'تم ۔۔۔ اتنا جھجھکتے کیوں ہو؟'
مجھے یاد ہے کہ ناراضی اور گِلے کے ملے جلے لہجے میں یہ جملہ تم نے لفظ 'تم' کے بعد کچھ وقفہ ڈال کر مکمل کیا تھا۔ تم بات بدلنا چاہتی تھیں یا شاید بالوں کو باندھنے کی کوشش میں تمہاری توجہ کچھ بٹ گئی تھی، معلوم نہیں۔ ان دنوں میں ہم کوئی پانچ سال کے وقفے کے بعد ملے تھے۔ تم پہلے ہی کی طرح دبلی اور لانبی تھیں، اور تمہارا وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بِنا ٹیک لگائے سیدھی ستواں کمر کے ساتھ کرسی پر بیٹھے کا انداز بھی نہیں بدلا تھا۔ بس تمہارے چہرے کے نقوش میں کچھ پختگی سی آ گئی تھی اور اس پرانے باریک سنہری فریم کی بجائے تم نے نسبتاً موٹے سیاہ فریم کا چشمہ پہنا تھا۔ ہاں تمہارے پائوں کی ایک انگلی میں انگوٹھی جس میں ایک چھوٹا سا سفید نگینہ تھا مجھے ویسی ہی لگی تھی جو ہم دونوں کی پی ایچ ڈی تعلیم کے دوران ایک دن تم ہاتھ میں پہن کر یونیورسٹی آئی تھیں۔
'یہ انگوٹھی؟!'
'ہاں وہی ہے۔ پھنس گئی ہے کمبخت۔ تم اتار دو۔ پلیز۔' تم نے انگلیاں ہلاتے ہوئے اپنا پائوں چپل سے نکال کر آگے کیا تھا۔
میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایئرپورٹ کے لائونج میں کچھ اور مسافر بھی دور دور کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ اور ایسے میں ہی تم نے میرے جھجھکنے کی بات کی تھی۔

'یہ انگوٹھی؟!'
عجیب بات ہے کہ یہی دو لفظ اسی طرح بے ساختہ میں نے تب بھی کہے تھے جب یونیورسٹی کی لائیبریری میں اسے پہلی بار تمہارے ہاتھ کی ایک انگلی میں دیکھا تھا۔ لائیبریری تھی اور وہ بھی رات کے کوئی دس بجے۔ خاموشی کے اصولوں کے احترام کی وجہ سے تم کھکھلا کر ہنس تو نہ سکیں، مگر کھل کے مسکرائی ضرور تھیں۔
'کیوں؟ میں نے خود اپنے سکالر شپ سے خرید کر پہنی ہے تاکہ شر پسندوں سے محفوظ رہوں۔ اتار دوں کیا؟'۔
مجھے معلوم ہے کہ اس روز یہ سوال تمہاری آواز کے ساتھ تمہاری آنکھوں نے بھی کیا تھا۔ اور اس روز بھی، آج ہی کی طرح نہ جانے کیوں میں صرف خاموش رہ گیا تھا۔

ہماری پی ایچ ڈی مکمل ہوئے پانچ سال بیت گئے اور اس دوران میں تم نے مجھے کوئی ذاتی سا میسج بھیجا نہ میں نے تمہیں۔ بس بعض ریسرچ کے رسالوں میں مَیں نے تمہارے مضمون پڑھے اور تم نے شاید میرے۔ میں انڈیا ہی میں رہا اور تم سرن سوئٹزرلینڈ چلی گئیں جہاں دنیا کا سب سے بڑا ایٹمی ریسرچ کا تجرباتی مرکز ہے۔ اور اگر دلّی میں اس کانفرنس میں ہم دونوں نہ آتے تو شاید اب بھی نہ مل پاتے۔ پھر بعد میں تم دلّی سے کچھ روز کے لئے گاندھی نگر اپنے گھر گئیں اور میں ممبئی کی فلائٹ پر اپنے ریسرچ سنٹر لوٹ آیا۔

