम हुआ कि उसकी शादी किसी दूसरे शहर में हुई है और वह बच्चों वाली है।
शुरुआत में, एक-दो साल में जब वह मायके आती थी, तो कभी-कभी किसी दिन गली के परले हाथ खड़े होकर बच्चों को बर्फ के गोले खरीदने के लिए आगे कर देती।
अपनी तालीम और नौकरी मुझे दूर ले गई। और फिर कई बरस बाद जब मैं अपने माज़ी की तलाश में उस शहर वापस लौटा, तो शीदी लाल नहीं थे। बाज़ार, दुकानें, लोग — सब कुछ ही बदल गया था।
उस गली में, उसी जगह जहाँ कभी बर्फ के गोलों का नाच देखा था, वहीं अब मेरा अतीत और मेरा वर्तमान — दोनों ही एक मुहाजिर की तरह हैरान खड़े थे।
ऐसे में कुछ यूं लगा जैसे गली की सारी अजनबी आवाज़ों को एक पहचानी सी गूंज ने ढाँप लिया हो — “भजन है, माई-बाप गाते थे।”
शीदी लाल को जानने वाले तो वैसे भी कम ही थे। कुछ समझ नहीं पाया कि किसी से और क्या पूछूँ। मालूम नहीं कि उनकी चिता को धूनी भी नसीब हुई या बस यूं ही लोगों ने कहीं गाड़ दिया उन्हें।
अब इन सब बातों को कई दशक बीत गए हैं। सोचता हूँ कि शीदी लाल ने कोई ताजमहल नहीं बनाया — लेकिन उसकी ज़रूरत भी क्या थी! उनकी मुहब्बत ही ऐसी थी जो मर नहीं सकी, तो मज़ार क्या बनती।
ऐसे पारदर्शी बर्फ के गोलों का मुहाजिर कैंप, जो रंग और मिठास को अपने भीतर समाने की मासूम तमन्ना लिए हम इंसानों की खींची हुई लकीरों तक पहुँचे — और वहीं इंतज़ार करते, सिसक-सिसक कर पिघल गए।
दौलत, जात-पात, सरहद, और आस्थाओं की लकीरें।
रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
The Ice Balls
There was a character in the neighbourhood of my childhood — Sheedi Lal. He had stayed on after Indo-Pak partition. I later came to understand that his heart had grown fond of someone — a girl who happened to be Muslim. Her family did not accept it, but Sheedi Lal, moved by something only he could explain, chose to remain in that very neighbourhood. He did not leave.
I do not really knew how he survived the winters, but in the summers, Sheedi Lal would appear on a large street not far from our home, selling baraf ke golay — crushed ice balls drenched in syrup. His entire enterprise was contained in a wooden box that he carried to the lane each day. In one corner of the box, an inverted carpenter’s plane was fitted firmly. Holding a cube of ice wrapped in burlap in one hand, he would grate it across the plane, collecting the shavings in a small brass bowl with the other.
On the opposite side of the box sat glass bottles of thick, coloured syrups nestled in wooden frames. There were also tin moulds of various shapes: a ball, a rooster, a bear — those were two-paisa treats; a smaller ball, a shell, a sparrow — those were for one paisa. Sheedi Lal would fill one half of a mould with the crushed ice, embed a stick of reed through the centre, and clamp the other half shut. He was a master of infusing these cold sculptures with colour and sweetness all the way through.
He would twirl the figurines in the air — making the bear dance, the bird fly, the ball bounce as though it were part of a game of pithoo garam. In his other hand, one bottle after another would shower the ice in syrup like applause on a street performance. A few lucky children would buy the golay. The rest, wide-eyed, would watch, delighted just to see Sheedi Lal's bear dance, his sparrow soar, and the ball arc through the air.
