عطی کا زیرو

میں ایک سائنٹسٹ ہوں اور جس ٹیم میں کام کرتا ہوں پچھلے دو تین سال سے عطی بھی اسی کا حصہ ہیں۔ یوں تو ہم سب کام کرنے والوں کے اپنے اپنے رنگ ہیں مگر عطی کے اس زیرو کا معاملہ کچھ اچھوتا سا ہے۔ اب سے کوئی دو ماہ پہلے ایک روز اپنا ڈیسک صاف کرتے ہوئے عطی نے اپنے مخصوص کھلنڈرے سے انداز میں بات کرتے ہوئے اسے اٹھا کر میری میز پر رکھ دیا تھا۔ 'یہ زیرو ہے میرا۔ مجھے کافی پرانا سیکنڈ ہینڈ کہیں سے ملا تھا، مگر کئی سال تک یہ میرے ہر کام کے ڈیسک پر سب سے نمایاں ڈیکوریشن رہا۔ اب آپ جسے چاہیں اسے دے دیں۔'

میں صبح کچھ دیر سے آفس آنے اور شام کو چند گھنٹے دیر تک کام کرنے کا عادی ہوں۔ مگر جس روز عطی نے یہ زیرو مجھے دیا میری شام کا بہت سا وقت اسی کے بارے میں سوچنے میں گزرا۔ پہلی نگاہ میں تو مجھے یہ گہرا نیلا بیضوی سا ایک حلقہ لگا جو اپنی ہیئت اور بوسیدگی کی بنا پر کسی بھی جگہ پڑا ہوا با آسانی نظر انداز ہو سکتا تھا- لیکن دیر تک دیکھنے پر اس کی بعض اور خاصیتیں سامنے آئیں۔ میں نے دیکھا کہ اگر توجہ سے اس پر نظر جمائیں تو اسکے سیاہی مائل نیلے رنگ میں ایک سرخی سی اتر آتی ہے، اور بجائے سیدھا رہنے کہ وہ ایک ہلکی سی قوس میں یوں جھک جاتا ہے جیسے کسی پوچھ گچھ کے دوران کوئی سر احساسِ جرم، شدید شرمندگی، یا تاسف کے اثر میں ہو۔ پھر اس سے بھی عجیب بات چھونے پر اسکی دل کی طرح کی دھڑکن تھی، جو کچھ دبانے پر تیز ہوجاتی- زیرو کی یہ بڑھی ہوئی دھڑکن، جھکا ہوا انداز اور بدلتا رنگ مجھے یوں لگا کہ جیسے ایک خوفزدہ کانپتا ہوا بدن میری گرفت میں ہو۔ کچھ گھبرا کر میں نے اس زیرو کو جلد ہی دوبارہ میز پر تنہا چھوڑ دیا۔