اب تو دلّی میں اس کانفرنس کو بھی دو سال گزر گئے ہیں، تم سرن پہنچ کر اپنے کاموں میں مصروف شاید ہمارے اس اچانک دوبارہ میل کو یاد بھی نہ رکھ پائی ہونگی، یا شاید تمہیں یاد ہو کہ فلائٹ کے گیٹ تک جاتے ہوئے تم اپنا چھوٹا پرس وہیں لائونج میں بھول گئی تھیں جو میں نے بھاگ کر تمہیں تھمایا تھا۔ یہ بہت معمولی سی بات ہی تھی جو ایسے میں ہمارے ہاتھوں کی انگلیاں چھو گئیں۔ تمہارے ہاتھوں میں کوئی انگوٹھی تھی نہ میرے، مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسے لگا کہ اب کی بار وہی ایک پانچ سال پرانا سوال ہم دونوں کی نگاہوں نے دہرایا ہے
'اتار دوں کیا؟!'
'تم اتنا جھجھکتے کیوں ہو؟' تمہاری نگاہ نے پوچھا۔
میں نے نظر جھکا لی۔
اور تمہارا جہاز چلا گیا۔

تم ٹھیک کہتی ہو۔ لیکن یہ میری جھجھک کا سبب مجھے معلوم نہیں۔ کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں۔ امی نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ میں بچپن ہی سے کچھ شرمیلا تھا۔ اب ممبئی میں جاب لگنے کرنے بعد ایک مرتبہ ایک سائیکالوجسٹ سے بھی ملا ہوں۔ شاید یہ avoidant personality disorder ہے، یا شاید کچھ اور۔ کوئی نہیں جانتا۔ کوئی بھی نہیں جانتا۔

خیر چھوڑو۔ تمہیں ایک بات بتائوں۔ یونیورسٹی کی لائبریری میں اس رات کے بعد تمہارے لئے ایک انگوٹھی میں نے بھی اپنے سکالرشپ سے خریدی تھی۔ یونیورسٹی آتے جاتے بہت دنوں تک وہ میرے بیگ میں رہی۔ پھر ایک روز ٹک شاپ کی میز پر اپنی تازہ ریسرچ کے رزلٹ ہم سب سکالرز کو دکھاتے ہوئے تم نے اپنا ہاتھ یونہی ایک گراف پیپر پر پھیلا دیا تھا۔ اس گراف پیپر پر تمہاری انگلیوں کی پیمائش دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ میرے بیگ میں پڑی انگوٹھی کا سائز شاید ٹھیک نہیں۔ تب میں نے تمہارے لئے ایک دوسری انگوٹھی اندازے سے صحیح سائز کی خریدی۔ یہ دونوں انگوٹھیاں اب بھی میرے پاس ہیں، نہ انہیں تمہیں دے سکا، نہ بھیج سکا۔

جب سرن کے ایٹمی ریسرچ کے مرکز نے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شپ کا اعلان کیا تو تم نے مجھے بھی اپلائی کرنے کے لئے کہا تھا۔ انکی ویب سائٹ پر مندرج ساری تفصیلات ساتھ بیٹھ کر سمجھائی تھیں۔
'دونوں چلیں گے' تم نے کہا تھا۔
میں نے ایپلیکیشن فارم پُر کیا۔ جمع نہیں کرا سکا۔ اور تم چلی گئیں۔ اب رسالوں میں تمہاری ریسرچ پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ تم ایک ٹیم کے ساتھ مل کر کتنا اہم تجرباتی کام کر رہی ہو۔ تمہارے نام کے ساتھ دنیا کے مختلف ملکوں کے سائینسدانوں کے نام بھی پڑھتا ہوں تو وہی احساس ہوتا ہے جو اپنی پرانی یونیورسٹی کے برآمدے کی سیڑھیوں بیٹھے ہوئے دوسرے سکالرز کے ساتھ تمہیں باتیں کرتے دیکھ کر ہوتا تھا۔ مگر مَیں تمہاری طرح کسی ٹیم کے ساتھ تجرباتی کام نہی کر سکتا۔ شاید اسی لئے میری تمام ریسرچ تھیوریٹیکل ہے، دفتر کے ایک چھوٹے سے کمرے کی تنہا سوچ۔