His wooden box was as vibrant as the syrup bottles themselves — and he kept it clean, polished. In that grimy alleyway, the little box glowed like a sanctified shrine. As he scraped the ice back and forth on the plane, the box would emit a soft, rhythmic hum — to which Sheedi Lal would often hum along, lips closed, quietly lost in melody.
Once I had the courage to ask him what song he always seemed to sing. He looked around, then said in a near whisper: "It’s a bhajan. My parents used to sing it."
That conversation happened during a time when the spell of the ice balls had just begun to wear off, and the hotel on the street corner had started calling me in with its cups of milky, cardamom-laced tea.
I still saw Sheedi Lal from time to time. He lived in a tiny room tucked behind a shop. The back courtyard, though barely wide enough for a water tap and a latrine, also found space in summer for Sheedi Lal’s cot — laid out with such skill that its foot lay just before the latrine, and its head directly under the tap. In winter, once the shop shut at dusk, he would bring the cot inside. A small wooden door in the courtyard wall opened into a narrow slit of passage between two homes — just wide enough for a person to squeeze sideways into the street. My connection to Sheedi Lal passed through that narrow lane. Once or twice a month, in the evenings, I would walk from the hotel with two enamelled mugs of hot, creamy tea and reach his room, compelled by something like a debt I owed for the times I had watched his dancing ice balls as a child, without ever paying.
Sheedi Lal once told me that his parents used to live in that same neighbourhood — but now refugees lived in their house. He didn’t know where his own family had gone after being displaced. In 1947, the entire Hindu population of the town was ordered to evacuate and assemble in a camp in an open garden. Young Sheedi Lal had slipped away from that camp and returned quietly to his streets one night — only to find his home had already been assigned to incoming refugees.
He never spoke of the girl he had loved, or of her family. All I learned was that she had married in another city and now had children of her own. In the early years, once every year or two, when she came back to her parents’ home, she would sometimes stop at the other side of the lane and gently nudge her children forward to buy an ice ball.
"Even the children are grown now..." I still remember how softly Sheedi Lal said those words — as though even his own ears weren’t meant to hear them.
Education and work took me far away. Years later, when I returned to that city, searching for the past, Sheedi Lal was no longer there. The shops, the market, the faces — everything had changed. In that same spot where I had once seen his ice balls dance, now stood my past and present, side by side, stunned like refugees. And then — through the strangeness of unfamiliar voices — rose a tone I recognised: "It’s a bhajan. My parents used to sing it." Few people had really known Sheedi Lal. I didn’t know what to ask, or whom. I don’t know whether his body was respectfully cremated or simply buried in silence.
Decades have passed, and I think: Sheedi Lal never built a Taj Mahal. But did he need to? His love never died — so what mausoleum would have served it? My world has changed, too. But when friends from the northern and southern corners of the world share winter photos — with snow blanketing the window ledges and roadside walls — I see in that still white sheet, a refugee camp of a million ice balls. Transparent, waiting — with innocent longing to absorb colour and sweetness into their cold, clear bodies. But they never make it across the lines we humans have drawn - so they wait, and sigh, and melt. Lines of wealth, of caste, of borders, of belief.
Riaz Akber
Australia
There was a character in the neighbourhood of my childhood — Sheedi Lal. He had stayed on after Indo-Pak partition. I later came to understand that his heart had grown fond of someone — a girl who happened to be Muslim. Her family did not accept it, but Sheedi Lal, moved by something only he could explain, chose to remain in that very neighbourhood. He did not leave.
I do not really knew how he survived the winters, but in the summers, Sheedi Lal would appear on a large street not far from our home, selling baraf ke golay — crushed ice balls drenched in syrup. His entire enterprise was contained in a wooden box that he carried to the lane each day. In one corner of the box, an inverted carpenter’s plane was fitted firmly. Holding a cube of ice wrapped in burlap in one hand, he would grate it across the plane, collecting the shavings in a small brass bowl with the other.