اس مشاہدے کے بعد میرا پہلا ردِعمل عطی کی ہنرمندی کو داد دینے کا تھا۔ 'واہ کیا کھلونا بنایا ہے'۔ ہم لوگ دراصل ایٹمی تابکاری کو جانچنے ناپنے کے آلات پر کام کرتے ہیں۔ روزانہ مختلف ہسپتالوں کے نیوکلیر میڈیسن کلینک سے قسم قسم کے کئی آلات درستگی اور پرکھ کے لئے ہماری لیبارٹری میں آتے ہیں اور ہم مناسب مرمت اور جانچ کے بعد ان کے قابلِ استعمال اور بین الاقوامی معیار کے مطابق درست ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ ان آلات کا موزوں جائزہ اور بر وقت ترسیل ہمارے ملک بھر کے ہسپتالوں کے نیوکلیر میڈیسن نظام کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے یوں سمجھ لیں ہمارا کام کچھ ذمہ داری کا بھی ہے اور کچھ جلدی کا بھی۔اور شاید اسی وجہ سے ہماری ٹیم کی ساخت ایسی ہے کہ ہر ممبر ایک دوسرے سے کچھ مختلف کاموں میں زیادہ مہارت سے دلچسپی لیتا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر سعدیہ کا زیادہ وقت ان خود کار مشینوں کے درمیان گزرتا ہے جو آلات کے سامنے معیاری مقدار میں تابکاری رکھ کر ان کی کارکردگی کو ٹیسٹ کرتی ہیں۔ اور میں تابکاری عمل کو جانچنے کی تھیوری، اور اس سے متعلقہ ملکی اور بین الاقوامی تحفظاتی اصولوں سے واقف ہوں، وغیرہ۔ اب اس تناظر میں دیکھیں تو اگرچہ عطی اس شعبے میں نسبتاً نئے ہیں، مگر تمام ٹیم کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے آنے سے ہماری افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اکثر وہ انتہائی مہارت سے بہت پیچیدہ آلات کی الیکٹرانک کارکردگی میں خامیوں کی وجہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور قابلِ مرمت حصوں کو بدل کر انہیں پھر سے کارآمد بنا دیتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ان کی قابلیت روزانہ ہزارہا ڈالر کے آلات کو بیکار ضائع ہونے سے بچا رہی ہے اور یہ بچت ملک بھر میں مریضوں کے لئے مزید سہولت کے سامان مہیا کرنے کے کام آرہی ہے۔ اب اپنی میز سے یہ زیرو اٹھانے والے روز بھی عطی نے ایک نہایت قیمتی آلے کے انٹیگریٹڈ سرکٹ کی کچھ چپس بدل کر اس کامیابی سے اسے از سرِ نو چلایا تھا کہ ہم سب بے اختیار ان کے ڈیسک کے گرد کھڑے ہو کر خوشی سے تالیاں بجانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لہذا عطی کی الیکٹرانکس اور آرٹیفشل انٹیلیجنس کے عملی پہلوؤں میں اس کمال مہارت کی دسترس میں تھا کہ وہ اس کھلونے کے اندر کچھ سرکٹ وغیرہ اور ایک چھوٹی سی بیٹری نصب کر کے مجھے حیران کریں۔

عطی کے مزاج کی طرح اس شام ایک شوخ سا خیال میرے تجسس کو بھی آیا۔ میں نے اس کھلونے کے اندر کے سرکٹ دیکھنے کے لئے مختلف زاویوں سے اس کے دو تین ایکسرے لئے۔ مگر زیرو کے اندر کچھ نہیں تھا۔ بس خالی ایک پرانا گھسا پٹا زیرو اور اتنا حساس۔ کیوں، کیسے؟! اس مزید مشاہدے نے مجھے اور بھی حیران کر دیا۔ اور یہ حیرانی کچھ اس لئے بھی تھی کہ عطی کو اگر تعلیمی لحاظ سے دیکھیں تو وہ ہم تمام سٹاف کے مقابلے میں کم ہیں۔ ان کے پاس کوئی ڈگری نہیں، یہاں تک کہ معمولی ٹیکنیکل تعلیم کا کوئی سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے۔ تاہم یہ ضرور درست ہے کہ ان کی ٹیکنیکل معاملہ فہمی، اور مختلف پرزوں کو استعمال کرنے کی قابلیت ہم میں سے شاید بہتوں سے کہیں زیادہ ہے۔

