Nazli
نازلی
Riaz Akber
25 Jan 2025
آج تیسرا دن ہے کہ میں کلینک نہیں گئی۔ اپنے اپارٹمنٹ کی بالکنی سے باہر جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔ کئی بار روئی ہوں پر غصہ کم نہیں ہو رہا۔ اپنے اندر ایسی بند ہو گئی ہوں کہ شاید ابل کر پھٹ جائوں گی۔ یہ میرے سامنے میز پر جو تصویریں پڑی ہیں دیکھ رہے ہیں نا آپ۔ ان میں سے اکثر نازلی کے سکول کالج کے زمانے کی ہیں۔ بعد میں تو ڈیجیٹل کیمرے اور موبائل فون آگئے تھے۔ اور یہ کونے میں پرزہ پرزہ جو ایک ڈھیری سی ہے، یہ بھی اسی کی تصویروں کی ہے جنہیں میں نے قینچی سے کترا ہے۔ مر جو گئی ہے وہ کمبخت۔ مگر سچ مانیں تو مجھے اس کے مرنے کا غم اتنا نہیں جتنا اس بات پر غصہ ہے کہ موت سے لڑے بغیر اتنی آسانی سے مر کیوں گئی۔
کالج کے دور میں ایک بار نازلی نے کہا تھا کہ ہم لڑکیاں بس دھرتی کی طرح کی ہوتی ہیں۔ ہمارے اندر کا الائو کسی نے نہیں جانا۔ لوگ باگ بس باہر کی دھوپ لا کر روپ دیکھتے ہیں اور اس مانگی ہوئی روشنی میں ہمارا آدھا ہمیشہ اندھیرے میں رہ جاتا ہے۔ اب ان تین دنوں میں کئی بار میں نے سوچا ہے کہ نازلی شاید خود سے مری نہیں، بلکہ اسی آدھے اندھیرے میں مار دی گئی ہے۔ پر اس نے اپنے اندر کا الائو بھڑکایا کیوں نہیں؟ نند کہیں کی۔
ارے ہاں۔ یہ نند کا بطور گالی استعمال بھی ہمارے کالج کے ساتھ کی دین ہے۔ بات کچھ یوں تھی کہ اپنے گلی محلے میں ماں اور بہن کی گالیاں نالی کے پانی کی طرح کھلی بہتی تھیں۔ اور یہ سالا سالی کے الفاظ تو جیسے لڑکے اپنی مائوں کے پیٹ سے سیکھ کر ہی نکلتے تھے۔ سو ایک دن ٹکشاپ کے گروپ میں ہم نے ان سب گالیوں کی مردانگی پر غور کیا، اور جنسی مساوات کے اصول کے تحت پورے انصاف سے باپ اور بھائی کی گالیاں مرتب کیں۔ بس اسی دوران میں کہیں سے یہ نند اور جیٹھ بھی سالی اور سالے کے مقابلے پر آ گئے۔ یہ گالیاں اس وقت بہت مقبول ہوئی تھیں، اور شاید اب تک ہونگی۔
نازلی میری سوتیلی کزن تھی۔ بڑی خالہ دوسرے شہر اپنے بیٹوں کے پاس رہتی تھیں، اور خالو یہیں ہمارے گھر سے کچھ گلیاں چھوڑ کر اپنی اس دوسری بیوی کے ساتھ۔ ہم دونوں سکول اور کالج میں ساتھ ساتھ پڑھے، مگر نازلی اور اس کے گھر والوں کو ہمارے گھر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ کبھی کبھار جب میں نازلی کے گھر چلی جاتی تو امی سے ڈانٹ پڑتی، مگر نازلی کے ابا اور میرے والد باہر گلی محلے میں ملتے جلتے رہتے تھے۔ امی کہتی تھیں کہ خالو اس دوسری بیوی کو بازار سے اٹھا کر لائے تھے۔ معلوم نہیں کہ سچ ہو، مگر میں نے تو انہیں اچھی خاصی نیک اور گھر گھرستی والی ہی دیکھا۔ نازلی کا بھائی ہم سے پانچ سال چھوٹا تھا۔ ہمارے سامنے ہی وہ بچے سے لڑکا بنا اور پھر قد میں ہم سے بھی دو تین انچ اونچا نکل گیا۔ بچپن سے ہی نازلی کو اپنے اپا سے صرف زبانی ڈانٹ ملتی تھی، مگر اس کے بھائی کے لئے ٹھوکریں اور تھپڑ اضافی تھے۔ اس کی امی کو کیا ملتا تھا، یہ نازلی کالج آتے جاتے رستے کی کھسر پھسر میں مجھے بتا دیتی تھی۔ خالو تحصیل کے دفتر میں اسسٹنٹ پٹواری تھے اور پان کھاتے تھے۔ کام کاج نکلوانے والے گھر کا پتہ ڈھونڈ کر آن پہنچتے اور ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے رنگین نوٹوں میں لپٹی ہوئی پان کی گلوریاں چھوڑ جاتے۔ نازلی کو ان پانوں سے شدید نفرت تھی۔
سکول کے زمانے سے ہی نازلی کو بیالوجی بہت پسند تھی۔ کیڑوں کو رینگتے دیکھتی تو ان کی چال سے مسحور ہو کر دیکھتی ہی چلی جاتی۔ کسی دیوار یا بجلی کی تار پر اترے ہوئے پرندے سب کے لئے معمولی بات سہی، مگر وہ چلتے چلتے رک جاتی۔ پھر پرندوں کی حرکنات و سکنات پر اس کا رواں تبصرہ ایسے جاری ہوتا جیسے کرکٹ میچ پر کوئی ریڈیو کمنٹری ہو۔ ایسے میں مجھے کہنی کے ٹھوکوں سے اسے آگے سکول کی جانب یا پھر واپس گھر کی طرف ہانکنا پڑتا۔ کالج میں نازلی نے سائنس کے مضامین رکھے اور میں نے اکنامکس اور سائیکالوجی۔ بارھویں میں اس کے بہت اچھے نمبر آئے مگر ویٹرنری کالج میں داخل نہ ہو سکی۔ خالو اسے کم عمری میں دوسرے شہر ہوسٹل میں بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے۔ ایک لحاظ تو میرے لئے یہ اچھا ہی ہوا، ہمیں کالج میں دو سال اور اکھٹے مل گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب نازلی کے ذہن میں اور اس کی دیکھا دیکھی میرے اندر بھی خواتین کی بے بسی کا احساس شدت سے جاگا۔ نازلی نے تو اس بنیاد پر کالج کا الیکشن لڑا اور ہنسی خوشی ہار بھی گئی۔ اسے مباحثوں میں اچھی کارکردگی پر انعام ملتے تھے، مگر کسی دوسرے شہر جا کر کالج کی نمائیندگی کی اجازت گھر والوں نے نہیں دی تھی۔ یہ وقت یوں تیزی سے گزرا کہ خدا کی پناہ۔ کالج کے بعد میں دوسرے شہر ایک یونیورسٹی چلی گئی مگر نازلی نہ جا سکی۔ اس کا رشتہ آ گیا تھا۔ باپ، بھائی، نند، جیٹھ کی بہت سی گالیوں کے تبادلے میں ہنستے روتے ہم جدا ہوئے تھے۔
اس کی رخصتی پر آ کر مَیں سب سے ملی تھی۔ اس کا بھائی کچھ اور بڑا ہو گیا تھا اور کالج میں پڑھتا تھا۔ 'ذرا خیال رکھنا اس کا۔ ڈاکٹر بنے گا یہ۔ تمہارے ہی شہر میں پڑھنے کو بھیجیں گے۔' نازلی کی امی نے مجھے کہا تھا، اور میں محض رسماُ جی جی کہہ کر رہ گئی تھی۔ نازلی کے میاں کی اسی شہر میں بس اڈے کے پاس موٹروں کے سپئیر پارٹس کی دکان تھی۔ چھوٹے بھائیوں کے ساتھ ساجھے کا کاروبار تھا۔ سب اکھٹے رہتے تھے۔ اچھا خوشحال کھاتا پیتا گھرانہ لگا مجھے۔ مگر ولیمے کی دوپہر جب میں نازلی کو تیار کر رہی تھی تو مجھے وہ کچھ نڈھال اور تھکی ہوئی لگی، بلکہ قدرے خوفزدہ بھی۔ بازو اور گردن پر دانتوں کے کاٹنے کے کئی نشان تھے۔ ' 'توبہ، پائوڈر سے چھپا دے انہیں، لوگ دیکھ لیں گے'۔ نازلی نے کہا تھا۔ میں نے بے اختیار جیٹھ کی بڑی سی گالی دی تھی، اور ہم دونوں ہنس پڑے تھے۔ مگر ٹھیریں، اس سے پہلے کے دن اس وقت کی ایک بات بھی بتائوں آپ کو جب سجنے دھجنے کے بعد نازلی رخصتی کے لئے اندر کے کمرے سے صحن میں آ رہی تھی۔ 'ارے گھونگٹ تو آگے گرا لے بہو، صحن میں مرد بیٹھے ہیں'۔ اسکی ساس نے کہا تھا۔ مجے یاد ہے کہ تب نازلی نے اپنا سر میرے کنھدے پر ایسے جھکایا تھا کہ اس کی سرگوشی صرف میں ہی سن سکی تھی۔ وہی اس کا مخصوص سٹائل۔ ' یہی ہوتا ہے یار، صدیوں سے یہی ہوتا ہے۔ بس آج سے یہ آنگن جہاں میں کھلی گھومتی تھی اجنبی ہو گیا۔ ایک بات بتائوں تجھے۔ جب میں پیدا ہوئی تھی نا، تو بالکل ننگی تھی۔ جانے کتنے لوگوں نے دیکھا۔ میری مان، یہ جو بعد کے غلاف ہیں نا یہ بھی لوگوں کے چڑھائے سکھائے ہوئے ہیں۔ ارے ہاں، اور ہہ جو میری بلی ہے نا، یہ بھی ننگی ہی پیدا ہوئی، اب تک اسی صحن میں ننگی گھومتی ہے۔ ہہ بیالوجی ہے میری جان۔ بیالوجی جو میری ساس کے باپ نے اُسے، اور میرے باپ نے مجھے پڑھنے نہیں دی'۔ 'چپکی رہ بے شرم'۔ جواباً میں نے کہا تھا۔ باہر دہلیز پر دلہا بھائی اور باراتی ہماری ان سرگوشیوں کو شاید رخصتی کی سسکیاں سمجھ کر سر جھکائے کھڑے رہے۔
نازلی کی شادی کے بعد سے ہمارا رابطہ دھیرے دھیرے کم ہوتا گیا۔ گویا وہی ہوا جو اکثر گہری انسانی دوستیوں میں وقت کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ زندگی ایک جگہ ٹھہرتی جو نہیں، حالات اور ماحول بدلتے جاتے ہیں۔ مگر آپ مانیں گے نا کہ ذہن کے صحن میں یادیں تو ویسے ہی نازلی کی بلی کی طرح آزاد گھومتی ہیں۔ سو وہ سکول اور کالج کی نازلی میرے پاس رہی۔ ہمیش۔
سائیکالوجی میں ایڈوانس ڈگری کے لئے آسٹریلیا آنے سے پہلے ہماری آخری ملاقات ہوئی۔ نازلی کے دیور کی شادی بھی ہو چکی تھی۔ گھر میں اب دو بہوئیں تھیں اور ساس کے لئے اس سے بڑا فخر کیا ہوگا۔ وہ اپنی بہوئوں کو 'بڑی' اور 'منجھلی' کہہ کر پکارتی تھیں۔ گویا ان کے گھر میں تیسری بہو کا نام 'چھوٹی' پہلے ہی سے مقدر ہو چکا تھا۔ ایک ایک بچہ بڑی اور منجھلی کے پیٹ میں تھا۔ اور نازلی کی گود میں ایک اور بچہ اس کے علاوہ تھا۔ 'دعا کرو کہ خدا اب کی بار بھی بیٹے ہی دے' نازلی کی ساس نے کہا تھا۔ جواباُ میں نے بھی جی جی کہہ دیا تھا۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ اور انہیں کہتی بھی تو کیا؟ بیالوجی تو ان کے باپوں نے انہیں پڑھنے ہی نہیں دی تھی۔ ویسے ایک طرح سے دیکھیں تو شاید انہیں اپنی بہوئوں سے پیار بھی بہت تھا۔ جتنی دیر میں اس گھر میں رہی وہ ہمارے درمیان ہی بیٹھی رہیں اور کمرے میں تھوڑے تھوڑے سکوت کے ساتھ موسم، کھانوں، کپڑوں، اور فرنیچر سجانے کے موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ نازلی خود کتنی بدل گئی ہے۔ فربہ بدن، سامنے پوری شال، نیل پالش جس سے اسے نفرت تھی، اسی میں رنگے ہاتھ پائوں کے ناخن، دونوں کلائیوں پہ جھنجھناتی سنہری دھات کی چوڑیاں۔ مجھے لگا کہ ان پچھلے تین چار سالوں میں ایک مصنوئی نازلی نے میری دوست کو نگل لیا ہے۔ مگر مجھے ٹائلٹ کا دروازہ دکھانے کے لئے نازلی جب دوسری طرف کو چند قدم میرے ساتھ جڑ کر چلی تو شاید وہ سالوں کا خول اچانک چٹخ سا گیا۔ 'کیسی ہے ری، آسٹریلیا پڑھنے کو جا رہی ہے نا، کنگرو تھیلیوں میں بچے لے کر گھومتے ہیں وہاں۔ اور کوالے پیڑوں پہ چڑھ کر سوتے ہیں۔ صبح سویرے مرغے نہیں ککوبرا اذانیں دیتے ہیں'۔ پھر ذرا سی اوٹ ملی تو اس نے آستین اٹھا کر اور گریبان جھکا کر نئے پرانے زخموں سے بھری ہوئی اپنی جلد دکھائی۔ 'اور ہاں! جا رہی ہے تو جا یار، ذرا ان کے بارے میں بھی کچھ لکھ پڑھ لینا'۔
'بڑی ۔۔۔۔'۔ ایک آواز آئی، اور وہ 'آئی' کہہ کر چلی گئی۔
ہاں نازلی چلی گئی۔ اف نند کہیں کی۔
اب تین دن پہلے کی بات ہے، صبح جب سو کر اٹھی تو امی کا میسج دیکھا۔ '۔۔۔ وہ تمہاری پرانی سہیلی نازلی رات اچانک مر گئی۔ ددوپہر کو جنازہ تھا۔ خیر خیریت سے دفنا دیا ہے۔ تمہارے ابا بھی شامل ہوئے تھے۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوٹے ہی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ خدا کرے کہ پل جائیں۔ بڑا افسوس ہوا۔ بس تم اپنا خیال رکھنا'۔
' او نازلی کمینی۔ ارے تیرا باپ، تیرا بھائی، اور ساتھ میں تیرا شوہر بھی، نازلی۔ تجھے تو میں یہ بھی نہ بتا سکی کہ میں نے تو پی۔ایچ۔ڈی ہی تیرے زخموں پر کی تھی۔
'تحکمانہ کنٹرول اور پر تشدد اختلاط"
'Coercive control and violent sex'
کالج کے دور میں ایک بار نازلی نے کہا تھا کہ ہم لڑکیاں بس دھرتی کی طرح کی ہوتی ہیں۔ ہمارے اندر کا الائو کسی نے نہیں جانا۔ لوگ باگ بس باہر کی دھوپ لا کر روپ دیکھتے ہیں اور اس مانگی ہوئی روشنی میں ہمارا آدھا ہمیشہ اندھیرے میں رہ جاتا ہے۔ اب ان تین دنوں میں کئی بار میں نے سوچا ہے کہ نازلی شاید خود سے مری نہیں، بلکہ اسی آدھے اندھیرے میں مار دی گئی ہے۔ پر اس نے اپنے اندر کا الائو بھڑکایا کیوں نہیں؟ نند کہیں کی۔
ارے ہاں۔ یہ نند کا بطور گالی استعمال بھی ہمارے کالج کے ساتھ کی دین ہے۔ بات کچھ یوں تھی کہ اپنے گلی محلے میں ماں اور بہن کی گالیاں نالی کے پانی کی طرح کھلی بہتی تھیں۔ اور یہ سالا سالی کے الفاظ تو جیسے لڑکے اپنی مائوں کے پیٹ سے سیکھ کر ہی نکلتے تھے۔ سو ایک دن ٹکشاپ کے گروپ میں ہم نے ان سب گالیوں کی مردانگی پر غور کیا، اور جنسی مساوات کے اصول کے تحت پورے انصاف سے باپ اور بھائی کی گالیاں مرتب کیں۔ بس اسی دوران میں کہیں سے یہ نند اور جیٹھ بھی سالی اور سالے کے مقابلے پر آ گئے۔ یہ گالیاں اس وقت بہت مقبول ہوئی تھیں، اور شاید اب تک ہونگی۔
نازلی میری سوتیلی کزن تھی۔ بڑی خالہ دوسرے شہر اپنے بیٹوں کے پاس رہتی تھیں، اور خالو یہیں ہمارے گھر سے کچھ گلیاں چھوڑ کر اپنی اس دوسری بیوی کے ساتھ۔ ہم دونوں سکول اور کالج میں ساتھ ساتھ پڑھے، مگر نازلی اور اس کے گھر والوں کو ہمارے گھر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ کبھی کبھار جب میں نازلی کے گھر چلی جاتی تو امی سے ڈانٹ پڑتی، مگر نازلی کے ابا اور میرے والد باہر گلی محلے میں ملتے جلتے رہتے تھے۔ امی کہتی تھیں کہ خالو اس دوسری بیوی کو بازار سے اٹھا کر لائے تھے۔ معلوم نہیں کہ سچ ہو، مگر میں نے تو انہیں اچھی خاصی نیک اور گھر گھرستی والی ہی دیکھا۔ نازلی کا بھائی ہم سے پانچ سال چھوٹا تھا۔ ہمارے سامنے ہی وہ بچے سے لڑکا بنا اور پھر قد میں ہم سے بھی دو تین انچ اونچا نکل گیا۔ بچپن سے ہی نازلی کو اپنے اپا سے صرف زبانی ڈانٹ ملتی تھی، مگر اس کے بھائی کے لئے ٹھوکریں اور تھپڑ اضافی تھے۔ اس کی امی کو کیا ملتا تھا، یہ نازلی کالج آتے جاتے رستے کی کھسر پھسر میں مجھے بتا دیتی تھی۔ خالو تحصیل کے دفتر میں اسسٹنٹ پٹواری تھے اور پان کھاتے تھے۔ کام کاج نکلوانے والے گھر کا پتہ ڈھونڈ کر آن پہنچتے اور ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے رنگین نوٹوں میں لپٹی ہوئی پان کی گلوریاں چھوڑ جاتے۔ نازلی کو ان پانوں سے شدید نفرت تھی۔
