Deep Sea
گہرا سمندر
गहरा समुंदर
Riaz Akber
6 Jul 2025
ساری ڈگریاں پاس کر گئی، مگر کبھی کتابوں میں پڑھا نہ کسی نے بتایا کہ جب ملوں تو کیسے تمہیں پہچانوں۔ یونہی زندگی کے چند روز تمہارے ساتھ گزار کر گزر گئی۔ وہ پرکھ ہی نہیں تھی میرے پاس کہ تمہیں اتھاہ تک جان سکتی۔ ستم تو یہ ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایسی پرکھ مجھے جاننے کے لئے تمہارے پاس بھی نہیں۔ شاید کسی کے لئے کسی کے پاس بھی نہیں ہوتی۔ اگر میں جانتی تو کم از کم یہ تو ممکن تھا کہ ہم ایک دوسرے کے ماتھے سے ماتھا ملا کر مان لیتے کہ جو ہم جان گئے ہیں وہی ہمارے ساتھ ساتھ دیر تک جینے کے لئے بہت ہے۔ گہرے سمندر کی مچھلیوں اور کیکڑوں کی وہ نت نئی اقسام جو اس ریسرچ کے بحری جہاز سے بندھے ہوئے جال میں کھنچ کر عرشے تک آتی تھیں بس انہیں میں مگن میرے چار مہینے گزر گئے۔ نئی ریسرچ تھی اور میرا پہلا بحری سفر۔ راتوں کو جاگ جاگ کر کام کیا تھا میں نے۔ اس تھوڑے سے وقت میں ہر زاوئیے سے ان کی تصاویر لینا، ان کی ساخت، سائز، اعضا کا تناسب سمجھنا، ساحل پر پہنچنے کے بعد کے تفصیلی تجزیئے کے لئے انہیں محفوظ کرنا، پھر سب ریکارڈ لکھنا، سوچنا اور بار بار پڑھنا، یہ سب کچھ کم ذمہ داری تو نہیں تھی۔ سو ایسے ہلکوروں میں جھولتے جھومتے گاہے گاہے بیمار پڑنا بھی تو حق بنتا تھا نا میرا۔ میں میرین بیالوجسٹ تھی اور تم جہاز کے میڈیکل ڈاکٹر۔ یوں تو جہاز کے چھوٹے سے عملے میں میل جول سبھی کے ساتھ ہی تھا، مگر تھکن اور سمندری سفر میں میرے یوں بار بار بیمار ہونے پر تمہاری وہ توجہ جانے کہاں بہا کر لئے جا رہی تھی مجھے۔ ایسے لگتا تھا کہ بیمار میں ہوتی ہوں اور پریشان تم۔ راتوں کو جاگ کر وہ تمہارا میرے بستر کے پاس تک آنا۔ خیریت پوچھنا، دوا دینا۔ کھانے اور کافی کا اہتمام کرنا، کبھی کبھی سہارا دے کر اٹھانا۔ یہ سب کچھ مجھے ڈاکٹری سے کچھ بڑھ کر گہری دوستی اور دیرپا ساتھ کی طرح لگنے لگا تھا- پھر سوچتی کہ شاید یہ تمہاری پروفیشنل لگن ہے۔ شاید سبھی کے ساتھ ہی تم ایسے ہو، اور میرے لئے کچھ خاص نہیں۔ پھر تم نے بھی تو کھل کر کچھ نہیں کہا تھا۔ بعد میں کئی بار یہ خیال آیا کہ ہم دونوں ہی پہل کرنے سے ہچکچا گئے۔
اس بندرگاہ پر جہاں میرا ریسرچ کا یہ سفر ختم ہوا تھا جہاز ایک ہفتہ تک ٹھہرا۔ چاہتی تو اتر کر جلد ہی میں اپنے ملک کی فلائٹ لے سکتی تھی، اور یونیورسٹی میں میرے لیکچر بھی شروع ہونے کو تھے، مگر میں رکی رہی۔ تاہم عملے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ آئیندہ سفر کی تیاری میں تم بہت مصروف تھے، سو ہم بس دو ایک بار ہی تھوڑا سا مل سکے۔ بعد کی زندگی میں اور کئی ریسرچ کے جہازوں میں گئی، کچھ بیمار بھی ہوتی رہی، اور عملے کے ڈاکٹروں نے توجہ بھی دی۔ مگر وہ احساس جو تمہاری توجہ پر جاگا تھا وہ نہیں تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ دور سمندر کی سطح پر کی ہوئی دوستیاں بہت رسمی بھی ہو سکتی ہیں اور بہت گہری بھی۔ اب ہمیں ہی دیکھ لو، وقت نے کچھ اس طرح بِتایا ہے ہم دونوں کو کہ اندازہ ہی نہیں ہوا اور ایک دوسرے کو یوں جانے ہوئے پینتیس برس بیت گئے۔ ہم خط لکھتے رہے، تصویریں بھیجتے رہے اور پچھلے کچھ سالوں سے فون پر میسج بھی۔ میں اپنی ریسرچ، گہرے سمندر کی مخلوقات اور ڈپٹی وائس چانسلر بننے کے بعد یونیورسٹی میں بڑھتی ہوئی انتظامی مصروفیات کے بارے میں لکھتی، اور تم نئے نئے شہروں، سمندری طوفانوں، جہازوں میں پھوٹنے والی وبائوں، اور جہاز رانی کے بدلتے ہوئے انداز کی بابت۔ ہاں تم نے ریسرچ کے جہازوں کو چھوڑ سمندری تفریح کے ایک بہت بڑے جہاز کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔
اب مڑ کر دیکھیں تو کتنی آسانی سے ہم دوبارہ مل بھی سکتے تھے۔ میں تمہارے ساتھ کسی ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ تک چند ہفتے سفر کر لیتی، یا تم اپنی چھٹیاں گزارنے یہاں آ جاتے۔ مگر چھٹی تو شاید کبھی تم نے لی ہی نہیں۔ ایک بار جب میرے شہر کے ساحل پر رکے بھی تو میں اپنی ریسرچ کے بحری سفر پر تھی۔ اس ہفتے تم جو پین میرے لئے آفس میں چھوڑ گئے تھے، تیس برس بیت گئے، وہ اب تک میرے پاس ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ شادی تم نے کی نہ میں نے۔ بس یونیورسٹی کے ہوسٹل سے ملحق ایک فلیٹ ہی میں اتنے برس گزار دئے میں نے۔ ایک بار تو تمہیں لکھ بھی دیا تھا کہ میری ریسرچ اور تمہارے میسج ہی میرے لئے کافی ہیں- تم نے کبھی کچھ نہیں بتایا۔