اس روز کے بعد ہفتوں تک یہ زیرو مجھے روزمرہ کام کی بھیڑ سے نکال کر وقت کے محور اور شرق و غرب کے جدول پر دور دور تک لے گیا۔ کوئی تین سو پچاس قبل مسیح تھا جب میں نے یونان میں ارسطو کی یہ آواز سنی، 'کوئی ایسی شے نہیں ہے، جو کچھ بھی نہ ہو'۔ زیرو کی نفی کرتی ہوئی ارسطو کی یہ بات شاید میں مان ہی لیتا، مگر پھر اس کا کیا کرتا کہ میری میز پر تو کچھ بھی نہ ہونے کی ایک جیتی جاگتی علامت رکھی تھی، وہی یعنی عطی کا دیا ہوا زیرو ۔ اس کے بعد کے سفر میں کچھ دیر لگی۔ اور جب میں یونان کو چھوڑ کر برصغیر کے شہر مردان کے قریب ہی ایک قصبے بخشالی پہنچا تو وہ چوتھی صدی عیسوی تھی یا شاید پانچویں۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ کن سے ملنے میں یہاں آیا۔ اپنے براہما گپتا جی سے، یعنی دنیا کے ان سب سے پہلے معلوم حساب دان سے جنہوں نے زیرو کو بطور ہندسہ استعمال کیا۔ براہما گپتا اس وقت زیرو کو ایک حلقے کی بجائے ایک بھرے ہوئے سیاہ دائرے سے ظاہر کرتے تھے۔ 'کیا آپ نے ہی یہ زیرو ہمارے سٹاف ممبر عطی کو دیا تھا'، پھر بھی میں نے ان سے پوچھا۔ میری بات سن کر کچھ دیر تو وہ خاموش رہے، پھر سر جھکا لیا اور کہا،' نہیں- میرا شونیہ ایسا تو نہیں تھا۔ شاید کسی نے بہکا دیا ہوگا'۔

بخشالی سے نکلتے وقت مجھے براہما گپتا جی کے دکھ کا خیال آتا رہا۔ ان کے شونیہ کو آخر کس نے بہکایا؟ بس اسی سوچ میں مَیں انڈیا کے اُن حساب دانوں کے ہمراہ ہو لیا جو شونیہ کو اپنے ساتھ لے کر عراق جا رہے تھے۔ میں نے وہ پذیرائی بھی دیکھی جو بغداد نے شونیہ کو بخشی۔ وہ نویں صدی عیسوی تھی جب بغداد کے دارالحکما کے ایک کونے میں ساتھ بیٹھ کر شونیہ اور مَیں نے خوارزمی کے قلم کی سرسراہٹ سنی۔ میری خاموشی کی بڑی وجہ تو خوارزمی کی عظمت کا احترام تھا۔ وہ ایک فارسی النسل حساب دان تھے، جنہیں یورپ نے الگورتمی کے نام سے جانا، اور جن کے نام سے منسوب الگوردم کا لفظ ہماری ٹیم کے کئی کاموں کے دوران بول چال کا حصہ تھا۔ اور شونیہ کا اپنا اشتیاق ہی شاید اسے خاموش رکھ رہا تھا۔ وہ دراصل شونیہ کی اس خوبی کی بات لکھ رہے تھے جو اکائی کو دہائی، دہائی کو سینکڑہ، اور پھر ہزاروں اور لاکھوں میں بدل سکتی ہے۔ تحریر کرنے کے بعد خوارزمی نے کتاب بند کی، اور سر ورق پر اس کا نام لکھا 'کتاب الحساب الہندی'۔ میں نے دیکھا کہ کتاب میں انہوں نے شونیہ کا نام بدل کر صفر رکھ دیا ہے۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، سنسکرت کا شونیہ ہو یا عربی کا صفر، معانی تو ایک ہی ہیں نا، 'کچھ بھی نہیں'۔

مجھے وہ بھی یاد ہے جب فیبوناچی نے صفر کو اپنے ہمراہ عرب سے یورپ لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ بارہویں صدی کے آخری سال تھے اور فیبوناچی الجزائر سے حساب کی اعلی تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنے آبائی وطن اٹلی واپس جا رہے تھے۔ دیس دیس کی سیر کا دلدادہ ہمارا شونیہ ان کی اس آفر پر خوش تھا، سو ساتھ چل دیا۔ تاہم ان دونوں کے جانے کے کوئی ایک سو سال بعد جب میں خیر خبر لینے فلورنس پہنچا تو حالات بغداد کی پذیرائی جیسے نہیں ملے۔ یہاں صفر کے استعمال پر سرکاری پابندی عائد تھی۔ اب اس امتناعی حکم کی وجہ کلیسا پر ارسطو جیسے قدیمی یونانی فلسفیوں کا اثر ہو یا صلیبی جنگوں کے باعث عرب کی جانب سے آنے والی ہر چیز پر اشتباہ، کچھ بھی ہو مگر اس بنا پر میں صفر کو قصوروار نہیں گردان سکا۔ اسے اپنی بیگناہی کی سزا بھگتتے دیکھ کر مجھے دکھ تو ہوا مگر اس کے ساتھ ہی ہندسوں کے قبیل کے اس پر اعتماد اور باعمل فرد کو داد بھی دینا پڑی۔ وہ اس لئے کہ پابندیوں کے باوجود صفر نے یورپ کے تاجر طبقے کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ دراصل انہیں اپنے لین دین اور حساب کتاب کو بیباق کرنے کے لئے اس بہتر اور کوئی نشان میسر ہی نہیں تھا۔

