'اوہ بجلی چلی گئی' ۔ یہ ہم سب نے کہا تھا۔
'چلی گئی یا کسی نے روک لیا'۔ یہ نسرین نے کہا تھا۔
وہ یونیورسٹی میں ہمارا پہلا دن تھا۔ یا یوں کہہ لیں کہ پہلی شام۔ ارد گرد کے کئی مختلف قصبوں اور چھوٹے شہروں سے ہم یہاں آئے تھے، ہوسٹل کے کمرے ابھی الاٹ نہیں ہوئے تھے، اور ہم آٹھ دس لڑکیاں سامان کامن روم میں چھوڑ کر ٹک شاپ میں چلی آئی تھیں۔
'ساتھیو چلو! ہماری بجلی روک دی گئی ہے' ۔ کسی نے ایسے لہجے میں دہرایا جس میں نسرین کی اس اچھوتی سی بات پر حیرت کے ہمراہ کچھ طنز بھی پنہاں تھا۔ جواباً، میرے خلافِ توقع، نسرین کھکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ 'ہاں یہ بیچارے بےبس الیکٹران جو ایک اشارے سے تانبے کی تاروں پر اِدھر اُدھر دوڑائے جاتے ہیں۔ تھوڑے سے تو ہیں، سو کہاں کہاں بھیجے جائیں اور کس کس کی مانگ پوری کریں؟ اسی لئے تو ہمارے بلب ایسے روشنی دیتے ہیں جیسے کسی نے تیل کے دئیے جلائے ہوں'۔ نسرین کی یہ بات مجھے اس لئے بھی بھلی لگی کہ گھر والوں کے زور دینے پر میں نے پچھلے سالوں میں اضافی طور پر کچھ سائنس بھی پڑھی تھی۔ دوسری طرف نسرین کی گزشتہ ساری تعلیم اکنامکس اور فلسفے میں تھی۔ اب ہم دونوں نے اس یونیورسٹی میں ایم اے کے لئے فلسفے کا مضمون چنا تھا، اور دونوں ہی کے خواب PhD کرنے کے تھے۔ شاید اسی لئے ٹک شاپ سے واپسی پر وہ میری روم میٹ ہونے پر رضامند ہوگئی تھی۔ بعد کے دنوں میں کئی بار ہم برقی لوڈ شیڈنگ کے موضوع پر بات کرتے رہے۔

نسرین کے ساتھ یونیورسٹی کے دو سال بہت ہی اچھے گزرے۔ وہ گائوں سے آئی تھی، اور بی۔اے بھی پرائیویٹ پڑھا تھا۔ مضبوط بدن کی بہت سادہ سی انسان تھی وہ، جسے بنائو سنگھار، نیل پالش، اور میک اپ وغیرہ سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ہاں سردیاں ہوں یا گرمیاں وہ روز نہا کر، جرابوں سے دوپٹے تک دھلے ہوئے کپڑے ضرور بدلتی۔ جب میں نے پہلی مرتبہ کمرے کی الماری میں اس کا لباس دیکھا تو کچھ عجیب سا لگا۔ سب کے سب صرف سفید رنگ کے کھلے کرتے اور سیدھے سلے ہوئے پائجامے۔ لیکن اس کے پاس رنگ رنگ کے کئی دوپٹے ضرور تھے، جنہیں وہ ہر روز بدل بدل کر پہنتی۔ سردیوں میں اس کا سویٹر کرتے کے نیچے ہوتا۔ لنڈے سے لئے ہوئے سیدھے سے دو کوٹ بھی۔تھے، اور ایک بادامی ٹوپی۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں وہ کالے رنگ کے بند جوتے پہنتی۔ اس کے پاس ایک وقت میں جوتوں کا ایک ہی جوڑا ہوتا جسے ہر چھ، آٹھ ماہ کے بعد وہ اسی طرح کے نئے جوتے خرید کر بدل دیتی۔ کمرے میں وہ ننگے پائوں رہتی تھی۔ اور اس کے رات کا لباس، وہ میں آپ کو نہیں بتائوں گی۔ سونے سے پہلے وہ اپنے بال گردن کے نیچے سے اٹھا کر تکئے پر پھیلا دیتی، اور اسکی یہ عادت میں نے بھی اپنا لی تھی۔ ہر بدھ کی رات وہ اپنے ہاتھ اور پائوں کی انگلیوں کے ناخن کاٹتی۔ اور اگر اس کی زندگی میں کوئی فیشن تھا بھی تو وہ ایک ہلکی سی کریم، جسے وہ صبح نہانے کے بعد اور رات کو سونے سے پہلے اپنے ہاتھوں اور پائوں پر مل لیتی۔ جہاں تک میں جان سکی، پورے دو سال اس نے ایک ہی طرح کا صابن استعمال کیا۔ میں سوچتی ہوں کہ ہر شخص کا ایک انداز ہوتا ہے، اور ہمارے ہوسٹل میں نسرین کا یہ سٹائل اس کی شخصیت کی علامت بن گیا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے دوپٹے بیڈ پر پھیلا کر مجھے دکھائے۔ 'بنفشی، آسمانی، نیلا، سبز، پیلا، نارنجی، سرخ - سات دھنک کے رنگ' اس نے کہا تھا۔ 'ان میں ایک بھی کم کر دو تو دھوپ اجلی نہیں رہے گی، بس یہی یاد رکھنے کے لئے انہیں پہنتی ہوں'۔ ان دوپٹوں کی طرح اس کے بظاہر سیدھے سادے انداز میں بھی ایک رنگین تنوع پنہاں تھا۔