سکول کے زمانے سے ہی نازلی کو بیالوجی بہت پسند تھی۔ کیڑوں کو رینگتے دیکھتی تو ان کی چال سے مسحور ہو کر دیکھتی ہی چلی جاتی۔ کسی دیوار یا بجلی کی تار پر اترے ہوئے پرندے سب کے لئے معمولی بات سہی، مگر وہ چلتے چلتے رک جاتی۔ پھر پرندوں کی حرکنات و سکنات پر اس کا رواں تبصرہ ایسے جاری ہوتا جیسے کرکٹ میچ پر کوئی ریڈیو کمنٹری ہو۔ ایسے میں مجھے کہنی کے ٹھوکوں سے اسے آگے سکول کی جانب یا پھر واپس گھر کی طرف ہانکنا پڑتا۔ کالج میں نازلی نے سائنس کے مضامین رکھے اور میں نے اکنامکس اور سائیکالوجی۔ بارھویں میں اس کے بہت اچھے نمبر آئے مگر ویٹرنری کالج میں داخل نہ ہو سکی۔ خالو اسے کم عمری میں دوسرے شہر ہوسٹل میں بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے۔ ایک لحاظ تو میرے لئے یہ اچھا ہی ہوا، ہمیں کالج میں دو سال اور اکھٹے مل گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب نازلی کے ذہن میں اور اس کی دیکھا دیکھی میرے اندر بھی خواتین کی بے بسی کا احساس شدت سے جاگا۔ نازلی نے تو اس بنیاد پر کالج کا الیکشن لڑا اور ہنسی خوشی ہار بھی گئی۔ اسے مباحثوں میں اچھی کارکردگی پر انعام ملتے تھے، مگر کسی دوسرے شہر جا کر کالج کی نمائیندگی کی اجازت گھر والوں نے نہیں دی تھی۔ یہ وقت یوں تیزی سے گزرا کہ خدا کی پناہ۔ کالج کے بعد میں دوسرے شہر ایک یونیورسٹی چلی گئی مگر نازلی نہ جا سکی۔ اس کا رشتہ آ گیا تھا۔ باپ، بھائی، نند، جیٹھ کی بہت سی گالیوں کے تبادلے میں ہنستے روتے ہم جدا ہوئے تھے۔
اس کی رخصتی پر آ کر مَیں سب سے ملی تھی۔ اس کا بھائی کچھ اور بڑا ہو گیا تھا اور کالج میں پڑھتا تھا۔ 'ذرا خیال رکھنا اس کا۔ ڈاکٹر بنے گا یہ۔ تمہارے ہی شہر میں پڑھنے کو بھیجیں گے۔' نازلی کی امی نے مجھے کہا تھا، اور میں محض رسماُ جی جی کہہ کر رہ گئی تھی۔ نازلی کے میاں کی اسی شہر میں بس اڈے کے پاس موٹروں کے سپئیر پارٹس کی دکان تھی۔ چھوٹے بھائیوں کے ساتھ ساجھے کا کاروبار تھا۔ سب اکھٹے رہتے تھے۔ اچھا خوشحال کھاتا پیتا گھرانہ لگا مجھے۔ مگر ولیمے کی دوپہر جب میں نازلی کو تیار کر رہی تھی تو مجھے وہ کچھ نڈھال اور تھکی ہوئی لگی، بلکہ قدرے خوفزدہ بھی۔ بازو اور گردن پر دانتوں کے کاٹنے کے کئی نشان تھے۔ ' 'توبہ، پائوڈر سے چھپا دے انہیں، لوگ دیکھ لیں گے'۔ نازلی نے کہا تھا۔ میں نے بے اختیار جیٹھ کی بڑی سی گالی دی تھی، اور ہم دونوں ہنس پڑے تھے۔ مگر ٹھیریں، اس سے پہلے کے دن اس وقت کی ایک بات بھی بتائوں آپ کو جب سجنے دھجنے کے بعد نازلی رخصتی کے لئے اندر کے کمرے سے صحن میں آ رہی تھی۔ 'ارے گھونگٹ تو آگے گرا لے بہو، صحن میں مرد بیٹھے ہیں'۔ اسکی ساس نے کہا تھا۔ مجے یاد ہے کہ تب نازلی نے اپنا سر میرے کنھدے پر ایسے جھکایا تھا کہ اس کی سرگوشی صرف میں ہی سن سکی تھی۔ وہی اس کا مخصوص سٹائل۔ ' یہی ہوتا ہے یار، صدیوں سے یہی ہوتا ہے۔ بس آج سے یہ آنگن جہاں میں کھلی گھومتی تھی اجنبی ہو گیا۔ ایک بات بتائوں تجھے۔ جب میں پیدا ہوئی تھی نا، تو بالکل ننگی تھی۔ جانے کتنے لوگوں نے دیکھا۔ میری مان، یہ جو بعد کے غلاف ہیں نا یہ بھی لوگوں کے چڑھائے سکھائے ہوئے ہیں۔ ارے ہاں، اور ہہ جو میری بلی ہے نا، یہ بھی ننگی ہی پیدا ہوئی، اب تک اسی صحن میں ننگی گھومتی ہے۔ ہہ بیالوجی ہے میری جان۔ بیالوجی جو میری ساس کے باپ نے اُسے، اور میرے باپ نے مجھے پڑھنے نہیں دی'۔ 'چپکی رہ بے شرم'۔ جواباً میں نے کہا تھا۔ باہر دہلیز پر دلہا بھائی اور باراتی ہماری ان سرگوشیوں کو شاید رخصتی کی سسکیاں سمجھ کر سر جھکائے کھڑے رہے۔
نازلی کی شادی کے بعد سے ہمارا رابطہ دھیرے دھیرے کم ہوتا گیا۔ گویا وہی ہوا جو اکثر گہری انسانی دوستیوں میں وقت کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ زندگی ایک جگہ ٹھہرتی جو نہیں، حالات اور ماحول بدلتے جاتے ہیں۔ مگر آپ مانیں گے نا کہ ذہن کے صحن میں یادیں تو ویسے ہی نازلی کی بلی کی طرح آزاد گھومتی ہیں۔ سو وہ سکول اور کالج کی نازلی میرے پاس رہی۔ ہمیش۔