مختصر یہ کہ فلورنس میں گو مجھے کسی سرخی مائل دھڑکتے ہوئے زیرو کے بارے میں سراغ تو نہیں ملا البتہ ایک ایسے لفظ کا منبع ضرور دریافت ہوا جسے عطی سمیت ہم ٹیم ممبر اپنے بعض پراجیکٹس اور ریسرچ کی بات چیت کرتے ہوئے کبھی کبھار استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ انگریزی زبان کا ایک لفظ 'صائفر' ہے جسکے معنی ہیں 'بصیغہ راز'۔ صفر پر عائد پابندیوں کے باعث یورپ میں اس کے چوری چھپے کے استعمال نے ضمناً یہ لفظ 'صائفر' بھی ایجاد کر دیا تھا۔ یورپ پی میں مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارا شونیہ صفر سے زیرو کیسے بنا۔ دراصل شروع شروع میں فیبوناچی صفر کو 'زیفیرم' کہتے تھے، پھر تاجر حضرات میں مقبولیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ نام میں پیار کی آسانی بھی آئی۔ اٹلی کے لوگوں نے اسے 'زفیرو' بلانا شروع کیا جو فرانس میں 'زِفرو' اور پھر 'زیرو' ہو گیا۔

عطی نے ایک روز ہنستے ہوئے کہا تھا کہ یہ لکھوکھا کمپیوٹر، یہ تابکاری جانچنے کی مشینیں، یہاں تک کے موبائل فون بھی دنیا میں چاہے کہیں بستے ہوں صرف دو ہندسوں کی ایک ہی آسان سی زبان بولتے ہیں۔ یعنی زیرو اور ایک۔ اور اسی لئے میں ان سے باتیں کرنا پسند بھی کرتا ہوں۔ عطی کی اسی بات نے مجھے یورپ میں کچھ اور مدت کے لئے روک لیا۔ اور میں گوٹفرڈ لائبنٹز سے ملنے جرمنی چلا آیا۔ یہ ستھرویں اور اٹھارویں صدی کا سنگم تھا۔ لہذا مجھے اپنے آفس جیسے کمپیوٹر تو نظر نہیں آئے، تاہم لائبنٹز کے ہاتھوں میں ان کی لکھی ہوئی وہ کتاب ضرور دیکھی جو صفر اور ایک کے ہندسوں کی بنا پر ایک زبان بنانے کی پہلی تحریر تھی۔ خوارزمی کی طرح لائبنٹز بھی ایک عظیم الشان حساب دان ہیں۔ اگر آپ ان سے ملیں تو شاید میری طرح آپ کو بھی ان کی شخصیت میں ایک صوفیانہ سا رعب نظر آئے گا۔ سیدھی مانگ کے دونوں طرف ان کے لمبے گھنگریالے بال شانوں سے بہت نیچے تک آتے ہیں۔ 'آپ نے زیرو اور ایک کو نئی پہچان دی ہے، ان ہندسوں کو اظہار کا نیا گر سکھایا ہے۔ مگر مجھے آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ ہمارے عطی کا زیرو بھی کیا آپ ہی کی عطا ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر صرف زیرو ہی کیوں دیا اسے، ساتھ ایک کیوں نہیں دیا؟' لائبنٹز کی وضع قطع کی طرح ان کا جواب بھی کچھ گمبھیر سا لگا مجھے۔ 'نیست سے ہستی کی تخلیق، خالق کے ہونے کا اعتراف۔ نیست ہے تو ہستی نہیں، ہستی ہے تو نیست کہاں؟ الٹ پھیر ہے یہ، جیسے چین کے قدیمی فلسفوں کا یِن اور یینگ'۔