اب مانو یا نہ مانو، تمہارے فون پر ملنے والے اس میسج نے پچھلے پانچ گھنٹے میں مجھے اتنا مصروف رکھا ہے کہ اس سے پہلے کسی کام نے نہیں رکھا۔ یہاں تک کہ میرے اس پہلے بحری سفر کی ریسرچ نے بھی نہیں جب ہم ملے تھے۔ یہ میسج تم نے خود نہیں بلکہ جہاز سے تمہارے عملے کے ایک ڈاکٹر نے لکھا ہے۔ تم مر گئے ہو۔ دو ہفتے سے بیمار تھے۔ اور اب بے حس و حرکت ایک تابوت میں بند سرد کمرے میں ہو۔ تمہاری وصیت، جو تم نے (مجھے بتائے بنا) کبھی سے لکھ چھوڑی تھی، اس کے مطابق تمہارا سب ساز و سامان اور ایک لفافے میں بند کچھ قانونی کاغذات مجھے وصول کرنے ہیں۔ اور جیسا کہ تم نے اپنے کولیگز کو کہا تھا، تمہیں وہ اس پہلی بندرگاہ پر جہاں یہ جہاز رکے گا تدفین کے لئے اتار دیں گے۔
سنو۔ میں نے اپنی جاب سے استعفی لکھ دیا ہے۔ کمپیوٹر پر ٹائپ کر رہی تھی مگر رک گئی، پھر پرنٹر سے ایک کاغذ نکالا اور تمہارے ہی دئے ہوئے پین سے اسے لکھا۔ لکھنے سے پہلے اپنے ڈیسک سے اٹھی تھی میں۔ تمہاری ہی طرح کا برس ہا برس کا ساتھ اپنی ریسرچ سے بھی تو ہے۔ دیواروں پر کئی تصویریں آویزاں تھیں۔ سمندروں کی گہرایوں میں جانے کیسے کیسے تخلیق دی ہوئی جیتی جاگتی زندگی کی تصویریں جن کی پہلی دریافت کے ساتھ میرا نام بھی آتا ہے- ان میں سے ایک ایک کے پاس رکی اور پھر آئینے کے سامنے آ کر ٹھہر گئی۔ اپنا عکس بھی یوں لگا کہ جیسے میں نہیں تم میرے سامنے ہو اور ابھی ہاتھ بڑھا کر اس پہلے سفر کی طرح میرے نڈھال بدن کو تھام لو گے۔۔ سوچا کہ ہمارا پیار بھی ایک گہرے سمندر ہی کی طرح ہے۔ ایک ایسی گہرائی جہاں چاند کی چاندنی اور سورج کی دھوپ نہیں پہنچتی۔ مگر دن رات کے آنے جانے اور سطح کے رنگ برنگ طلاطم کے سب استعاروں سے بے نیاز ایک خوبصورت زندگی وہاں بھی تو بس رہی ہے۔ سوچ کے اس ایک لمحے میں مَیں تمہاری بانہوں میں سمٹ گئی۔
ہاں، میں نے ہوائی جہاز کی بکنگ لی ہے، سفر طویل تو ہے مگر امید ہے کہ تمہارے آنے سے چند گھنٹے پہلے بیونس آئرس ارجنٹائن کی بندرگاہ تک پہنچ جائوں گی۔ وہاں چاکاریٹا کے نواح میں ایک چھوٹے سے خوبصورت قبرستان میں ساتھ ساتھ دو قبروں کی جگہ بھی مل گئی ہے۔ کچھ دور ہی ایک مکان خالی ہے، سوچ رہی ہوں کہ لے لوں تو پیدل آ جا سکوں گی تمہارے پاس، مگر جا کر دیکھوں گی۔
توبہ، آج پہلی بار کتنا تھکا دیا ہے تم نے مجھے۔ جائو نہیں بولتی۔
ریاض اکبر
آسٹریلیا
اس بندرگاہ پر جہاں میرا ریسرچ کا یہ سفر ختم ہوا تھا جہاز ایک ہفتہ تک ٹھہرا۔ چاہتی تو اتر کر جلد ہی میں اپنے ملک کی فلائٹ لے سکتی تھی، اور یونیورسٹی میں میرے لیکچر بھی شروع ہونے کو تھے، مگر میں رکی رہی۔ تاہم عملے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ آئیندہ سفر کی تیاری میں تم بہت مصروف تھے، سو ہم بس دو ایک بار ہی تھوڑا سا مل سکے۔ بعد کی زندگی میں اور کئی ریسرچ کے جہازوں میں گئی، کچھ بیمار بھی ہوتی رہی، اور عملے کے ڈاکٹروں نے توجہ بھی دی۔ مگر وہ احساس جو تمہاری توجہ پر جاگا تھا وہ نہیں تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ دور سمندر کی سطح پر کی ہوئی دوستیاں بہت رسمی بھی ہو سکتی ہیں اور بہت گہری بھی۔ اب ہمیں ہی دیکھ لو، وقت نے کچھ اس طرح بِتایا ہے ہم دونوں کو کہ اندازہ ہی نہیں ہوا اور ایک دوسرے کو یوں جانے ہوئے پینتیس برس بیت گئے۔ ہم خط لکھتے رہے، تصویریں بھیجتے رہے اور پچھلے کچھ سالوں سے فون پر میسج بھی۔ میں اپنی ریسرچ، گہرے سمندر کی مخلوقات اور ڈپٹی وائس چانسلر بننے کے بعد یونیورسٹی میں بڑھتی ہوئی انتظامی مصروفیات کے بارے میں لکھتی، اور تم نئے نئے شہروں، سمندری طوفانوں، جہازوں میں پھوٹنے والی وبائوں، اور جہاز رانی کے بدلتے ہوئے انداز کی بابت۔ ہاں تم نے ریسرچ کے جہازوں کو چھوڑ سمندری تفریح کے ایک بہت بڑے جہاز کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔
اب مڑ کر دیکھیں تو کتنی آسانی سے ہم دوبارہ مل بھی سکتے تھے۔ میں تمہارے ساتھ کسی ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ تک چند ہفتے سفر کر لیتی، یا تم اپنی چھٹیاں گزارنے یہاں آ جاتے۔ مگر چھٹی تو شاید کبھی تم نے لی ہی نہیں۔ ایک بار جب میرے شہر کے ساحل پر رکے بھی تو میں اپنی ریسرچ کے بحری سفر پر تھی۔ اس ہفتے تم جو پین میرے لئے آفس میں چھوڑ گئے تھے، تیس برس بیت گئے، وہ اب تک میرے پاس ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ شادی تم نے کی نہ میں نے۔ بس یونیورسٹی کے ہوسٹل سے ملحق ایک فلیٹ ہی میں اتنے برس گزار دئے میں نے۔ ایک بار تو تمہیں لکھ بھی دیا تھا کہ میری ریسرچ اور تمہارے میسج ہی میرے لئے کافی ہیں- تم نے کبھی کچھ نہیں بتایا۔
اب مانو یا نہ مانو، تمہارے فون پر ملنے والے اس میسج نے پچھلے پانچ گھنٹے میں مجھے اتنا مصروف رکھا ہے کہ اس سے پہلے کسی کام نے نہیں رکھا۔ یہاں تک کہ میرے اس پہلے بحری سفر کی ریسرچ نے بھی نہیں جب ہم ملے تھے۔ یہ میسج تم نے خود نہیں بلکہ جہاز سے تمہارے عملے کے ایک ڈاکٹر نے لکھا ہے۔ تم مر گئے ہو۔ دو ہفتے سے بیمار تھے۔ اور اب بے حس و حرکت ایک تابوت میں بند سرد کمرے میں ہو۔ تمہاری وصیت، جو تم نے (مجھے بتائے بنا) کبھی سے لکھ چھوڑی تھی، اس کے مطابق تمہارا سب ساز و سامان اور ایک لفافے میں بند کچھ قانونی کاغذات مجھے وصول کرنے ہیں۔ اور جیسا کہ تم نے اپنے کولیگز کو کہا تھا، تمہیں وہ اس پہلی بندرگاہ پر جہاں یہ جہاز رکے گا تدفین کے لئے اتار دیں گے۔
سنو۔ میں نے اپنی جاب سے استعفی لکھ دیا ہے۔ کمپیوٹر پر ٹائپ کر رہی تھی مگر رک گئی، پھر پرنٹر سے ایک کاغذ نکالا اور تمہارے ہی دئے ہوئے پین سے اسے لکھا۔ لکھنے سے پہلے اپنے ڈیسک سے اٹھی تھی میں۔ تمہاری ہی طرح کا برس ہا برس کا ساتھ اپنی ریسرچ سے بھی تو ہے۔ دیواروں پر کئی تصویریں آویزاں تھیں۔ سمندروں کی گہرایوں میں جانے کیسے کیسے تخلیق دی ہوئی جیتی جاگتی زندگی کی تصویریں جن کی پہلی دریافت کے ساتھ میرا نام بھی آتا ہے- ان میں سے ایک ایک کے پاس رکی اور پھر آئینے کے سامنے آ کر ٹھہر گئی۔ اپنا عکس بھی یوں لگا کہ جیسے میں نہیں تم میرے سامنے ہو اور ابھی ہاتھ بڑھا کر اس پہلے سفر کی طرح میرے نڈھال بدن کو تھام لو گے۔۔ سوچا کہ ہمارا پیار بھی ایک گہرے سمندر ہی کی طرح ہے۔ ایک ایسی گہرائی جہاں چاند کی چاندنی اور سورج کی دھوپ نہیں پہنچتی۔ مگر دن رات کے آنے جانے اور سطح کے رنگ برنگ طلاطم کے سب استعاروں سے بے نیاز ایک خوبصورت زندگی وہاں بھی تو بس رہی ہے۔ سوچ کے اس ایک لمحے میں مَیں تمہاری بانہوں میں سمٹ گئی۔
ہاں، میں نے ہوائی جہاز کی بکنگ لی ہے، سفر طویل تو ہے مگر امید ہے کہ تمہارے آنے سے چند گھنٹے پہلے بیونس آئرس ارجنٹائن کی بندرگاہ تک پہنچ جائوں گی۔ وہاں چاکاریٹا کے نواح میں ایک چھوٹے سے خوبصورت قبرستان میں ساتھ ساتھ دو قبروں کی جگہ بھی مل گئی ہے۔ کچھ دور ہی ایک مکان خالی ہے، سوچ رہی ہوں کہ لے لوں تو پیدل آ جا سکوں گی تمہارے پاس، مگر جا کر دیکھوں گی۔
توبہ، آج پہلی بار کتنا تھکا دیا ہے تم نے مجھے۔ جائو نہیں بولتی۔
ریاض اکبر
آسٹریلیا
सारी डिग्रियाँ पास कर गई, मगर कभी किताबों में पढ़ा न किसी ने बताया कि जब मिलूँ तो कैसे तुम्हें पहचानूँ। यूँ ही ज़िंदगी के चंद रोज़ तुम्हारे साथ गुज़ार कर गुज़र गई। वो परख ही नहीं थी मेरे पास कि तुम्हें अताह तक जान सकती। सितम तो यह है कि मुझे यह भी मालूम नहीं था कि ऐसी परख मुझे जानने के लिए तुम्हारे पास भी नहीं। शायद किसी के लिए किसी के पास भी नहीं होती। अगर मैं जानती तो कम से कम यह तो मुमकिन था कि हम एक दूसरे के माथे से माथा मिलाकर मान लेते कि जो हम जान गए हैं, वही हमारे साथ-साथ देर तक जीने के लिए बहुत है। गहरे समुंदर की मछलियों और केकड़ों की वो नित नई क़िस्में जो इस रिसर्च के बहरी जहाज़ से बँधे हुए जाल में खिंच कर अर्शे तक आती थीं, बस उन्हीं में मग्न मेरे चार महीने गुज़र गए। नई रिसर्च थी और मेरा पहला बहरी सफ़र। रातों को जाग-जाग कर काम किया था मैंने। इस थोड़े से वक़्त में हर ज़ाविए से