کلاس میں لیکچر کے دوران نسرین ذیادہ سوال نہیں پوچھتی تھی۔ بس سنتی، اور کاپی پر چیدہ چیدہ نوٹس لکھتی جاتی۔ اس کا اپنا ایک انداز تھا۔ ہر لیکچر کے نوٹس پر تاریخ، دن، ٹیچر کا نام لکھتی، اور ہر نئے نوٹ سے پہلے ایک لائن لگا کر تین چار سطور خالی چھوڑ دیتی۔ وہ ایک کامیاب سٹوڈنٹ تھی اور بری میں بھی نہیں تھی۔ اس لحاظ سے ہم دونوں میں ایک خفیہ سا خوشگوار تقابل بھی رہتا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس تقابل نے کبھی جلن یا حسد کا رنگ نہیں لیا۔

میں نے اسپے بستر میں گھس کر پڑھتے نہیں دیکھا۔ بس کبھی کبھی وہ پلنگ سے اپنا تکیہ اٹھا کر کرسی پر رکھ لیتی۔ میز پر ٹیبل لیمپ، ترتیب سے دھری کتابیں کاپیاں، پین پنسل، اور دراز میں ایک موم بتی اور ماچس کی ڈبیہ، یہی اس کا اثاثہ تھا۔ کتابیں پڑھنے کا تو جنون تھا اس کو۔ یونیورسٹی کی لائبریری کے علاوہ شہر کی بڑی لائبریری سے وہ کتابیں لاتی، پڑھتی اور لوٹا دیتی۔ کمرے میں ہمارے ڈیسک مختلف سمتوں میں تھے۔ جب مجھ سے باتیں کرتی تو کرسی کی بجائے خود گھوم کر ٹانگیں دونوں طرف پھیلا کر بیٹھتی۔ ہم بہت سی باتیں کرتے تھے، سچ پوچھیں تو بہت کھل کر بہت سی باتیں۔ کامن روم میں اس نے کبھی کبھار ہی کوئی ٹی وی ڈرامہ دیکھا ہوگا۔ بس ٹیبل ٹینس کھیلتی تھی، اور وہ بھی بہت اچھا۔ یہ کھیل اس نے اپنے سکول کے زمانے میں سیکھی تھی۔ ہم سب لیکچر کے دوران ٹیچر کے لئے میڈم یا سر کا لفظ استعمال کرتے، مگر نسرین انہیں نام سے بلاتی، بس اس سے پہلے ڈاکٹر یا پروفیسر کا لفظ لگا لیتی۔ اس کے روئیے کا ایک اور مختلف پہلو اس کا ہم یونیورسٹی کی لڑکیوں اور لڑکوں سے یکساں طرزِ گفتگو تھا۔ وہ با آسانی دونوں سے ہاتھ ملاتی، اور ساتھ چلتی۔ اس کے سٹائل میں ہچکچاہٹ تھی نہ اوچھا پن۔ ایک رات میں نے اس سے یوں باآسانی سب سے بات کر لینے کا پوچھا تھا۔ 'معلوم نہیں کیسے مجھے کچھ فرق کا احساس نہیں ہوتا؟ شاید بچپن سے باہر کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے۔' اس نےکہا تھا۔

گائوں میں نسرین اور اس کی امی کا ایک کچا کمرہ تھا اور اسکے ساتھ ایک کھیت۔ یونیورسٹی میں ہفتے اور اتوار کی چھٹی ہوتی، اور نسرین تقریباٌ بلاناغہ ہر دوسرے جمعے کو لیکچر کے بعد شہر سے ایک بس میں بیٹھ کر گائوں چلی جاتی اور پھر سوموار کی صبح لوٹتی۔ 'پکی سڑک سے گھر پہنچنے کے لئے مجھے کوئی چھ کلومیٹر پیدل چلنا ہوتا ہے۔ وہاں آدھے راستے میں ایک آستانہ ہے جہاں پانی کا نل بھی ہے۔ میری ماں اکثر وہیں آ کر میرا انتظار کرتی ہے۔ کبھی کبھی جب وہ گڑ اور گھی بھری روٹی ساتھ لاتی ہے تو اسی آستانے کے پاس پیڑ کے نیچے ہم دونوں بیٹھ کر کھاتے ہیں اور پھر باتیں کرتے گھر پہنچنے تک شام ہو جاتی ہے۔ ہفتے اور اتوار ہم دونوں کھیت میں کام کرتے ہیں۔ اب کی بار گوبھی اتاری تھی'۔ اس روز نسرین کی مظبوط بڑی ہتھیلیوں پر چھالوں کی گواہی کے باوجود بھی جانے کیوں میں یوں سوچتی رہی کہ ہماری یونیورسٹی کی یہ ذہین نسرین اور گائوں کی وہ نسرین شاید دو الگ الگ فلموں کے کردار ہیں جو ہوسٹل کے اس کمرے میں میرے سامنے بیٹھی یہ لڑکی نباہ رہی ہے۔