لائبنٹز کا جواب اگرچہ واضح نہی تھا مگر مجھے اس میں کچھ اشارے ضرور ملے۔ یعنی یہ کہ ہماری ٹیم میں عطی نے اپنے عمل سے اپنی ہستی منوا لی تھی۔ مگر اسے نیست سمجھا ہی کس نے تھا، اور کیوں؟ یہ مجھے معلوم نہیں ہو سکا۔ طویل مسافتوں کی تھکن کے باوجود اب بھی میرا تجسس اس سوال کے جواب کی تلاش میں وقت کی نائو کو طول و عرض کے ساحلوں تک مزید کھینے پر آمادہ تھا مگر اتفاق دیکھئے کے یہ جواب مجھے اپنے آفس میں ہی مل گیا۔ ہوا یوں کہ گزشتہ منگل کے روز لنچ کی میز پر ڈاکٹر سعدیہ کے ساتھ باتوں باتوں میں عطی کی بات چل پڑی۔ وہ عطی اور اس کی فیملی کو اس کے بچپن سے جانتی تھیں۔ اور انہوں نے ہی اسے ہماری ٹیم میں شامل ہونے پر آمادہ کیا تھا۔

'دسویں جماعت تک ہر پرچے میں زیرو آتا تھا اِسکا' سعدیہ نے روانی میں بتایا۔ 'گھر سے ذبردستی سکول بھیجا جاتا مگر سکول کی تعلیم میں اس کا دل کبھی لگا ہی نہیں۔ یہ کسی ٹیچر کو نہیں بھایا اور نہ کوئی ٹیچر اسے۔ بس ہر طرف ایک بغاوت، ایک غصہ، ایک ناراضی سی ہی رہی۔ اس کے ٹیچر اسے تاریخ، جغرافیہ، یا حساب اور انگریزی کے گھسے پٹے سوال پکڑا دیتے اور ساتھ ہی آسان جواب بھی رٹنے کو دیتے، مگر اس کے سیکھنے کا تو انداز ہی نرالا تھا۔ یہ بس کسی ایک چیز کو لے لیتا اور اس کو پہلو در پہلو جاننے سمجھنے میں اتنا منہمک ہو جاتا کہ کسی اور کام کی ہوش ہی نہ رہتی'۔

ہمارے لنچ کے کمرے میں ایک چھوٹا سا پودا رکھا ہے جس پر قمقموں کی ایک جھالر جگمگاتی ہے۔ شاید اسی کو ایک نظر دیکھ کر سعدیہ کو کچھ اور بھی یاد آیا۔ 'ہاں، اس زمانے میں روشنی دینے والے چھوٹے چھوٹے فوٹو ڈایوڈ کے قمقمے ایک بالکل نئی چیز تھی۔ جیب خرچ کے پیسوں سے عطی یہ قمقمے اور بیٹری سیل خریدتا، پھر گھنٹوں بیٹھ کر طرح طرح سے ان کو جوڑتا، نت نئے سرکٹ بناتا، اور شوق سے ان کے بارے میں مجھ سے باتیں کرتا نہیں تھکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ عطی نے اسی طرح کی کتنی ہی چھوٹی چھوٹی الیکٹرانکس اور مکینکس کی چیزیں بہت
انہماک سے جوڑیں، توڑیں اور پھر سے بنائی تھیں۔ اور ۔۔۔'۔
'اور پھر ۔۔۔ ' میں نے پرچھا۔
'اور پھر میری شادی ہوگئی اور میں دوسرے شہر چلی گئی'۔