مگر سنو- ہمارے درمیان اتنے فاصلوں کے باوجود نہ جانے کیوں یقین سا ہے کہ کبھی کہیں ہم اس طرح بھی ملیں گے کہ پھر بچھڑ نہیں پائیں گے۔ کہاں اور کس جنم میں، یہ معلوم نہیں۔ شاید ہمارے ملن کا دن وہ ہوگا جب میری تیری طرح اس دھرتی اور اس کے باسیوں سے سیدھا سادا پیار کرنے والے کچھ سکالرز، کچھ سائیکالوجسٹ، اپنی دن رات کی محنت اور لگن سے میری اس جھجھک کا مداوا ڈھونڈ لیں گے۔ دیوالی ہوگی اس روز۔
ملو گی نا؟!
झिझक

'तुम... इतना झिझकते क्यों हो?'
मुझे याद है कि नाराज़गी और शिकायत के मिले-जुले लहजे में यह वाक्य तुमने 'तुम' के बाद ज़रा रुक कर पूरा किया था। तुम शायद बात बदलना चाहती थीं या अपने बाल बाँधने की कोशिश में तुम्हारा ध्यान कहीं बंट गया था, मालूम नहीं। उन दिनों हम कोई पाँच साल के अंतराल के बाद मिले थे। तुम पहले की ही तरह पतली और लम्बी थीं, और तुम्हारा टाँग पर टाँग रखकर बिना टेक लगाए सीधी कमर के साथ कुर्सी पर बैठने का अंदाज़ भी नहीं बदला था। बस तुम्हारे चेहरे के नक़ूश में कुछ परिपक्वता आ गई थी और पुराने महीन सुनहरे फ्रेम की जगह तुमने अब अपेक्षाकृत मोटे काले फ्रेम वाला चश्मा पहना था। हाँ, तुम्हारे पैर की एक उंगली में अंगूठी, जिसमें एक छोटा-सा सफ़ेद नग़ीना था, मुझे वही लगी जो पीएचडी के दिनों में एक बार तुम हाथ में पहनकर यूनिवर्सिटी आई थीं।

'यह अंगूठी?!'
'हाँ, वही है। फँस गई है कमबख़्त। तुम उतार दो, प्लीज़।' तुमने उंगलियाँ हिलाते हुए पैर चप्पल से निकालकर आगे बढ़ाया था।
मैंने इधर-उधर देखा। एयरपोर्ट के लाउंज में कुछ और मुसाफ़िर भी दूर-दूर कुर्सियों पर बैठे थे। और ऐसे में ही तुमने मेरे झिझकने की बात की थी।

'यह अंगूठी?!'
अजीब बात है, यही दो शब्द मैंने तब भी कहे थे जब यूनिवर्सिटी की लाइब्रेरी में पहली बार उसे तुम्हारे हाथ की एक उंगली में देखा था। लाइब्रेरी थी और वह भी रात के कोई दस बजे। ख़ामोशी के नियमों के सम्मान में तुम खुलकर हँस तो नहीं सकीं, मगर खुलकर मुस्कुराई ज़रूर थीं।
'क्यों? मैंने ख़ुद अपने स्कॉलरशिप से ख़रीदकर पहनी है ताकि शरारती लोगों से सुरक्षित रहूँ। उतार दूँ क्या?'
मुझे याद है कि उस रोज़ यह सवाल तुम्हारी आवाज़ के साथ तुम्हारी आँखों ने भी किया था। और उस रोज़ भी, आज ही की तरह न जाने क्यों मैं सिर्फ़ ख़ामोश रह गया था।