سائیکالوجی میں ایڈوانس ڈگری کے لئے آسٹریلیا آنے سے پہلے ہماری آخری ملاقات ہوئی۔ نازلی کے دیور کی شادی بھی ہو چکی تھی۔ گھر میں اب دو بہوئیں تھیں اور ساس کے لئے اس سے بڑا فخر کیا ہوگا۔ وہ اپنی بہوئوں کو 'بڑی' اور 'منجھلی' کہہ کر پکارتی تھیں۔ گویا ان کے گھر میں تیسری بہو کا نام 'چھوٹی' پہلے ہی سے مقدر ہو چکا تھا۔ ایک ایک بچہ بڑی اور منجھلی کے پیٹ میں تھا۔ اور نازلی کی گود میں ایک اور بچہ اس کے علاوہ تھا۔ 'دعا کرو کہ خدا اب کی بار بھی بیٹے ہی دے' نازلی کی ساس نے کہا تھا۔ جواباُ میں نے بھی جی جی کہہ دیا تھا۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ اور انہیں کہتی بھی تو کیا؟ بیالوجی تو ان کے باپوں نے انہیں پڑھنے ہی نہیں دی تھی۔ ویسے ایک طرح سے دیکھیں تو شاید انہیں اپنی بہوئوں سے پیار بھی بہت تھا۔ جتنی دیر میں اس گھر میں رہی وہ ہمارے درمیان ہی بیٹھی رہیں اور کمرے میں تھوڑے تھوڑے سکوت کے ساتھ موسم، کھانوں، کپڑوں، اور فرنیچر سجانے کے موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ نازلی خود کتنی بدل گئی ہے۔ فربہ بدن، سامنے پوری شال، نیل پالش جس سے اسے نفرت تھی، اسی میں رنگے ہاتھ پائوں کے ناخن، دونوں کلائیوں پہ جھنجھناتی سنہری دھات کی چوڑیاں۔ مجھے لگا کہ ان پچھلے تین چار سالوں میں ایک مصنوئی نازلی نے میری دوست کو نگل لیا ہے۔ مگر مجھے ٹائلٹ کا دروازہ دکھانے کے لئے نازلی جب دوسری طرف کو چند قدم میرے ساتھ جڑ کر چلی تو شاید وہ سالوں کا خول اچانک چٹخ سا گیا۔ 'کیسی ہے ری، آسٹریلیا پڑھنے کو جا رہی ہے نا، کنگرو تھیلیوں میں بچے لے کر گھومتے ہیں وہاں۔ اور کوالے پیڑوں پہ چڑھ کر سوتے ہیں۔ صبح سویرے مرغے نہیں ککوبرا اذانیں دیتے ہیں'۔ پھر ذرا سی اوٹ ملی تو اس نے آستین اٹھا کر اور گریبان جھکا کر نئے پرانے زخموں سے بھری ہوئی اپنی جلد دکھائی۔ 'اور ہاں! جا رہی ہے تو جا یار، ذرا ان کے بارے میں بھی کچھ لکھ پڑھ لینا'۔
'بڑی ۔۔۔۔'۔ ایک آواز آئی، اور وہ 'آئی' کہہ کر چلی گئی۔
ہاں نازلی چلی گئی۔ اف نند کہیں کی۔
اب تین دن پہلے کی بات ہے، صبح جب سو کر اٹھی تو امی کا میسج دیکھا۔ '۔۔۔ وہ تمہاری پرانی سہیلی نازلی رات اچانک مر گئی۔ ددوپہر کو جنازہ تھا۔ خیر خیریت سے دفنا دیا ہے۔ تمہارے ابا بھی شامل ہوئے تھے۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوٹے ہی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ خدا کرے کہ پل جائیں۔ بڑا افسوس ہوا۔ بس تم اپنا خیال رکھنا'۔
' او نازلی کمینی۔ ارے تیرا باپ، تیرا بھائی، اور ساتھ میں تیرا شوہر بھی، نازلی۔ تجھے تو میں یہ بھی نہ بتا سکی کہ میں نے تو پی۔ایچ۔ڈی ہی تیرے زخموں پر کی تھی۔
'تحکمانہ کنٹرول اور پر تشدد اختلاط"
'Coercive control and violent sex'
It has been three days since I last went to the clinic. I haven’t even looked outside from my apartment’s balcony. I’ve cried several times, but my anger refuses to subside. I am locked inside my own thoughts so tightly that I feel I might boil over and explode. Do you see these photos scattered on the table in front of me? Most of them are from Nazli’s school and college days. Later, digital cameras and mobile phones came into fashion. And that little pile of shredded paper in the corner? Those are pieces of her photos too—ones I cut up with scissors. She’s dead now, that wretch. But if I’m being honest, I’m not as grieved by her death as I am enraged. Why did she die so easily without even fighting death?
During our college years, Nazli once said, “We women are just like the earth. No one has ever understood the fire that burns inside us. People only bring light from the outside to see our surface, but in that borrowed light, half of us remains shrouded in darkness.” Over the past three days, I’ve thought about this a lot. Maybe Nazli didn’t die by her own will; perhaps she was snuffed out in that same hidden darkness. But why didn’t she ignite the fire within her? Nand, that’s what she was.