نسرین جب اپنے امی اور ابو کو 'میری ماں' اور 'میرا باپ' کہتی تو مجھے عجیب سا لگتا۔ 'میرے باپ کی زندگی میں مکان کے چار طرف ملا کر ہماری اڈھائی ایکڑ زمین تھی۔ تب میں بہت چھوٹی تھی مگر مجھے یاد ہے۔ میرے باپ کے پاس گتے کی ایک شطرنج تھی جسکے لکڑی کے مہرے مٹی کی ایک گڑوی میں رہتے تھے۔ ہر جمعے کے روز نماز کے بعد وہ اور اسکا ایک دوست جب پیپل کے نیچے بیٹھ کر کھیلتے تو ہمارے گائوں کے ماحول میں یہ ایک تماشے کی بات بن جاتی۔ اِدھر اُدھر کے کسان لڑکے گرد جمع ہوجاتے اور ہر مہرے کے پٍٹنے پر شور اٹھاتے۔ کھیل کے دوران پٹے ہوئے کالے اور سفید مہرے ہی میرے کھلونے تھے- باپ کے پاس چارپائی کے پائے سے لگی میں مٹی کی گڑوی میں ان کے گرنے کا انتظار کرتی۔ میرے اسی کھیل میں ایک سفید پیادہ کہیں گم ہو گیا تھا، بساط پر اس کی جگہ ایک پتھر رکھا جاتا۔ یہ میری آنکھ کے اوپر ماتھے پر چوٹ کا نشان دیکھ رہی ہو، یہ اس گمشدہ پیادے کی قیمت ہے جو میرے باپ نے مجھ سے وصول کی تھی۔ میرا باپ مجھے اور میری ماں کو منحوس سمجھتا تھا کیونکہ میرے بعد آٹھ سال گزر گئے اور میری ماں کی کوئی اور اولاد نہیں ہوئی۔ باپ کو لڑکا چاہئے تھا۔ مگر دوسری شادی سے پہلے ہی وہ ایک روز مر گیا۔ پھر باپ کے مرنے کے بعد کیا ہوا مجھے اور میری ماں کو یاد نہیں۔ جب ہمیں ہوش آئی تو اس کچے کمرے کے باہر ہماری زمین اڈھائی ایکڑ سے سکڑ آدھے ایکڑ کا ایک کھیت رہ گئی تھی- میں بڑی ہو کر آٹھویں جماعت میں تھی۔ اور میری دبلی پتلی سکڑی سمٹی ماں، وہ ایک سیدھی کمر والی، مظبوط بدن کی اکھڑ اور باتونی خاتون میں بدل گئی تھی، جسے مجھے ہر قیمت پر آگے پڑھانے کا جنون تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، مگر میرے ذہن میں کلبلاتے ہوئے سوالیہ نشانوں نے مجھے فلسفے اور اکنامکس کی طرف دھکیل دیا'۔

'میری پیدائش اسی کمرے میں ہوئی تھی جہاں گائوں ہم رہتے ہیں۔ ہمارے گائوں میں ایک ہی دائی تھی، اب تو خاصی بوڑھی ہو گئی ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ ماں نے مجھے بڑے دردوں سے جنما تھا، بہت خون بہا تھا اور زخم بھی دیر سے ٹھیک ہوئے تھے۔ جب میں بڑی ہوئی تو پڑھا کہ میرے بعد ماں کے بانجھ ہو جانے کی وجہ شاید یہی زخم ہی تھے۔' اس رات ہم نے دیر تک زچگی کے وقت سہولتوں کی کمی اور خواتین کی مشکلوں پر باتیں کیں۔ نسرین کا وسیع مطالعہ اور آسان الفاظ ہماری اس گفتگو کو پر اثر اور بامعنی بناتے رہے۔ مگر نسرین کا یہ غیر روائیتی اور غیر جانبدار سا منطقی انداز سب کا من بھاتا نہیں تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس نے فلسفے کے اصولوں کو محض پڑھا ہی نہیں، اپنایا بھی تھا۔ شاید اسی لئے وہ اعتقاد اور رسومات جیسے حساس معاملات تک ہر ایک چیز کے تجزیئے اور جواز کی تلاش کی قائل تھی۔ اور شاید اسی وجہ سے اس نے یونیورسٹی میں دوست بھی بنائے اور نادانستہ طور پر خاموش دشمن بھی۔

وسط دسمبر میں ہوسٹل کی وہ آخری شام میں کبھی نہیں بھلا سکوں گی۔ اگلے روز ہمارا فائینل ویوا ووچے تھا، اور لڑکیوں کے وہی چہرے جو یونیورسٹی میں اپنے پہلے روز اسی ٹک شاپ میں متعارف ہوئے تھے، اب ڈنر کے بعد جدائی کی اداسی چائے میں گھول کر پی تھے۔
'چائے۔۔۔۔ واہ یہ چائے اور آج ہم' نسرین اپنے مخصوص انداز میں بولی۔
پہلی بار میں نے اس کی آواز میں ایک شوخ سی خوشی کی آمیزش بھی دیکھی۔ ایسی خوشی جو ایک طویل سفر کی تھکن کے باوجود نڈھال مسافروں میں منزل کو سامنے دیکھ کر جاگتی ہے۔ 'ڈرا سوچو، ہماری زمین نے چائے کے پودوں کو ہم جیسے انسانوں کے ساتھ ہی تشکیل دے کر کتنا بڑا احسان کیا۔ چار لاکھ سال پہلے یہ پودے آسام اور چین میں نمودار ہوئے تو ہمارے اجداد مراکو اور ایتھوپیا میں۔ اس وقت ہم انسانوں جیسی چھ اور اقسام بھی موجود تھیں۔ مگر صرف ہم بچ گئے اور چین پہنچ کر چائے سے آن ملے۔ اب یہ محض اتفاق تھا یا ہم واقعی اس قابل تھے۔ کون جانے؟؛ مگر ہم سب کو ٹک شاپ میں چائے پر یہ آخری میٹنگ مبارک'۔
جواباً مبارک کی آوازوں اور تالیوں میں کسی نے ایک سوال بھی اٹھایا، 'تو کیا حضرت آدم اور حوا جنت میں پیدا نہیں کئے گئے تھے؟!'۔ میں نے دیکھا کہ یہ وہی لڑکی تھی جس نے ہماری ملاقات کے پہلے روز بجلی جانے کے بعد نسرین کی بات پر طنز کیا تھا۔ اور نسرین ۔۔۔ وہ آج بھی اسی پہلے روز کی طرح اپنی لہر میں بولتی ہی گئی۔
'ہاں نا! ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ کیا ہم مٹی سے بنائے گئے پتلے ہیں جن میں زندگی کی روح پھونکی گئی؟ مشرقِ وسطی کے علاقوں میں انسان کا مٹی سے بنائے جانے کا تصور کمصاز کم تین ہزار سال پہلے سے چلا آ رہا ہے، اور کچھ رد و بدل کے ساتھ یونان کے لوگوں کا بھی یہی خیال تھا۔ اور امکان یہی ہے کہ دونوں نے اسے پانچ ہزار سال قدیمی بابل، دجلہ اور فرات کی تہذیبوں سے وراثت میں لیا۔ مگر ایران اور انڈیا کے قدیمی آریہ لوگ مختلف سوچتے تھے۔ وہاں مٹی کے پتلے نہیں تھے۔ وہ ۔۔۔۔۔۔'۔
'تو سچ کیا ہے؟' وہ لڑکی نسرین کی بات کاٹ کر بولی ۔ 'اچھا تو سچ بتائو کہ تم لڑکا ہو یا لڑکی؟'۔
میں سن رہی تھی، دیکھ رہی تھی، مگر کچھ بول نہ سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماحول کی اس غیر متوقع کروٹ پر ہم سبھی لڑکیاں گویا سُن سی ہو گئی تھیں۔
'میں ۔۔۔۔ میں' نسرین نے نگاہ جھکا کر اپنے جسم کو دیکھا، پھر اپنی مضبوط ہتھیلیاں کھول کر ان پر پڑی ہوئی گرہوں کو، 'میں نہیں جانتی ۔ شاید بچپن ہی سے کھیت میں ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ میرے باپ کو لڑکے کی ضرورت تھی نا ۔۔۔۔۔ دیکھو، دیکھو ۔۔۔۔ صحیح سے تو معلوم نہیں مگر دنیا میں شاید ایک سو میں سے ایک یا دو ۔۔۔۔'
'اگر معلوم نہیں تو ٹیبل ٹینس گیمز میں لڑکی بن کر کیوں کھیلی تھیں؟' اسی لڑکی نے پھر پوچھا۔
پیالیوں میں گرم چائے ختم ہو گئی تھی۔ ہم سب کچھ سرد سی اداسی لئے اپنے کمروں میں لوٹ گئیں۔