جب لنچ ختم ہوا اور ہم میز سے اٹھے تو میں سوچ رہا تھا کہ سعدیہ کی ان باتوں سے عطی کے زیرو کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے یا شاید اس کا انجام۔ میں لنچ روم سے آفس میں اپنی میز کی طرف بڑھنا چاہتا تھا مگر چھوٹے بچوں کے ایک ہجوم نے میرا گزرنا دشوار کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ ہمارا تمام آفس اور سب لیبارٹیاں بچوں سے بھری ہوئی ہیں۔ برائون، کالے، سفید، پیلے، ہر رنگ کے بچے، جن سب کے ہاتھوں میں ایک ہی طرح کا کھلونا ہے، وہی عطی کے زیرو جیسا زیرو۔
'کیا ہوا ہے تمہیں؟ اے ڈی ایچ ڈی، اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیوٹی ڈسآرڈر، یا کچھ اور؟' میں نے کہا۔ 'راستہ دو، مجھے کام کرنا ہے، وہ دیکھو، وہ رپورٹیں ہیں میرے ڈیسک پر جو سعدیہ نے رکھی ہیں۔ یہ مجھے پڑھنی ہیں اور آج ہی ہسپتالوں کو پہنچانی ہیں۔ سمجھے۔'
'یہ بولتے نہیں' سعدیہ کی آواز مجھے کہیں دور سے آتی ہوئی سنائی دی ۔ 'انہیں کہنے اور سننے کے لئے زبان اور الفاظ کی احتیاج ہی نہیں۔ یہ خود اپنے عمل سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا کو خود اپنے تجربات سے پرکھنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ باتیں تم کہاں سمجھو گے۔ تم تو بس جانے پہچانے علوم کی بنا پر لکھی ہوئی رپورٹوں میں معمولی غلطیاں ڈھونڈنے والے سائینسدان ہو۔ ہر کلاس میں فرسٹ ڈویژن لے کر پاس ہونے کی خواہش کے غلام ! اس زیرو کا بھید تم سمجھ سکتے ہی نہیں۔ سائنسدان ! ہونہہ'۔

اور اگلے روز عطی کے کام پر آنے سے پہلے ہی وہ زیرو میں نے اس کے حقدار کو پہنچا دیا۔ اس نظامِ تعلیم کو جو نوخیز ذہنوں کی صلاحیتوں کے تنوع سے قطعی ناآشنا، ٹیوشن سنٹر کی بیساکھیوں کو بغلوں میں دبائے، رٹی رٹائی تان دہراتا، دہائیوں طویل وقت کی ایک لکیر پر ایک جگہ کھڑا پھدک رہا تھا۔ اس کو مسلسل مگن دیکھ کر یہ زیرو مجھے خود ہی اس کے کرتے کی جیب میں گرانا پڑا۔
'مرحبا، حق بہ حقدار رسید۔ پرکھ کی قابلیت سے عاری فرسودہ روایتوں کے نام پر یہ زیرو آپ آپ کی خدمت میں پیش ہے'۔ مگر مجھے یوں محسوس ہوا كہ اس نظامِ تعلیم نے میری باتوں اور حرکات پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ میرے روانہ ہونے تک کسی چابی بھرے کھلونے کی طرح وقت کی گھسی پٹی لکیر پر وہ بدستور اپنی بیساکھیاں لئے بس پھدکتا ہی رہا۔

زیرو کو اس کے حقدار تک پہنچانے کے بعد ہر گزشتہ بدھ کی طرح اس روز بھی آفس کے قریب کے بازار سے میں نے اپنی ٹیم کے ساتھیوں کی ہفتہ وار بیس منٹ کی ناشتہ میٹنگ کے لئے کچھ لیا۔ میری کافی اور عطی کی وہ سپیشل چائے بھی اس میں شامل تھی۔

اور ہاں آخر میں چپکے سے ایک اعتراف بھی کرتا چلوں۔ اس روز میٹنگ میں عطی کو اپنی مخصوص پر اعتماد مسکراہٹ لئے بات کرتے دیکھ کر زیرو کی طرح کے جو دو آنسو میرے رومال میں جذب ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ وہ آپس میں مل کر ایک نئے نشان میں بدل کئے ہیں، لامتناہی یعنی انفنٹی کا مخصوص نشان۔