Oh, right. That’s another thing—our college friends turned ‘Nand’ into a curse word. It all started because, in our neighborhood, the streets flowed with casual profanity, like open gutters. Words like Sali and Sala were thrown around so often you’d think boys were born knowing them. So one day in our tuck shop group, we decided to critique the masculinity of these swear words and, in the spirit of gender equality, created curses for fathers and brothers too. Somewhere in that process, ‘Nand’ and ‘Jaith’ emerged as counterparts to ‘Sali’ and ‘Sala.’ These curses became wildly popular at the time, and probably still are.
Nazli was my step-cousin. Our elder aunt lived in another city with her sons, while my uncle lived nearby with his second wife, just a few streets away. Nazli and I studied together in school and college, but she and her family weren’t allowed to visit our home. If I ever visited her house, my mother would scold me afterward. Still, my uncle and my father kept up their cordial interactions in the neighborhood. My mother said my uncle had picked up his second wife from the streets. I’m not sure if that’s true, but I always found her to be a modest, domesticated woman.
Nazli’s younger brother was five years our junior. We watched him grow from a child into a young man, eventually towering a few inches above us. Since childhood, Nazli only ever faced verbal scolding from her father, but her brother endured kicks and slaps on top of that. And as for what her mother endured, Nazli would fill me in during our whispered conversations on the way to and from college. Uncle worked as an assistant patwari in the tehsil office and chewed paan habitually. People seeking his help would track down their home and, as bribes, leave colorful currency notes used as wrappers around paan. Nazli absolutely loathed those paans.
Even as a schoolgirl, Nazli loved biology. She could watch insects crawl, mesmerised by their movements, for hours. Birds perched on walls or power lines might seem ordinary to most, but Nazli would stop in her tracks to observe them. Her running commentary on their movements felt like a live cricket match broadcast. I often had to nudge her with my elbow to get her moving toward school or home. In college, Nazli chose science subjects, while I studied economics and psychology. She excelled in her twelfth-grade exams but couldn’t get admission into the veterinary college. Uncle wasn’t ready to send her to another city to live in a hostel at such a young age. In a way, that was good for me—we got two more years together in college.
This was the time when the plight of women began to awaken something intense in Nazli’s mind—and, by extension, in mine. Nazli even ran for student elections on this issue and cheerfully accepted her loss. She excelled in debates and won awards, but her family never allowed her to represent the college in another city. That time flew by like a whirlwind. After college, I went to a university in another city, but Nazli couldn’t follow. Her marriage was arranged. Amidst a flurry of curses about fathers, brothers, Nands, and Jaiths, we laughed and cried our way to a bittersweet farewell.