اور اس رات بجلی ایک بار پھر چلی گئی۔
'آئوں' میں نے پوچھا۔
'ہوں' اس نے جواب دیا۔
اس سے پہلے بھی کبھی کبھار ہم دونوں ساتھ سوئے تھے۔ مگر آج پہلی بار میں نے نسرین کے خاموش آنسو بہتے دیکھے۔
'سچ کیا ہے اور کہاں ہے؟ شاید کوئی نہیں جانتا۔ شاید یہیں کہیں ہی ہو، ہمارے آس پاس۔ اور ہم ۔۔۔۔۔ ہم روائیتوں کے اسیر خوف زدہ انسان خود اسے پہچاننے سے انکار کردیتے ہوں۔ اور میں ۔۔۔۔ میں اتنا پڑھتی رہی پر کیا ملا مجھ کو؟ صرف توجیہہ ۔۔۔۔ جواز ۔۔۔ اور کچھ سوالیہ نشان۔ بس'
میرے پاس اس کے سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ خاموش سوچتی رہی کہ پچھلے دو سالوں میں نسرین نے ہمیشہ سچ ہی کہا اور اب بھی سچ ہی کہہ رہی ہے۔ اور ایسے میں اس کی گالوں سے آنسو پونچھتے ہوئے میرے اپنے ہی آنسو چھلک گئے۔ دیر تک روتی رہی۔ اس کے پائوں کی انگلیاں میرے تلوے سہلا رہی تھیں جب معلوم نہیں کب میں سو گئی۔ تکئے کے دوسری جانب ہمارے بکھرے ہوئے بال ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو کئے تھے۔

صبح ہوسٹل کا کمرہ خالی کرنے کے بعد سامان کامن روم میں رکھ کر ہم نے میس سے ناشتے کے ٹرے اٹھائے اور برآمدے کی دھوپ میں آ کر بیٹھ گئے۔ میرا زبانی امتحان گیارہ بجے تھا اور نسرین کا لنچ کے قریب۔
' تو اس کے بعد'، میں نے پوچھا۔
'سوچ رہی ہوں کہ کوئی جاب ڈھونڈ کر ماں کو اپنے پاس یہاں شہر لے آئوں۔ ایم فل پارٹ ٹائم کر لوں گی۔ ابھی ویوا کے بعد ایک سکول کے پرنسپل سے ملنے جانا ہے۔ شہر کی لائبریری میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہاں ہماری لاجک کی پروفیسر کو جانتے ہیں۔ اور تم؟'
'تمہیں تو معلوم ہے کہ ابو کی جاب محکمہ انہار میں ہے۔ کبھی ایک ڈیم پر، کبھی کسی اور۔ کئی بار انہوں نے بڑے شہر میں تبدیلی کی درخواست دی ہے۔ مگر مقابلہ بڑا سخت ہے، اور سفارش'۔
'ہاں ۔۔۔۔۔ سفارش'۔
'ملتے رہیں گے'۔
'ہاں ۔۔۔ ملتے رہیں گے'۔
'زندگی بھر'۔
'ہاں ۔۔۔۔ زندگی بھر'۔
اپنی ان باتوں میں مگن ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا ہی نہیں کہ سادہ پتلون قمیض میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر قدآور اجنبی شخص ہماری میز کے بالکل پاس آکر نسرین کو دیکھ رہا ہے۔
'نسرین فاطمہ چوہدری؟' اس شخص نے نسرین کا پورا نام لے کر پوچھا۔
'جی ۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔کیوں'
'آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا'
'کہاں، کیوں، ۔۔۔۔۔ جی وہ میرا آخری امتحان ہے' نسرین بولی۔
اتنی سی دیر میں اسی ڈیل ڈول کا ایک اور شخص بھی اس سے آکر مل گیا۔ اور باڑ کے پیچھے رکی ہوئی جیپ میں مَیں نے ایک تیسرے شخص کو بھی دیکھا۔
'یہ ہم بعد میں بتائیں گے۔ اب چلو' وہ دوسرا شخص بولا۔
ہمیشہ کی طرح اس روز بھی نسرین کی آواز بلند نہیں ہوئی۔ میں سوچتی ہوں کہ منطق اور فلسفے کی بردباری نے شاید اس کی چیخنے چلانے کی حس کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ جاتے جاتے اس نے اس نے مجھے صرف اتنا کہا،
'میری ماں کو بتا دینا۔ آج شام کو آستانے پر انتظار کر رہی ہوگی'۔
مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔ بھاگتی ہانپتی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کے دفتر کی طرف گئی۔
'لے گئے۔ وہ اٹھا کر لے گئے'
'کسے؟'
'نسرین کو ۔ وہ تین آدمی تھے، اسے جیپ میں اٹھا کر لے گئے'
'کون تھے؟ کیوں لے گئے؟'
میرے ارد گرد کھڑے سٹاف کے اس سوال کا جواب تو خود نسرین کے پاس بھی نہیں تھا۔ میں کیا بتاتی؟
'تمہارا ویوا ہونے والا ہے۔ تیاری کرو۔ ہم پتہ کرتے ہیں'۔ کسی نے مجھے پانی کا ایک گلاس لا ک دہا۔
میرا ویوا ہو گیا۔ نسرین کے ویوے کا وقت بھی گزر گیا مگر کسی نے کچھ پتہ نہیں کیا۔ شاید کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ کیا پتہ کرنا ہے اور کس سے۔ شاید گائوں کی ایک غریب لڑکی کے لئے کسی کے پاس بھی وقت نہیں تھا۔ یا شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں۔ میں یہ بھی سوچتی رہی کہ شاید اٹھانے والے اسے غریب اور کم اثر سمجھ کر خود ہی چھوڑ دیں۔ جب میرا بھائی مجھے لینے کے پہنچا تو میں اسی ادھیڑ بن میں تھی۔ اس کا بھی یہی اصرار تھا کہ جلدی یہاں سے نکل چلو یونیورسٹی والے خود پتہ کریں گے۔ مگر میں نے آخری بس کے وقت تک انتظار کیا۔ جب کامن روم سے سامان لینے گئی تو صرف ایک سوٹ کیس پیچھے رہ گیا تھا۔ نسرین کا سوٹ کیس۔