On the opposite side of the box sat glass bottles of thick, coloured syrups nestled in wooden frames. There were also tin moulds of various shapes: a ball, a rooster, a bear — those were two-paisa treats; a smaller ball, a shell, a sparrow — those were for one paisa. Sheedi Lal would fill one half of a mould with the crushed ice, embed a stick of reed through the centre, and clamp the other half shut. He was a master of infusing these cold sculptures with colour and sweetness all the way through.
He would twirl the figurines in the air — making the bear dance, the bird fly, the ball bounce as though it were part of a game of pithoo garam. In his other hand, one bottle after another would shower the ice in syrup like applause on a street performance. A few lucky children would buy the golay. The rest, wide-eyed, would watch, delighted just to see Sheedi Lal's bear dance, his sparrow soar, and the ball arc through the air.
His wooden box was as vibrant as the syrup bottles themselves — and he kept it clean, polished. In that grimy alleyway, the little box glowed like a sanctified shrine. As he scraped the ice back and forth on the plane, the box would emit a soft, rhythmic hum — to which Sheedi Lal would often hum along, lips closed, quietly lost in melody.
Once I had the courage to ask him what song he always seemed to sing. He looked around, then said in a near whisper: "It’s a bhajan. My parents used to sing it."
That conversation happened during a time when the spell of the ice balls had just begun to wear off, and the hotel on the street corner had started calling me in with its cups of milky, cardamom-laced tea.
I still saw Sheedi Lal from time to time. He lived in a tiny room tucked behind a shop. The back courtyard, though barely wide enough for a water tap and a latrine, also found space in summer for Sheedi Lal’s cot — laid out with such skill that its foot lay just before the latrine, and its head directly under the tap. In winter, once the shop shut at dusk, he would bring the cot inside. A small wooden door in the courtyard wall opened into a narrow slit of passage between two homes — just wide enough for a person to squeeze sideways into the street. My connection to Sheedi Lal passed through that narrow lane. Once or twice a month, in the evenings, I would walk from the hotel with two enamelled mugs of hot, creamy tea and reach his room, compelled by something like a debt I owed for the times I had watched his dancing ice balls as a child, without ever paying.
Sheedi Lal once told me that his parents used to live in that same neighbourhood — but now refugees lived in their house. He didn’t know where his own family had gone after being displaced. In 1947, the entire Hindu population of the town was ordered to evacuate and assemble in a camp in an open garden. Young Sheedi Lal had slipped away from that camp and returned quietly to his streets one night — only to find his home had already been assigned to incoming refugees.
He never spoke of the girl he had loved, or of her family. All I learned was that she had married in another city and now had children of her own. In the early years, once every year or two, when she came back to her parents’ home, she would sometimes stop at the other side of the lane and gently nudge her children forward to buy an ice ball.
"Even the children are grown now..." I still remember how softly Sheedi Lal said those words — as though even his own ears weren’t meant to hear them.
Education and work took me far away. Years later, when I returned to that city, searching for the past, Sheedi Lal was no longer there. The shops, the market, the faces — everything had changed. In that same spot where I had once seen his ice balls dance, now stood my past and present, side by side, stunned like refugees. And then — through the strangeness of unfamiliar voices — rose a tone I recognised: "It’s a bhajan. My parents used to sing it." Few people had really known Sheedi Lal. I didn’t know what to ask, or whom. I don’t know whether his body was respectfully cremated or simply buried in silence.
Decades have passed, and I think: Sheedi Lal never built a Taj Mahal. But did he need to? His love never died — so what mausoleum would have served it? My world has changed, too. But when friends from the northern and southern corners of the world share winter photos — with snow blanketing the window ledges and roadside walls — I see in that still white sheet, a refugee camp of a million ice balls. Transparent, waiting — with innocent longing to absorb colour and sweetness into their cold, clear bodies. But they never make it across the lines we humans have drawn - so they wait, and sigh, and melt. Lines of wealth, of caste, of borders, of belief.
Riaz Akber
Australia