उनकी तस्वीरें लेना, उनकी साख़्त, साइज़, अज़ा का अनुपात समझना, साहिल पर पहुँचने के बाद के तफ़्सीली तज़्ज़िए के लिए उन्हें महफ़ूज़ करना, फिर सब रिकॉर्ड लिखना, सोचना और बार-बार पढ़ना — यह सब कुछ कम ज़िम्मेदारी तो नहीं थी। सो ऐसे हिलकोरों में झूलते-झूमते गाहे-बगाहे बीमार पड़ना भी तो हक़ बनता था न मेरा। मैं मरीन बायोलॉजिस्ट थी और तुम जहाज़ के मेडिकल डॉक्टर। यूँ तो जहाज़ के छोटे से अमले में मेलजोल सभी के साथ ही था, मगर थकान और समुद्री सफ़र में मेरे यूँ बार-बार बीमार होने पर तुम्हारी वह तवज्जो जाने कहाँ बहाकर लिए जा रही थी मुझे। ऐसे लगता था कि बीमार मैं होती हूँ और परेशान तुम। रातों को जाग कर वो तुम्हारा मेरे बिस्तर के पास तक आना, ख़ैरियत पूछना, दवा देना, खाने और कॉफ़ी का इंतज़ाम करना, कभी-कभी सहारा देकर उठाना — यह सब कुछ मुझे डॉक्टरी से कुछ बढ़कर, गहरी दोस्ती और देरपा साथ की तरह लगने लगा था। फिर सोचती कि शायद यह तुम्हारी प्रोफ़ेशनल लगन है। शायद सभी के साथ ही तुम ऐसे हो, और मेरे लिए कुछ ख़ास नहीं। फिर तुमने भी तो खुलकर कुछ नहीं कहा था। बाद में कई बार यह ख़याल आया कि हम दोनों ही पहल करने से हिचकिचा गए।
उस बंदरगाह पर जहाँ मेरा रिसर्च का यह सफ़र ख़त्म हुआ था, जहाज़ एक हफ़्ते तक ठहरा। चाहती तो उतर कर जल्द ही मैं अपने मुल्क की फ़्लाइट ले सकती थी, और यूनिवर्सिटी में मेरे लेक्चर भी शुरू होने को थे, मगर मैं रुकी रही। हालाँकि अमले के दूसरे लोगों के साथ आइंदा सफ़र की तैयारी में तुम बहुत मसरूफ़ थे, सो हम बस दो-एक बार ही थोड़ा सा मिल सके। बाद की ज़िंदगी में और कई रिसर्च के जहाज़ों में गई, कुछ बीमार भी होती रही, और अमले के डॉक्टरों ने तवज्जो भी दी। मगर वो एहसास जो तुम्हारी तवज्जो पर जागा था — वो नहीं था। मुझे अंदाज़ा हुआ कि दूर समुंदर की सतह पर की हुई दोस्तियाँ बहुत रस्मी भी हो सकती हैं और बहुत गहरी भी।
अब हमें ही देख लो — वक़्त ने कुछ इस तरह बिताया है हम दोनों को कि अंदाज़ा ही नहीं हुआ और एक दूसरे को यूँ जाने हुए पैंतीस बरस बीत गए। हम ख़त लिखते रहे, तस्वीरें भेजते रहे और पिछले कुछ सालों से फ़ोन पर मेसेज भी। मैं अपनी रिसर्च, गहरे समुंदर की मख़लूक़ात और डिप्टी वाइस चांसलर बनने के बाद यूनिवर्सिटी में बढ़ती हुई इंतेज़ामी मसरूफ़ियात के बारे में लिखती, और तुम नए-नए शहरों, समुद्री तूफ़ानों, जहाज़ों में फूटने वाली वबाओं और जहाज़रानी के बदलते हुए अंदाज़ की बाबत। हाँ, तुमने रिसर्च के जहाज़ों को छोड़, समुद्री तफ़रीह के एक बहुत बड़े जहाज़ को अपना मस्कन बना लिया था।
अब मुड़ कर देखें तो कितनी आसानी से हम दोबारा मिल भी सकते थे। मैं तुम्हारे साथ किसी एक बंदरगाह से दूसरी बंदरगाह तक चंद हफ़्ते सफ़र कर लेती, या तुम अपनी छुट्टियाँ गुज़ारने यहाँ आ जाते। मगर छुट्टी तो शायद कभी तुमने ली ही नहीं। एक बार जब मेरे शहर के साहिल पर रुके भी तो मैं अपनी रिसर्च के बहरी सफ़र पर थी।
उस हफ़्ते तुम जो पेन मेरे लिए ऑफ़िस में छोड़ गए थे — तीस बरस बीत गए — वो अब तक मेरे पास है। अजीब बात यह है कि शादी तुमने की न मैंने। बस यूनिवर्सिटी के हॉस्टल से मिलحق एक फ़्लैट ही में इतने बरस गुज़ार दिए मैंने। एक बार तो तुम्हें लिख भी दिया था कि मेरी रिसर्च और तुम्हारे मेसेज ही मेरे लिए काफ़ी हैं — तुमने कभी कुछ नहीं बताया।
अब मुड़ कर देखें तो कितनी आसानी से हम दोबारा मिल भी सकते थे। मैं तुम्हारे साथ किसी एक बंदरगाह से दूसरी बंदरगाह तक चंद हफ़्ते सफ़र कर लेती, या तुम अपनी छुट्टियाँ गुज़ारने यहाँ आ जाते। मगर छुट्टी तो शायद कभी तुमने ली ही नहीं। एक बार जब मेरे शहर के साहिल पर रुके भी तो मैं अपनी रिसर्च के बहरी सफ़र पर थी।
उस हफ़्ते तुम जो पेन मेरे लिए ऑफ़िस में छोड़ गए थे — तीस बरस बीत गए — वो अब तक मेरे पास है। अजीब बात यह है कि शादी तुमने की न मैंने। बस यूनिवर्सिटी के हॉस्टल से मुल्हक़ एक फ़्लैट ही में इतने बरस गुज़ार दिए मैंने। एक बार तो तुम्हें लिख भी दिया था कि मेरी रिसर्च और तुम्हारे मेसेज ही मेरे लिए काफ़ी हैं — तुमने कभी कुछ नहीं बताया।