میری سخت ضد کے باوجود بھی میرے ابو امی نے مجھے نسرین کے گائوں جانے کی اجازت نہیں دی تھی مگر اب تو ان باتوں کو کتنا ہی وقت بیت گیا ہے۔ ان پچیس سالوں میں اپنی زندگی کی شطرنج میں نے ایک کھوئے ہوئے مہرے کی جگہ پتھر رکھ کر کھیلی ہے۔ شادی دوسرے ملک میں ہوئی اور علیہدگی بھی۔ بس ایک بیٹی ہے میرے پاس۔ اس نے کچھ ماہ پہلے فلسفے میں پی۔ایچ۔ڈی مکمل کی ہے۔
آج یونیورسٹی کی تقسیمِ اسناد کی تقریب میں اس کا نام بھی پکارا جائے گا
۔۔۔۔ نسرین فاطمہ ...
اب کی بار میں نے نسرین کو ایک ایسی دنیا میں بڑا کیا ہے جہاں بجلی کبھی نہیں جاتی۔

ریاض اکبر
1: विश्वविद्यालय

'ओह, बिजली चली गई' — यह हम सबने कहा था।
'चली गई… या किसी ने रोक ली?' — यह नसरीन ने कहा था।
वह यूनिवर्सिटी में हमारा पहला दिन था — या यूँ कह लें कि पहली शाम।
इधर-उधर कई क़स्बों और छोटे शहरों से हम यहाँ आए थे।
हॉस्टल के कमरे अभी अलॉट नहीं हुए थे, और हम आठ-दस लड़कियाँ सामान कॉमन रूम में छोड़कर टक-शॉप में चली आई थीं।
'साथियो चलो! हमारी बिजली रोक दी गई है!'
किसी ने नसरीन की उस अनोखी-सी बात को ऐसे अंदाज़ में दोहराया जिसमें कुछ तंज़ भी शामिल था। मेरी उम्मीद के ख़िलाफ़, नसरीन खिलखिला कर हँस पड़ी थी।
'हाँ, बेचारें लाचार इलेक्ट्रॉन — जिन्हें एक इशारे पर ताँबे की तारों में इधर-उधर दौड़ाया जाता है।
थोड़े-से ही तो हैं… कहाँ-कहाँ भेजे जाएँ और किस-किस की माँग पूरी करें? इसीलिए तो हमारे बल्ब यूँ रोशनी देते हैं जैसे किसी ने तेल के दीये जला रखे हों।'
नसरीन की यह बात मुझे इसलिए और अच्छी लगी कि घरवालों के ज़ोर देने पर मैंने पिछले सालों में कुछ साइंस भी पढ़ी थी। दूसरी तरफ़ नसरीन की सारी पढ़ाई इकोनॉमिक्स और फ़लसफ़े में थी।
अब हम दोनों ने एम.ए. में फ़लसफ़ा चुना था — और दोनों ही के सपने थे कि आगे चलकर पीएच.डी करें। शायद इसी लिये भी टक शॉप से लौटते हुए वह मेरी रूम-मेट बनने पर तैयार हो गई थी। बहुत-से दिनों तक हम बिजली की लोडशेडिंग पर बातें करते रहे। वह गाँव से आई थी, और बी.ए. भी प्राइवेट पढ़ा था। मज़बूत बदन की बहुत सादी-सी इंसान थी वह, जिसे बनाओ-सिंगार, नेल पॉलिश और मेकअप वगैरह से दूर का भी कोई वास्ता नहीं थाहाँ, सर्दियाँ हों या गर्मियाँ — वह रोज़ नहा कर, जुराबों से दुपट्टे तक धुले हुए कपड़े ज़रूर बदलती।