I attended her wedding and met everyone there. Her younger brother had grown even taller and was now in college. “Take care of him. He’ll become a doctor. We’ll send him to study in your city,” Nazli’s mother had said to me. I nodded politely. What else could I say? Nazli’s husband owned a spare parts shop near the city’s bus stand, a joint business with his younger brothers. They all lived together in one household. It seemed like a well-off, happy family to me. But on the afternoon of the wedding feast, as I helped Nazli get ready, I found her looking frail and exhausted, even a little scared. There were bite marks on her arms and neck. “For God’s sake, cover them with powder. People will see,” Nazli had said. Instinctively, I cursed Jaith loudly, and we both burst into laughter.
But wait—let me tell you about something that happened before this. When Nazli, all dolled up, was walking from the inner room to the courtyard for her send-off, her mother-in-law called out, “Pull your veil forward, daughter-in-law; there are men sitting in the courtyard.” I remember Nazli leaning her head on my shoulder, whispering in her signature style, just for me to hear: “This is it, my friend. This is how it’s been for centuries. Today, this courtyard, where I roamed freely, has become foreign to me. Let me tell you something. When I was born, I was completely naked. Who knows how many people saw me? My dear, all these coverings afterward are gifts from others, taught and imposed on us. And hey, even my cat was born naked and still roams around this courtyard as she pleases. That’s biology, my love. Biology—the very thing my mother-in-law’s father didn’t let her study, and my father didn’t let me learn.”
“Shut up, you shameless thing,” I had replied. Outside, on the threshold, her groom and the wedding guests stood quietly, perhaps mistaking our whispers for her sobbing farewells.
Our correspondence gradually lessened after her wedding, as happens with most close friendships over time. Life doesn’t stand still, does it? Circumstances and surroundings change. Yet, in the courtyard of the mind, memories linger—free, like Nazli’s cat. The Nazli I knew from school and college stayed with me forever.
The last time we met was before I left for Australia to pursue an advanced degree in psychology. By then, Nazli’s brother-in-law had also gotten married. There were now two daughters-in-law in the household, and her mother-in-law took great pride in referring to them as “Bari” (the elder one) and “Manjhli” (the middle one). It seemed the title of “Chhoti” (the youngest daughter-in-law) was already predestined for the next addition to the family. Both Nazli and Manjhli were expecting children, and Nazli already had a baby boy of her own in her arms.
“Pray that God blesses us with sons again this time,” her mother-in-law had said to me. I responded with a polite “Yes, yes,” because what else could I say? Biology—their fathers had never allowed them to study it.
Her mother-in-law seemed fond of her daughters-in-law, or so it appeared. She stayed with us the entire time I was there, participating in conversations which meandered about the weather, food, clothes, and decorating furniture. But I noticed how much Nazli had changed. She was heavier now, always wore a full shawl, and even had her nails painted, something she used to despise. Gold bangles jingled on both her wrists. It seemed as if, over the past few years, an artificial Nazli had swallowed my friend whole.
But then, as she walked with me to show me the bathroom’s location, those years of transformation seemed to crack open for a moment. “How are you, yaar? Going to Australia to study, huh? You know, kangaroos carry their babies in pouches there. And koalas sleep in trees. Roosters don’t crow in the morning—kookaburras give the call instead.” Then, finding a little privacy, she rolled up her sleeve and pulled down her neckline to show me the fresh and old bruises covering her skin. “Oh, and since you’re going, do write something about this too.”
“Bari...” a voice called out, and she responded, “Coming,” before walking away.
Yes, Nazli left. Damn her, that Nand.
Three days ago, I woke up to a message from my mother. “Your old friend Nazli passed away suddenly last night. The funeral was held in the afternoon. She’s been buried now. Your father also attended. She’s left behind one son and two young daughters. May God protect them. It’s so sad. Take care of yourself.”
“Oh, Nazli, you wretch. Your father, your brother, and your husband too—Nazli. I couldn’t even tell you that I based my PhD on your wounds - Coercive control and violent sex.”
Riaz Akber
Australia
During our college years, Nazli once said, “We women are just like the earth. No one has ever understood the fire that burns inside us. People only bring light from the outside to see our surface, but in that borrowed light, half of us remains shrouded in darkness.” Over the past three days, I’ve thought about this a lot. Maybe Nazli didn’t die by her own will; perhaps she was snuffed out in that same hidden darkness. But why didn’t she ignite the fire within her? Nand, that’s what she was.
Oh, right. That’s another thing—our college friends turned ‘Nand’ into a curse word. It all started because, in our neighborhood, the streets flowed with casual profanity, like open gutters. Words like Sali and Sala were thrown around so often you’d think boys were born knowing them. So one day in our tuck shop group, we decided to critique the masculinity of these swear words and, in the spirit of gender equality, created curses for fathers and brothers too. Somewhere in that process, ‘Nand’ and ‘Jaith’ emerged as counterparts to ‘Sali’ and ‘Sala.’ These curses became wildly popular at the time, and probably still are.
Nazli was my step-cousin. Our elder aunt lived in another city with her sons, while my uncle lived nearby with his second wife, just a few streets away. Nazli and I studied together in school and college, but she and her family weren’t allowed to visit our home. If I ever visited her house, my mother would scold me afterward. Still, my uncle and my father kept up their cordial interactions in the neighborhood. My mother said my uncle had picked up his second wife from the streets. I’m not sure if that’s true, but I always found her to be a modest, domesticated woman.