ریاض اکبر، برسبین آسٹریلیا
Atee’s Zero

I am a scientist, and for the past two or three years, Atee has also been a part of the team I work with. Each of us in the team has our own distinct traits, but Atee’s zero is something unique. About two months ago, while clearing out their desk one day, Atee placed it on my table in their usual playful manner; "This is my zero. I got it second-hand from somewhere long ago, but for years, it was the most prominent decoration on my work desk. Now you can give it to whoever you want."

I have a habit of coming to the office a little late in the morning and staying back for a few hours in the evening. But the day Atee gave me this zero, much of my evening was spent thinking about it. At first glance, it was just a deep blue, oval-shaped ring; so worn out and ordinary that one could easily overlook it. But upon observing it for a while, I noticed something peculiar. If I stared at it intently, a reddish hue would emerge within its dark blue colour. And rather than standing upright, it would bend into a slight arc, as if bowing its head—like someone weighed down by guilt, intense embarrassment, or deep regret. Stranger still was the way it throbbed like a heartbeat when touched, quickening under pressure. This pulsating rhythm, its bowed posture, and shifting colours made it feel like a trembling, frightened body caught in my grasp. Uneasy, I quickly set it back on the desk, leaving it alone.

My first reaction to this experience was admiration for Atee’s craftsmanship. "What a toy they've created!" After all, we work on instruments that measure nuclear radiation. Every day, various machines from nuclear medicine clinics across hospitals arrive at our lab for calibration and repair. After ensuring they meet international safety standards, we certify their usability. Our work, therefore, carries both responsibility and urgency. Our team is structured so that each member specialises in different aspects. For instance, Dr. Saadia spends most of her time with the automated machines that test radiation devices. I focus on the theoretical aspects of radiation processes and their national and international safety protocols. In this context, although Atee is relatively new to the field, everyone acknowledges that their presence has significantly enhanced our team's efficiency. They possess an uncanny ability to diagnose malfunctions in highly complex electronic instruments and restore them by replacing faulty components - saving equipment worth thousands of dollars from being discarded.

The same day Atee gave me their zero, they had just repaired a valuable device by expertly replacing some integrated circuit chips. We were so impressed that we couldn’t help but applaud around their desk. Given their expertise in electronics and artificial intelligence, it seemed plausible that they had embedded a small circuit and battery inside the toy to surprise me. So, that evening, a mischievous curiosity overtook me. To examine the circuits inside this toy, I took two or three X-rays of it from different angles. But the zero was empty—just an old, worn-out, hollow ring. And yet, it was so sensitive. Why? How?

This discovery left me even more puzzled. What added to my intrigue was the fact that, academically, Atee was the least qualified among us. They held no degree, no technical diploma, not even a basic certification. And yet, their technical acumen and ability to work with mechanical and electronic components surpassed many of us.

For weeks after this, the zero pulled me away from my daily tasks and into a journey across time - spanning centuries and civilisations. I found myself in ancient Greece, around 350 BCE, hearing Aristotle declare, "There is no such thing as nothing." Had I not been sitting at my desk with Atee’s zero before me, I might have believed him.

From there, I travelled to fourth or fifth-century India, to a small town near Mardan called Bakhshali. And do you know who I sought out? The very first mathematician known to have used zero as a numeral — Brahmagupta. He depicted zero not as an empty ring but as a solid black dot."Was it you who gave our team member Atee this zero?" I asked him. Brahmagupta remained silent for a while, then lowered his head and said, "No, my shunya was not like this. Perhaps someone led it astray." As I left Bakhshali, I kept wondering - who had misled Brahmagupta’s shunya?