उसकी अलमारी में जब मैंने पहली बार कपड़े देखे, तो थोड़ा अजीब लगा — सभी के सभी सफ़ेद रंग के ढीले कुर्ते और सीधे सिले पायजामे। हाँ, रंग-बिरंगे दुपट्टे ज़रूर थे — जिन्हें वह रोज़ बदल-बदल कर पहनती। सर्दियों में उसका स्वेटर कुर्ते के नीचे होता। लंडे से लिये हुए दो सीधे-से कोट भी थे — और एक बादामी रंग की टोपी। सर्दी-गर्मी वह हमेशा काले बंद जूते पहनती। एक समय में जूतों का केवल एक ही जोड़ा — जिसे हर छह–आठ महीने में बदल लेती। कमरे में वह हमेशा नंगे पाँव रहती थी।
और उसके रात के कपड़े… वह मैं आपको नहीं बताऊँगी। सोने से पहले वह गर्दन के नीचे से अपने बाल उठाकर तकिए पर फैला देती — और उसकी यह आदत मैंने भी अपना ली थी। हर बुधवार की रात वह अपने हाथ-पाँव के नाखून काटती। अगर उसके जीवन में कोई ‘फ़ैशन’ था, तो बस एक हल्की-सी क्रीम — जिसे वह सुबह नहाने के बाद और रात को सोने से पहले हाथों-पैरों पर लगा लेती। जहाँ तक मैं जान सकी — पूरे दो साल उसने एक ही तरह का साबुन इस्तेमाल किया। मैं सोचती हूँ कि हर व्यक्ति का एक अपना ढंग होता है — और हमारे हॉस्टल में नसरीन का यह ढंग उसकी पहचान बन गया था।
एक बार उसने अपने दुपट्टे बिस्तर पर फैलाकर मुझे दिखाए थे।
‘बैंगनी, आसमानी, नीला, हरा, पीला, नारंगी, लाल — इंद्रधनुष के सात रंग!’
उसने कहा था।
‘इनमें से एक भी कम हो जाए, तो धूप की उजली चमक अधूरी लगेगी। यही याद रखने के लिये इन्हें पहनती हूँ।’

इन दुपट्टों की तरह उसके दिखने में सादे-से बर्ताव के भीतर भी एक रंगीन विविधता छिपी थी।

क्लास में लेक्चर के दौरान नसरीन ज़्यादा सवाल नहीं पूछती थी। बस सुनती रहती — और कॉपी पर बिंदुवार नोट लिखती जाती।

उसका अपना एक तरीका था — हर नए लेक्चर पर तारीख, दिन, अध्यापक का नाम। हर विषय से पहले एक लकीर — और तीन–चार लाइनें खाली। वह बेहद होनहार छात्रा थी — और मैं भी कम नहीं।
हम दोनों के बीच एक सुखद-सा, निर्दोष-सा गुप्त मुकाबला चलता — जिसमें कभी जलन नहीं, कभी ईर्ष्या नहीं थे।

मैंने उसे बिस्तर में दुबककर पढ़ते नहीं देखा। कभी-कभी वह पलंग से अपना तकिया उठाकर कुर्सी पर रख लेती। मेज़ पर टेबल लैंप, करीने से रखी किताबें, कॉपियाँ, पेन-पेंसिल…और दराज़ में एक मोमबत्ती और माचिस — बस यही उसका ख़ज़ाना था। किताबें पढ़ने का जुनून था उसे। यूनिवर्सिटी की लाइब्रेरी के अलावा शहर की बड़ी लाइब्रेरी से भी किताबें लाती, पढ़ती और लौटा देती। कमरे में हमारे डेस्क अलग दिशाओं में थे। जब मुझसे बातें करती, तो कुर्सी घुमाकर बैठती — पैर दोनों तरफ़ फैला कर। हम बहुत बातें करते — सच कहूँ, तो बहुत खुलकर। कॉमन रूम में वह शायद ही कभी कोई टी.वी. ड्रामा देखती। हाँ, टेबल टेनिस खेलती थी — और बहुत अच्छा खेलती थी। यह खेल उसने स्कूल के ज़माने में सीखा था। हम सब लेक्चर के दौरान टीचरों के लिये ‘मैडम’ या ‘सर’ कहते — पर नसरीन उन्हें नाम से बुलाती — बस पहले ‘डॉक्टर’ या ‘प्रोफ़ेसर’ लगा देती। उसके व्यवहार का एक और अलग रूप था — लड़के और लड़कियाँ — दोनों से एक-सा, सहज, साफ़ संवाद। वह बेझिझक हाथ मिलाती, साथ चलती। उसके अंदाज़ में न कहीं झिझक, न बनावट। एक रात मैंने उससे पूछा था कि वह इतने सहज तरीके से सबसे कैसे मिल लेती है। उसने मुस्कराकर कहा था,
‘पता नहीं कैसे, लेकिन मुझे कुछ फ़र्क महसूस ही नहीं होता। शायद बचपन से खेतों में काम करते-करते ऐसा हो गया होगा।’