हमारी पीएचडी पूरी हुए पाँच साल बीत गए, इस बीच न तुमने मुझे कोई निजी मैसेज भेजा, न मैंने तुम्हें। बस कुछ रिसर्च जर्नल्स में मैंने तुम्हारे लेख पढ़े और शायद तुमने मेरे। मैं इंडिया में ही रहा और तुम CERN, स्विट्ज़रलैंड चली गईं, जहाँ दुनिया का सबसे बड़ा परमाणु शोध संस्थान है। और अगर दिल्ली में उस कॉन्फ्रेंस में हम दोनों न आते तो शायद अब भी न मिल पाते। फिर बाद में तुम दिल्ली से कुछ दिनों के लिए गांधीनगर अपने घर चली गईं और मैं मुंबई की फ्लाइट से अपने रिसर्च सेंटर लौट आया।

अब तो दिल्ली वाली उस कॉन्फ्रेंस को भी दो साल गुज़र गए हैं। तुम CERN पहुँचकर अपने कामों में इतनी व्यस्त हो गई हो कि शायद हमारे इस अचानक दोबारा मिलन को याद भी न रख पाई होगी। या शायद तुम्हें याद हो कि फ्लाइट के गेट तक जाते हुए तुम अपना छोटा पर्स वहीं लाउंज में भूल गई थीं, जिसे मैं भागकर तुम्हें देने गया था। यह बहुत मामूली-सी बात थी जब हमारे हाथों की उंगलियाँ छू गई थीं। तुम्हारे हाथ में कोई अंगूठी नहीं थी, न मेरे। मगर न जाने क्यों मुझे लगा कि इस बार पाँच साल पुराना वही सवाल हम दोनों की नज़रों ने दोहराया है।
'उतार दूँ क्या?!'
'तुम इतना झिझकते क्यों हो?' तुम्हारी निगाह ने पूछा।
मैंने नज़र झुका ली।
और तुम्हारा जहाज़ चला गया।

तुम ठीक कहती हो। लेकिन मेरी इस झिझक का कारण मुझे भी मालूम नहीं। किसी को भी नहीं। अम्मी ने एक बार बताया था कि मैं बचपन से ही कुछ शर्मीला था। अब मुंबई में नौकरी लगने के बाद एक बार मनोवैज्ञानिक से भी मिला हूँ। शायद यह avoidant personality disorder है, या शायद कुछ और। कोई नहीं जानता। कोई भी नहीं।

ख़ैर छोड़ो। तुम्हें एक बात बताऊँ। यूनिवर्सिटी की लाइब्रेरी वाली रात के बाद तुम्हारे लिए एक अंगूठी मैंने भी अपने स्कॉलरशिप से ख़रीदी थी। यूनिवर्सिटी आते-जाते बहुत दिनों तक वह मेरे बैग में रही। फिर एक दिन टकशॉप की मेज़ पर अपनी ताज़ा रिसर्च के नतीजे हम सब स्कॉलर्स को दिखाते हुए तुमने अपना हाथ यूँ ही ग्राफ़ पेपर पर फैला दिया था। उस दिन लगा मेरे बैग वाली अंगूठी का साइज़ शायद ठीक नहीं। मैंने तुम्हारे लिए दूसरी अंगूठी सही साइज़ की ख़रीदी। ये दोनों अंगूठियाँ अब भी मेरे पास हैं, न तुम्हें दे पाया, न भेज पाया।

जब CERN ने पोस्ट-डॉक्टरेट फैलोशिप का एलान किया था तो तुमने मुझे भी अप्लाई करने को कहा था। उनकी वेबसाइट पर सारी जानकारी साथ बैठकर समझाई थीं।
'दोनों चलेंगे' तुमने कहा था।
मैंने फॉर्म भरा। जमा नहीं कर पाया। तुम चली गईं। अब तुम्हारे रिसर्च पढ़कर खुशी होती है। पर मैं तुम्हारी तरह टीमवर्क नहीं कर सकता। शायद इसी वजह से मेरी पूरी रिसर्च theoretical है। एक छोटे से कमरे की तनहा सोच।

पर सुनो—इतने फ़ासलों के बावजूद यक़ीन है कि कहीं, किसी जन्म में, हम ऐसे मिलेंगे कि फिर बिछड़ न पाएँगे। उस दिन दिवाली होगी, जब कुछ वैज्ञानिक, मनोवैज्ञानिक, अपनी लगन से मेरी इस झिझक का इलाज ढूंढ लेंगे।