Nazli’s younger brother was five years our junior. We watched him grow from a child into a young man, eventually towering a few inches above us. Since childhood, Nazli only ever faced verbal scolding from her father, but her brother endured kicks and slaps on top of that. And as for what her mother endured, Nazli would fill me in during our whispered conversations on the way to and from college. Uncle worked as an assistant patwari in the tehsil office and chewed paan habitually. People seeking his help would track down their home and, as bribes, leave colorful currency notes used as wrappers around paan. Nazli absolutely loathed those paans.
Even as a schoolgirl, Nazli loved biology. She could watch insects crawl, mesmerised by their movements, for hours. Birds perched on walls or power lines might seem ordinary to most, but Nazli would stop in her tracks to observe them. Her running commentary on their movements felt like a live cricket match broadcast. I often had to nudge her with my elbow to get her moving toward school or home. In college, Nazli chose science subjects, while I studied economics and psychology. She excelled in her twelfth-grade exams but couldn’t get admission into the veterinary college. Uncle wasn’t ready to send her to another city to live in a hostel at such a young age. In a way, that was good for me—we got two more years together in college.
This was the time when the plight of women began to awaken something intense in Nazli’s mind—and, by extension, in mine. Nazli even ran for student elections on this issue and cheerfully accepted her loss. She excelled in debates and won awards, but her family never allowed her to represent the college in another city. That time flew by like a whirlwind. After college, I went to a university in another city, but Nazli couldn’t follow. Her marriage was arranged. Amidst a flurry of curses about fathers, brothers, Nands, and Jaiths, we laughed and cried our way to a bittersweet farewell.
I attended her wedding and met everyone there. Her younger brother had grown even taller and was now in college. “Take care of him. He’ll become a doctor. We’ll send him to study in your city,” Nazli’s mother had said to me. I nodded politely. What else could I say? Nazli’s husband owned a spare parts shop near the city’s bus stand, a joint business with his younger brothers. They all lived together in one household. It seemed like a well-off, happy family to me. But on the afternoon of the wedding feast, as I helped Nazli get ready, I found her looking frail and exhausted, even a little scared. There were bite marks on her arms and neck. “For God’s sake, cover them with powder. People will see,” Nazli had said. Instinctively, I cursed Jaith loudly, and we both burst into laughter.
But wait—let me tell you about something that happened before this. When Nazli, all dolled up, was walking from the inner room to the courtyard for her send-off, her mother-in-law called out, “Pull your veil forward, daughter-in-law; there are men sitting in the courtyard.” I remember Nazli leaning her head on my shoulder, whispering in her signature style, just for me to hear: “This is it, my friend. This is how it’s been for centuries. Today, this courtyard, where I roamed freely, has become foreign to me. Let me tell you something. When I was born, I was completely naked. Who knows how many people saw me? My dear, all these coverings afterward are gifts from others, taught and imposed on us. And hey, even my cat was born naked and still roams around this courtyard as she pleases. That’s biology, my love. Biology—the very thing my mother-in-law’s father didn’t let her study, and my father didn’t let me learn.”
“Shut up, you shameless thing,” I had replied. Outside, on the threshold, her groom and the wedding guests stood quietly, perhaps mistaking our whispers for her sobbing farewells.
Our correspondence gradually lessened after her wedding, as happens with most close friendships over time. Life doesn’t stand still, does it? Circumstances and surroundings change. Yet, in the courtyard of the mind, memories linger—free, like Nazli’s cat. The Nazli I knew from school and college stayed with me forever.
The last time we met was before I left for Australia to pursue an advanced degree in psychology. By then, Nazli’s brother-in-law had also gotten married. There were now two daughters-in-law in the household, and her mother-in-law took great pride in referring to them as “Bari” (the elder one) and “Manjhli” (the middle one). It seemed the title of “Chhoti” (the youngest daughter-in-law) was already predestined for the next addition to the family. Both Nazli and Manjhli were expecting children, and Nazli already had a baby boy of her own in her arms.
“Pray that God blesses us with sons again this time,” her mother-in-law had said to me. I responded with a polite “Yes, yes,” because what else could I say? Biology—their fathers had never allowed them to study it.
Her mother-in-law seemed fond of her daughters-in-law, or so it appeared. She stayed with us the entire time I was there, participating in conversations which meandered about the weather, food, clothes, and decorating furniture. But I noticed how much Nazli had changed. She was heavier now, always wore a full shawl, and even had her nails painted, something she used to despise. Gold bangles jingled on both her wrists. It seemed as if, over the past few years, an artificial Nazli had swallowed my friend whole.
But then, as she walked with me to show me the bathroom’s location, those years of transformation seemed to crack open for a moment. “How are you, yaar? Going to Australia to study, huh? You know, kangaroos carry their babies in pouches there. And koalas sleep in trees. Roosters don’t crow in the morning—kookaburras give the call instead.” Then, finding a little privacy, she rolled up her sleeve and pulled down her neckline to show me the fresh and old bruises covering her skin. “Oh, and since you’re going, do write something about this too.”
“Bari...” a voice called out, and she responded, “Coming,” before walking away.
Yes, Nazli left. Damn her, that Nand.
Three days ago, I woke up to a message from my mother. “Your old friend Nazli passed away suddenly last night. The funeral was held in the afternoon. She’s been buried now. Your father also attended. She’s left behind one son and two young daughters. May God protect them. It’s so sad. Take care of yourself.”
“Oh, Nazli, you wretch. Your father, your brother, and your husband too—Nazli. I couldn’t even tell you that I based my PhD on your wounds - Coercive control and violent sex.”
Riaz Akber
Australia