2: गाँव और घर

गाँव में नसरीन और उसकी माँ का एक कच्चा कमरा था — और उसके साथ आधा एकड़ खेत।
यूनिवर्सिटी में शनिवार-रविवार की छुट्टी होती, और नसरीन लगभग हर दूसरे शुक्रवार को लेक्चर के बाद बस में बैठकर गाँव चली जाती — और सोमवार सुबह लौटती।
'पक्की सड़क से घर पहुँचने के लिए मुझे कोई छह किलोमीटर पैदल चलना होता है। वहाँ आधे रास्ते में एक आस्ताना है जहाँ पानी का नल भी है। मेरी माँ अक्सर वहीं आकर मेरा इंतज़ार करती है। कभी-कभी जब वह गुड़-घी भरी रोटी लाती है तो हम दोनों उस पेड़ के नीचे बैठकर खाते हैं —
और बातें करते हुए घर पहुँचते-पहुँचते शाम हो जाती है। शनिवार-रविवार हम दोनों खेत में काम करते हैं। इस बार गोभी उतारी थी।’
उस दिन उसकी बड़ी, मज़बूत हथेलियों पर पड़े छाले साफ़ दिख रहे थे — फिर भी जाने क्यों मेरे मन में यह बात उठी कि… यूनिवर्सिटी की यह बुद्धिमान नसरीन और गाँव की वह खेत-मज़दूर नसरीन —
दो अलग-अलग फ़िल्मों की दो किरदार हों —और हॉस्टल का यह कमरा वह मंच हो जहाँ वह दोनों भूमिकाएँ निभाती है।

नसरीन जब अपनी माँ और पिता को ‘मेरी माँ’ और ‘मेरा बाप’ कहती,
तो मुझे अजीब-सा लगता।
‘मेरे बाप की ज़िंदगी में हमारे पास ढाई एकड़ ज़मीन थी। तब मैं बहुत छोटी थी, मगर याद है। मेरे बाप के पास गत्ते की एक शतरंज थी। लक्कड़ी के मोहरे एक मटके में रखे जाते। हर शुक्रवार नमाज़ के बाद वह और उसका एक दोस्त पीपल के नीचे बैठकर खेलते, और यह हमारे गाँव का तमाशा बन जाता।
चारों तरफ़ लड़के इकट्ठा — और हर मोहरा पिटने पर शोर। पिटे हुए सफ़ेद-काले मोहरे ही मेरे खिलौने होते। मैं चारपाई के पायों के पास बैठकर उनके गिरने का इंतज़ार करती। एक सफ़ेद प्यादा उसी खेल में कहीं खो गया था — बस उसके स्थान पर एक पत्थर रखा जाता। यह देख रही हो मेरी आँख के ऊपर माथे का निशान? यह उस खोए हुए प्यादे की कीमत है — जो मेरे बाप ने मुझसे वसूल की थी।

मेरे बाप को मैं और मेरी माँ अशुभ लगते थे — क्योंकि मेरे बाद आठ साल तक माँ को कोई और संतान नहीं हुई। उसे लड़का चाहिए था। मगर दूसरी शादी से पहले ही वह एक दिन मर गया।
फिर पिता के मरने के बाद क्या हुआ, यह मुझे और मेरी माँ को याद नहीं।
जब हमें होश आया तो उस कच्चे कमरे के बाहर हमारी ज़मीन ढाई एकड़ से सिमटकर आधे एकड़ का एक खेत रह गई थी — तब मैं बड़ी होकर आठवीं कक्षा में पढ़ रही थी।
माँ भी बदल गई थी — दुबली-पतली, घबराई-सी माँ एक सीधी कमर वाली, मज़बूत, अक्खड़, बातूनी औरत में बदल गई — जिसे नसरीन को हर हाल में आगे पढ़ाना था।
वह चाहती थी कि मैं डॉक्टर बनूँ। मगर मेरे भीतर उठते सवालों ने मुझे फ़लसफ़े की तरफ़ धकेल दिया।'

‘मेरी पैदाइश उसी कच्चे कमरे में हुई थी। गाँव में एक ही दाई थी। अब तो बहुत बूढ़ी। उसने बताया था कि माँ ने मुझे बहुत दर्दों से जना। बहुत ख़ून बहा और घाव देर से भरे। बड़ी हुई तो पढ़ा कि
मेरे बाद माँ के बाँझ हो जाने की वजह शायद वही घाव थे।’

उस रात हम देर तक गर्भावस्था की कठिनाइयों, सुविधाओं की कमी, और गाँव की औरतों के दुखों पर बात करते रहे। नसरीन का व्यापक अध्ययन और सादा शब्दों में गहरी बातें — हमारी चर्चा को अर्थपूर्ण बनाती रहीं। लेकिन उसका यह निष्पक्ष, तर्कपूर्ण अंदाज़ हर किसी को रास नहीं आता था। मैं जानती थी — उसने फ़लसफ़े को सिर्फ़ पढ़ा नहीं था, जिया भी था। संभवतः इसी कारण उसने दोस्त भी बनाए
और अनजाने में कुछ मौन दुश्मन भी।

3: अंतिम शाम

मध्य दिसम्बर की वह हॉस्टल वाली आख़िरी शाम मैं कभी नहीं भूल पाऊँगी।
अगले दिन हमारा फ़ाइनल विवा था — और वही चेहरे, जो यूनिवर्सिटी के पहले दिन टक-शॉप में एक-दूसरे के साथ घुलते मिले थे, आज विदाई की हल्की उदासी चाय में घोलकर पी रहे थे।

‘चाय… वाह, यह चाय — और आज हम,’
नसरीन ने अपने उसी खास अंदाज़ में कहा। पहली बार मैंने उसकी आवाज़ में एक शरारती, चमकीली-सी ख़ुशी भी सुनी — वैसी ख़ुशी, जो लंबी यात्रा की थकान में भी मंज़िल को सामने देखकर जाग उठती है।
'ज़रा सोचो, हमारी धरती ने चाय के पौधों को हम इंसानों के साथ जन्म देकर हम पर कितना बड़ा उपकार किया। चार लाख साल पहले जब ये पौधे असम और चीन में प्रकट हुए, तब हमारे पूर्वज मोरक्को और इथियोपिया में थे। उस समय हमारे जैसे मनुष्यों की और भी छह प्रजातियाँ मौजूद थीं। मगर सिर्फ़ हम बचे — और फिर चीन जाकर चाय से मिले। यह संयोग था या हम क़ाबिल थे — कौन जाने? लेकिन चाय पर यह आख़िरी मीटिंग — हम सबको मुबारक!’