अब मानो या न मानो, तुम्हारे फ़ोन पर मिलने वाले इस मेसेज ने पिछले पाँच घंटे में मुझे इतना मसरूफ़ रखा है कि इस से पहले किसी काम ने नहीं रखा। यहाँ तक कि मेरे उस पहले बहरी सफ़र की रिसर्च ने भी नहीं — जब हम मिले थे।
यह मेसेज तुमने ख़ुद नहीं, बल्कि जहाज़ से तुम्हारे अमले के एक डॉक्टर ने लिखा है। तुम मर गए हो। दो हफ़्ते से बीमार थे। और अब बेजान एक ताबूत में बंद, सर्द कमरे में हो।
तुम्हारी वसीयत, जो तुमने (मुझे बताए बिना) कब से लिख छोड़ी थी, उसके मुताबिक तुम्हारा सब साज़-ओ-सामान और एक लिफ़ाफ़े में बंद कुछ क़ानूनी काग़ज़ात मुझे वसूल करने हैं। और जैसा कि तुमने अपने कलीग्स को कहा था, तुम्हें वो उस पहली बंदरगाह पर जहाँ ये जहाज़ रुकेगा,
सुनो — मैंने अपनी नौकरी से इस्तीफ़ा लिख दिया है। कंप्यूटर पर टाइप कर रही थी मगर रुक गई, फिर प्रिंटर से एक कागज़ निकाला और तुम्हारे ही दिए हुए पेन से उसे लिखा। लिखने से पहले अपने डेस्क से उठी थी मैं। तुम्हारी ही तरह का बरसों पुराना साथ अपनी रिसर्च से भी तो है।
दीवारों पर कई तस्वीरें टंगी थीं — समुंदरों की गहराइयों में जाने कैसी-कैसी सृजन दी हुई, जीती-जागती ज़िंदगियों की तस्वीरें, जिनकी पहली खोज के साथ मेरा नाम भी आता है।
उनमें से एक-एक के पास रुकी, और फिर आईने के सामने आकर ठहर गई। अपना अक्स भी यूँ लगा कि जैसे मैं नहीं, तुम मेरे सामने हो और अभी हाथ बढ़ाकर उस पहले सफ़र की तरह मेरे निढाल बदन को थाम लोगे।
सोचा कि हमारा प्यार भी एक गहरे समुंदर की तरह है — एक ऐसी गहराई जहाँ चाँद की चाँदनी और सूरज की धूप नहीं पहुँचती। मगर दिन-रात के आने-जाने और सतह के रंग-बिरंगे उतार-चढ़ाव के सब रूपकों से परे, एक ख़ूबसूरत ज़िंदगी वहाँ भी तो बस रही है।
सोच के उस एक पल में — मैं तुम्हारी बाहों में सिमट गई।
हाँ, मैंने हवाई जहाज़ की बुकिंग कर ली है। सफ़र लंबा तो है, मगर उम्मीद है कि तुम्हारे आने से कुछ घंटे पहले ब्यूनस आयर्स, अर्जेंटीना की बंदरगाह तक पहुँच जाऊँगी।
वहाँ चाकारिटा के नज़दीक एक छोटे से सुंदर कब्रिस्तान में साथ-साथ दो कब्रों की जगह भी मिल गई है।
कुछ दूर ही एक मकान खाली है — सोच रही हूँ कि ले लूँ, ताकि पैदल आ-जा सकूँ तुम्हारे पास — मगर जाकर देखूँगी।
तौबा! आज पहली बार कितना थका दिया है तुमने मुझे। जाओ — नहीं बोलती।
रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
उस बंदरगाह पर जहाँ मेरा रिसर्च का यह सफ़र ख़त्म हुआ था, जहाज़ एक हफ़्ते तक ठहरा। चाहती तो उतर कर जल्द ही मैं अपने मुल्क की फ़्लाइट ले सकती थी, और यूनिवर्सिटी में मेरे लेक्चर भी शुरू होने को थे, मगर मैं रुकी रही। हालाँकि अमले के दूसरे लोगों के साथ आइंदा सफ़र की तैयारी में तुम बहुत मसरूफ़ थे, सो हम बस दो-एक बार ही थोड़ा सा मिल सके। बाद की ज़िंदगी में और कई रिसर्च के जहाज़ों में गई, कुछ बीमार भी होती रही, और अमले के डॉक्टरों ने तवज्जो भी दी। मगर वो एहसास जो तुम्हारी तवज्जो पर जागा था — वो नहीं था। मुझे अंदाज़ा हुआ कि दूर समुंदर की सतह पर की हुई दोस्तियाँ बहुत रस्मी भी हो सकती हैं और बहुत गहरी भी।
अब हमें ही देख लो — वक़्त ने कुछ इस तरह बिताया है हम दोनों को कि अंदाज़ा ही नहीं हुआ और एक दूसरे को यूँ जाने हुए पैंतीस बरस बीत गए। हम ख़त लिखते रहे, तस्वीरें भेजते रहे और पिछले कुछ सालों से फ़ोन पर मेसेज भी। मैं अपनी रिसर्च, गहरे समुंदर की मख़लूक़ात और डिप्टी वाइस चांसलर बनने के बाद यूनिवर्सिटी में बढ़ती हुई इंतेज़ामी मसरूफ़ियात के बारे में लिखती, और तुम नए-नए शहरों, समुद्री तूफ़ानों, जहाज़ों में फूटने वाली वबाओं और जहाज़रानी के बदलते हुए अंदाज़ की बाबत। हाँ, तुमने रिसर्च के जहाज़ों को छोड़, समुद्री तफ़रीह के एक बहुत बड़े जहाज़ को अपना मस्कन बना लिया था।
अब मुड़ कर देखें तो कितनी आसानी से हम दोबारा मिल भी सकते थे। मैं तुम्हारे साथ किसी एक बंदरगाह से दूसरी बंदरगाह तक चंद हफ़्ते सफ़र कर लेती, या तुम अपनी छुट्टियाँ गुज़ारने यहाँ आ जाते। मगर छुट्टी तो शायद कभी तुमने ली ही नहीं। एक बार जब मेरे शहर के साहिल पर रुके भी तो मैं अपनी रिसर्च के बहरी सफ़र पर थी।