मिलोगी न?!
__________________
सर्न (CERN)
"Why... do you hesitate so much?"
I vividly recall your voice—a mix of mild annoyance and gentle complaint—as you paused momentarily after the word 'you.' Perhaps you were trying to divert the conversation or got distracted while tying your hair—I cannot say. We had met after roughly five years. You were as slender and poised as before, your posture unchanged: elegantly upright, legs neatly crossed, no support needed. Your features had matured slightly, and your delicate golden-framed glasses had given way to sturdier, black frames. Yet, the small ring with a white stone on your toe closely resembled the one you had worn on your finger during our PhD days.

"This ring?!"
"Yes, the wretched thing is stuck. Could you help me take it off?" You playfully wiggled your toes, extending your foot from your sandal.
I glanced around discreetly. In the airport lounge, passengers sat scattered across chairs at a distance. It was precisely then that you mentioned my hesitation.

"This ring?!"
Oddly, these very words had slipped from me spontaneously years earlier when I first spotted that ring on your finger in the university library, around ten at night. In deference to the library's silence, you had restrained your laughter, rewarding me instead with a wide, warm smile.
"Why? I bought it myself, using my scholarship money, to discourage troublemakers. Should I take it off?" Your eyes had asked the question alongside your voice that night. And, inexplicably, I had stayed silent, exactly as I did today.

Five years have passed since we completed our PhDs. During this period, neither did you send me a personal message, nor did I reach out to you. Occasionally, I came across your articles in scholarly journals, and perhaps you found mine. I remained in India, and you moved to CERN, Switzerland, joining the world’s largest experimental nuclear research center. Had we not attended that conference in Delhi, our paths might never have crossed again. Later, you visited your home in Gandhinagar briefly, while I returned to my research institute in Mumbai.

Now, two years have passed since that conference in Delhi. Perhaps, deeply immersed in your work at CERN, you might have forgotten our sudden reunion. Or maybe you remember accidentally leaving your small purse behind in the lounge, which I rushed to return to you at the flight gate. It was an insignificant moment, yet our fingers briefly brushed. Neither of us wore rings this time, yet inexplicably, I felt we silently echoed the old, unresolved question:
"Should I take it off?"
"Why do you hesitate so much?" your eyes gently challenged.
I lowered my gaze.
And then your plane departed.

You're right. Yet, the cause of my hesitation remains elusive. No one knows, really. Mother once mentioned that I had always been somewhat shy. After moving to Mumbai for work, I even consulted a psychologist. Perhaps it’s an avoidant personality disorder, perhaps something else entirely. Nobody truly understands—nobody at all.

But let me share something with you. After that evening in the university library, I had purchased a ring for you too, using my scholarship funds. For many days, it stayed concealed in my bag. Then one day, at the tuck shop, while enthusiastically sharing your latest research results with fellow scholars, you casually spread your hand across graph paper. Noting your finger measurements, I realized the ring I carried might not fit. So, I purchased another, hoping it would be the correct size. Both rings remain with me still—never gifted, never sent.

When CERN announced a postdoctoral fellowship, you urged me to apply. Sitting beside me, you meticulously explained every detail from their website.
"We'll both go," you had said.
I filled out the form but never submitted it. You left alone. Now, when I read your published research, it fills me with pride. You work collaboratively with renowned scientists worldwide, contributing significantly to groundbreaking experiments. Seeing your name alongside theirs recalls those serene university days, watching you talk animatedly with fellow researchers on the campus stairs. But unlike you, I have never thrived in collaborative experimental research. Perhaps that’s why my work remains entirely theoretical, confined to solitary contemplation within a modest office.

Yet—listen carefully—despite the vast distances, I am inexplicably convinced that we shall meet again, in some time, some place, never to part again. When and where, I cannot say. Perhaps our reunion will arrive on a day when dedicated scientists and psychologists—people as passionately committed to understanding the human spirit as you and I once dreamed of becoming—finally unravel the mystery of my lifelong hesitation. Perhaps it will be Diwali on that special day.

Will you be there to meet me?