I then joined a group of Indian mathematicians traveling to Iraq, carrying shunya with them. In ninth-century Baghdad, I witnessed the reverence with which it was embraced. In a quiet corner of the House of Wisdom, shunya and I listened to Al-Khwarizmi’s pen glide across parchment. I remained silent out of respect for his brilliance, while shunya seemed equally intrigued. Al-Khwarizmi was writing about the unique power of zero - the ability to transform ones into tens, tens into hundreds, and then into thousands and beyond. When he finished, he closed his book and wrote on the cover: Kitab al-Hisab al-Hindi (The Book of Indian Mathematics). I noticed that he had replaced shunya with the Arabic term sifr. But what difference does a name make? Whether in Sanskrit or Arabic, the meaning remained the same: "nothingness."

I also recall Fibonacci’s desire to take sifr with him from the Arab world to Europe in the late twelfth century. By the time I visited Florence a hundred years later, however, zero had been banned there. Was it due to the Church’s allegiance to ancient Greek philosophy? Or was it suspicion of everything coming from the Arab world during the Crusades? Regardless, I could not blame zero. Watching it suffer unjust punishment pained me, but I also admired its resilience. Despite the ban, European merchants clandestinely used zero in their ledgers, finding no better symbol to balance their accounts.

In Florence, though I found no trace of a pulsing, red-hued zero like Atee’s, I did uncover the origin of a word our team occasionally used in research discussions: cipher. Due to the secretive use of zero in medieval Europe, the word cipher (meaning encoded or hidden) emerged. It was here that zero transformed once more—Fibonacci’s zephyrum became zefiro in Italy, then zifre in France, and finally zero.

One day, Atee had jokingly said, "All these computers, radiation machines, even mobile phones – no matter where they are in the world, they all speak the same simple language of two digits: zero and one. That’s why I enjoy talking to them." Atee’s words reminded me of the German mathematician Gottfried Leibniz, who, in the late seventeenth century, devised the binary number system based on zero and one. His flowing curly hair fell past his shoulders as he held his manuscript. "You gave zero and one a new identity, a new way to express meaning," I told him. "But did you also give our Atee this zero? And if so, why only zero—why not one as well?"
Leibniz’s response was as profound as his appearance: "From nothingness comes existence. If there is nothingness, then existence cannot be. If there is existence, then where is nothingness? A paradox—like Yin and Yang in ancient Chinese philosophy."
His words hinted at something: Atee had already proven their existence through action. But who had ever considered them nothing in the first place? And why?
And I found my answer right in my office. Dr. Saadia, who had known Atee since childhood, told me, "They got zero in every subject up to tenth grade. They were forced to attend school, but never fit in. They never liked teachers, and teachers never liked them. Teachers handed them textbook questions with ready-made answers to memorise, but Atee had a different way of learning. They would take one thing, obsess over it, and explore it deeply, oblivious to everything else."
Saadia sighed. "But who understands such minds? These are gifted children… But you wouldn’t understand, scientist -slave to grades and perfect scores! You will never grasp the secret of their zero."

The very next day, before Atee even arrived at work, I had already delivered that zero to its rightful recipient - the education system. A system utterly oblivious to the diversity of young minds’ capabilities, limping forward on the crutches of tuition centres, endlessly repeating the same memorised chants, hopping in place along a decades-long timeline, unable to progress. Seeing its relentless persistence, I felt compelled to slip that zero into its very pocket. "Congratulations, the rightful heir has received their due. Here is this zero, presented in honour of outdated traditions that lack the wisdom of discernment." Yet, it seemed as though the education system remained utterly indifferent to my words and actions. Until the moment I left, like a wind-up toy, it continued its aimless hopping along the worn-out path of time, gripping its crutches with unyielding resolve.
After bestowing the zero upon its deserving recipient, I followed my usual Wednesday routine. Stopping by the market near my office, I picked up refreshments for my team's weekly twenty-minute breakfast meeting. As always, my coffee and Atee’s special tea were included in the order.

And now, let me quietly confess something. That day, during the meeting, as I watched Atee speak with his usual confident smile, two tear - much like that zero - were absorbed into my handkerchief. But as I looked closely, I noticed something remarkable. The two tears had merged into a new symbol - one of infinity.


Riaz Akber, Brisbane, Australia