उस हफ़्ते तुम जो पेन मेरे लिए ऑफ़िस में छोड़ गए थे — तीस बरस बीत गए — वो अब तक मेरे पास है। अजीब बात यह है कि शादी तुमने की न मैंने। बस यूनिवर्सिटी के हॉस्टल से मिलحق एक फ़्लैट ही में इतने बरस गुज़ार दिए मैंने। एक बार तो तुम्हें लिख भी दिया था कि मेरी रिसर्च और तुम्हारे मेसेज ही मेरे लिए काफ़ी हैं — तुमने कभी कुछ नहीं बताया।
अब मुड़ कर देखें तो कितनी आसानी से हम दोबारा मिल भी सकते थे। मैं तुम्हारे साथ किसी एक बंदरगाह से दूसरी बंदरगाह तक चंद हफ़्ते सफ़र कर लेती, या तुम अपनी छुट्टियाँ गुज़ारने यहाँ आ जाते। मगर छुट्टी तो शायद कभी तुमने ली ही नहीं। एक बार जब मेरे शहर के साहिल पर रुके भी तो मैं अपनी रिसर्च के बहरी सफ़र पर थी।
उस हफ़्ते तुम जो पेन मेरे लिए ऑफ़िस में छोड़ गए थे — तीस बरस बीत गए — वो अब तक मेरे पास है। अजीब बात यह है कि शादी तुमने की न मैंने। बस यूनिवर्सिटी के हॉस्टल से मुल्हक़ एक फ़्लैट ही में इतने बरस गुज़ार दिए मैंने। एक बार तो तुम्हें लिख भी दिया था कि मेरी रिसर्च और तुम्हारे मेसेज ही मेरे लिए काफ़ी हैं — तुमने कभी कुछ नहीं बताया।
अब मानो या न मानो, तुम्हारे फ़ोन पर मिलने वाले इस मेसेज ने पिछले पाँच घंटे में मुझे इतना मसरूफ़ रखा है कि इस से पहले किसी काम ने नहीं रखा। यहाँ तक कि मेरे उस पहले बहरी सफ़र की रिसर्च ने भी नहीं — जब हम मिले थे।
यह मेसेज तुमने ख़ुद नहीं, बल्कि जहाज़ से तुम्हारे अमले के एक डॉक्टर ने लिखा है। तुम मर गए हो। दो हफ़्ते से बीमार थे। और अब बेजान एक ताबूत में बंद, सर्द कमरे में हो।
तुम्हारी वसीयत, जो तुमने (मुझे बताए बिना) कब से लिख छोड़ी थी, उसके मुताबिक तुम्हारा सब साज़-ओ-सामान और एक लिफ़ाफ़े में बंद कुछ क़ानूनी काग़ज़ात मुझे वसूल करने हैं। और जैसा कि तुमने अपने कलीग्स को कहा था, तुम्हें वो उस पहली बंदरगाह पर जहाँ ये जहाज़ रुकेगा,
सुनो — मैंने अपनी नौकरी से इस्तीफ़ा लिख दिया है। कंप्यूटर पर टाइप कर रही थी मगर रुक गई, फिर प्रिंटर से एक कागज़ निकाला और तुम्हारे ही दिए हुए पेन से उसे लिखा। लिखने से पहले अपने डेस्क से उठी थी मैं। तुम्हारी ही तरह का बरसों पुराना साथ अपनी रिसर्च से भी तो है।
दीवारों पर कई तस्वीरें टंगी थीं — समुंदरों की गहराइयों में जाने कैसी-कैसी सृजन दी हुई, जीती-जागती ज़िंदगियों की तस्वीरें, जिनकी पहली खोज के साथ मेरा नाम भी आता है।
उनमें से एक-एक के पास रुकी, और फिर आईने के सामने आकर ठहर गई। अपना अक्स भी यूँ लगा कि जैसे मैं नहीं, तुम मेरे सामने हो और अभी हाथ बढ़ाकर उस पहले सफ़र की तरह मेरे निढाल बदन को थाम लोगे।
सोचा कि हमारा प्यार भी एक गहरे समुंदर की तरह है — एक ऐसी गहराई जहाँ चाँद की चाँदनी और सूरज की धूप नहीं पहुँचती। मगर दिन-रात के आने-जाने और सतह के रंग-बिरंगे उतार-चढ़ाव के सब रूपकों से परे, एक ख़ूबसूरत ज़िंदगी वहाँ भी तो बस रही है।
सोच के उस एक पल में — मैं तुम्हारी बाहों में सिमट गई।
हाँ, मैंने हवाई जहाज़ की बुकिंग कर ली है। सफ़र लंबा तो है, मगर उम्मीद है कि तुम्हारे आने से कुछ घंटे पहले ब्यूनस आयर्स, अर्जेंटीना की बंदरगाह तक पहुँच जाऊँगी।
वहाँ चाकारिटा के नज़दीक एक छोटे से सुंदर कब्रिस्तान में साथ-साथ दो कब्रों की जगह भी मिल गई है।
कुछ दूर ही एक मकान खाली है — सोच रही हूँ कि ले लूँ, ताकि पैदल आ-जा सकूँ तुम्हारे पास — मगर जाकर देखूँगी।
तौबा! आज पहली बार कितना थका दिया है तुमने मुझे। जाओ — नहीं बोलती।
रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
All degrees I accomplished, yet no where I read in a book and one ever told me that how I would recognise you when we meet. I only spent a few days of my life close to you, and that was all. I did not have the capability to look deep into your soul. The cruelty lies in the fact that I didn't even know that you don't have the means to recognise me either. Perhaps it's something that isn't available to anyone. If I had known this, at least it would have been possible for us stand side by side with our foreheads touching, admitting whatever we have discovered about each other so far is enough to live together for a long time.
Those fish and crabs of the deep sea, the new species that were pulled into the net of this research vessel, captivated me for four months. It was new research and my first maritime journey. I worked tirelessly through the nights. In the little time I had, I photographed them from every angle, understood their structure, size, and proportions, preserved them for detailed analysis upon reaching the shore, then documented everything, pondered, and read repeatedly. It wasn't just a responsibility; it became an obsession. So intermittently falling ill while swaying through that turbulent journey seemed justified to me. I was a marine biologist, and you were the medical doctor on the ship. Although mingling with the small crew of the ship was common, but your attention that was drawn to me was an exception whenever I fell ill during the sea journey. It felt like you get too concerned for me as a patient. You would come to my bedside at night, asking about my well-being, administering medication, taking care of meals and refreshments, sometimes helping me sit up by offering support. All this began to feel more like a deep friendship and prolonged company than just doctor-patient interaction. Then I thought maybe this is your professional demeanour. Maybe this is how you are with everyone, and there's nothing special for me. Then again, you never openly said anything. Sometimes, I wonder that we both hesitated to take the first step.
The ship anchored for a week at the port where my research journey ended. I disembarked and could have taken an early flight back to my country, my university lectures were also about to commence, yet I stayed back. However, you were busy with the crew members preparing for the next journey, so we only got a little time together. Life moved on, and I went on several research voyages, fell ill occasionally, and caught the attention of the doctors on board. But the feeling that was sparked by your attention was not there. I realised that friendships formed on the surface of the distant seas could be both formal and deep. Just look at our own example, the time has treated us such that we can’t even guess that we have known each other for the past thirty-five years. We kept writing letters, sending pictures, emails, and for the past few years messaging each other. I wrote about my research, the creatures of the deep sea, and the administrative duties after becoming the deputy vice chancellor at the university; and you talked about the new cities, sea storms, outbreaks on ships, and the changing atmosphere of ship life. Yes, you left the research vessels and joined a luxury cruise ship, practically as your residence.
Looking back, it would have been so easy for us to meet again. I would have travelled with you from one port to another for a few weeks, or you would come here for your holidays. But maybe you never took holidays. Once when your ship stopped at the shore of my city, I was on my maritime research journey. The pen you that left for me in my office that week, thirty years have passed, and it's still with me. As for me, I've spent all these years in the same flat attached to the university hostel. Once, I even wrote to you that my research and your messages are enough for me - you never said anything.
Whether you believe it or not, this message on your phone has kept me busier in the past five hours than any other task before; even more that my first maritime journey when we met. You didn't write this message yourself; it was written on your phone by another doctor from your crew. You passed away. You were ill for two weeks. And now, lifeless and motionless, you lie in a cold room enclosed in a coffin. According to your will, which you had left written (without telling me), all your belongings and some legal documents bundled up in a package are to be delivered to me. And as you told your colleagues, you should be taken off for burial at the first port where this ship docks.
Listen. I've resigned from my job. I was typing my resignation on the computer, but I stopped, then took out a paper from the printer and wrote it with the pen you gave me. Before writing, I stood up from my desk. Many pictures were hanging on the walls; those images of the vibrant life of the deep seas, the kinds of life whose discovery carries my name – I stood next to each one of them, and then settled in front of the mirror. At that moment, my reflection seemed that it's not me, but you who is in front of me, ready to hold my frail body in your arms again, like our first journey. I thought that our love is also like a deep sea - a depth where the moonlight and sunshine don't reach. But a beautiful life, untouched by the trappings of day and night, undisturbed by the colourful chaos of the surface, still thrives there. In this very moment of thought, I settled in your outstretched arms.
Yes, I've booked a flight. The journey is long, but hopefully, a few hours before your arrival, I'll reach the port of Buenos Aires, Argentina. There, in the coves of Chacarita, in a small, beautiful graveyard, I could acquire two gravesites side by side. There is a place for sale not far, and I might be able to walk to you from there, but I'll go and see.
Oh, how tired you've made me today for the first time.
Go, I don’t want to talk to you.
Riaz Akber, Australia
Those fish and crabs of the deep sea, the new species that were pulled into the net of this research vessel, captivated me for four months. It was new research and my first maritime journey. I worked tirelessly through the nights. In the little time I had, I photographed them from every angle, understood their structure, size, and proportions, preserved them for detailed analysis upon reaching the shore, then documented everything, pondered, and read repeatedly. It wasn't just a responsibility; it became an obsession. So intermittently falling ill while swaying through that turbulent journey seemed justified to me. I was a marine biologist, and you were the medical doctor on the ship. Although mingling with the small crew of the ship was common, but your attention that was drawn to me was an exception whenever I fell ill during the sea journey. It felt like you get too concerned for me as a patient. You would come to my bedside at night, asking about my well-being, administering medication, taking care of meals and refreshments, sometimes helping me sit up by offering support. All this began to feel more like a deep friendship and prolonged company than just doctor-patient interaction. Then I thought maybe this is your professional demeanour. Maybe this is how you are with everyone, and there's nothing special for me. Then again, you never openly said anything. Sometimes, I wonder that we both hesitated to take the first step.
The ship anchored for a week at the port where my research journey ended. I disembarked and could have taken an early flight back to my country, my university lectures were also about to commence, yet I stayed back. However, you were busy with the crew members preparing for the next journey, so we only got a little time together. Life moved on, and I went on several research voyages, fell ill occasionally, and caught the attention of the doctors on board. But the feeling that was sparked by your attention was not there. I realised that friendships formed on the surface of the distant seas could be both formal and deep. Just look at our own example, the time has treated us such that we can’t even guess that we have known each other for the past thirty-five years. We kept writing letters, sending pictures, emails, and for the past few years messaging each other. I wrote about my research, the creatures of the deep sea, and the administrative duties after becoming the deputy vice chancellor at the university; and you talked about the new cities, sea storms, outbreaks on ships, and the changing atmosphere of ship life. Yes, you left the research vessels and joined a luxury cruise ship, practically as your residence.
Looking back, it would have been so easy for us to meet again. I would have travelled with you from one port to another for a few weeks, or you would come here for your holidays. But maybe you never took holidays. Once when your ship stopped at the shore of my city, I was on my maritime research journey. The pen you that left for me in my office that week, thirty years have passed, and it's still with me. As for me, I've spent all these years in the same flat attached to the university hostel. Once, I even wrote to you that my research and your messages are enough for me - you never said anything.
Whether you believe it or not, this message on your phone has kept me busier in the past five hours than any other task before; even more that my first maritime journey when we met. You didn't write this message yourself; it was written on your phone by another doctor from your crew. You passed away. You were ill for two weeks. And now, lifeless and motionless, you lie in a cold room enclosed in a coffin. According to your will, which you had left written (without telling me), all your belongings and some legal documents bundled up in a package are to be delivered to me. And as you told your colleagues, you should be taken off for burial at the first port where this ship docks.
Listen. I've resigned from my job. I was typing my resignation on the computer, but I stopped, then took out a paper from the printer and wrote it with the pen you gave me. Before writing, I stood up from my desk. Many pictures were hanging on the walls; those images of the vibrant life of the deep seas, the kinds of life whose discovery carries my name – I stood next to each one of them, and then settled in front of the mirror. At that moment, my reflection seemed that it's not me, but you who is in front of me, ready to hold my frail body in your arms again, like our first journey. I thought that our love is also like a deep sea - a depth where the moonlight and sunshine don't reach. But a beautiful life, untouched by the trappings of day and night, undisturbed by the colourful chaos of the surface, still thrives there. In this very moment of thought, I settled in your outstretched arms.
Yes, I've booked a flight. The journey is long, but hopefully, a few hours before your arrival, I'll reach the port of Buenos Aires, Argentina. There, in the coves of Chacarita, in a small, beautiful graveyard, I could acquire two gravesites side by side. There is a place for sale not far, and I might be able to walk to you from there, but I'll go and see.
Oh, how tired you've made me today for the first time.
Go, I don’t want to talk to you.
Riaz Akber, Australia