तालियों और हँसी में किसी ने अचानक पूछा —
‘तो क्या हज़रत आदम और हव्वा जन्नत में नहीं पैदा किए गए थे?!’
मैंने देखा — यह वही लड़की थी जिसने पहले दिन बिजली जाने पर नसरीन की बात पर तंज किया था।

और नसरीन…वह फिर उसी पहले दिन की तरह अपनी लय में बोलती चली गई।
‘हाँ न — हम कौन हैं? कहाँ से आए? क्या हम मिट्टी के पुतले हैं जिनमें जान फूंकी गई?
मध्य पूर्व के क्षेत्रों में मनुष्य के मिट्टी से बनाए जाने की कल्पना कम से कम तीन हज़ार साल से चली आ रही है, और कुछ परिवर्तन के साथ यूनानियों का भी यही मानना था। सम्भावना यही है कि दोनों ने यह विचार पाँच हज़ार वर्ष पुरानी बाबिल, दजला और फ़ुरात की सभ्यताओं से विरासत में पाया।
लेकिन ईरान और भारत के आदिम आर्य लोग अलग सोचते थे…वहाँ मिट्टी के पुतले नहीं—’

‘तो सच क्या है?’
लड़की ने उसकी बात काट दी।
‘अच्छा, सच बताओ — तुम लड़का हो या लड़की?’

मैं सुन रही थी, देख रही थी — मगर बोल नहीं पाई। कमरे की हवा अचानक जैसे रुक गई। हम सब लड़कियाँ सुन्न-सी हो गईं।

नसरीन ने झुककर अपने मज़बूत शरीर को देखा, फिर अपनी हथेलियों की गाँठें —और धीमी आवाज़ में बोली,
‘मैं… मैं नहीं जानती। शायद बचपन से खेत में… मेरा बाप लड़का चाहता था न… देखो… सही से तो नहीं मालूम, पर दुनिया में शायद हर सौ में से एक-दो…’।
‘और अगर नहीं मालूम तो टेबल-टेनिस में लड़कियों की टीम में क्यों खेलती थीं?’ वही लड़की फिर बोली।
चाय के प्यालों में गर्मी ख़त्म हो गई थी। हम सब ठंडी-सी उदासी लिये अपने कमरों को लौट गईं।

उस रात फिर बिजली चली गई।
‘ आऊँ ?’
मैंने पूछा।
‘हूँ।’
उसने उत्तर दिया।
हम पहले भी कभी-कभी साथ सोती थीं — लेकिन आज पहली बार मैंने उसके मौन आँसू बहते देखे।
‘सच क्या है… और कहाँ है?
शायद कोई नहीं जानता। शायद यह यहीं कहीं हो — हमारे आस-पास। और हम… हम रिवायतों के डरे हुए क़ैदी उसे पहचानने से इनकार कर देते हैं।
और मैं…
मैंने इतना पढ़ा — पर मुझे मिला क्या? बस वजहें… तर्क… और कुछ सवालिया निशान।’

मेरे पास उसके सवालों का कोई उत्तर नहीं था। मैं सिर्फ़ उसका चेहरा थामे सोचती रही — कि पिछले दो सालों में नसरीन ने हमेशा सच ही कहा — और आज भी सच ही कह रही थी। मैं उसके गालों से आँसू पोंछती रही — और मेरे अपने आँसू भी बह निकले।
कब नींद आ गई — पता ही नहीं चला। तकिए के दोनों ओर हमारे खुले बाल एक-दूसरे में उलझे हुए थे।

4: सुबह — और एक अजनबी

सुबह हॉस्टल का कमरा खाली कर, हम सामान कॉमन रूम में रखकर, मेस से नाश्ते की ट्रे लेकर
बरामदे की धूप में बैठ गईं।
मेरा विवा 11 बजे — और नसरीन का दोपहर को।
‘तो उसके बाद?’ मैंने पूछा।
‘सोच रही हूँ कोई नौकरी ढूँढ लूँ — और माँ को शहर ले आऊँ। एम.फ़िल पार्ट-टाइम कर लूँगी। आज विवा के बाद एक स्कूल के प्रिंसिपल से मिलने जाना है।’
‘और आप?’ नसरीन ने पूछा।

‘तुम्हें पता है — अब्बू की नौकरी इरिगेशन में है। कभी एक बाँध पर, कभी किसी और जगह। बड़े शहर में तबादले की कोशिश करते रहते हैं — मगर वहाँ बहुत सिफ़ारिश चाहिए।’
‘हाँ… सिफ़ारिश…’
‘मिलते रहेंगे।’
‘हाँ… मिलते रहेंगे।’
‘ज़िंदगी भर।’
‘हाँ… ज़िंदगी भर।’

हम अपनी बातों में ऐसे खोए थे कि ध्यान ही न गया — कि सादा पैंट–कमीज़ पहने एक अधेड़, लंबा-सा अजनबी हमारी मेज़ के बिल्कुल पास खड़ा नसरीन को ध्यान से देख रहा है।
‘नसरीन फ़ातिमा चौधरी?’
उस आदमी ने पूरा नाम लेकर पूछा।
‘जी… मैं… क्यों?’
‘आपको हमारे साथ चलना होगा।’
‘कहाँ? क्यों? जी… मेरा अंतिम परीक्षा है।’ नसरीन बोली।
उसी कद का दूसरा आदमी भी वहीं आ गया। और मैंने देखा — बाड़ के पीछे खड़ी जीप में
तीसरा भी बैठा था।
‘यह सब बाद में बताएँगे। अभी चलिए।’ दूसरे ने कहा।
हमेशा की तरह नसरीन की आवाज़ उस दिन भी ऊँची नहीं हुई। मैं सोचती हूँ — तर्क और फ़लसफ़े की गहराई शायद उसके चिल्लाने की धार धीमी कर चुकी थी।
जाते-जाते उसने बस इतना कहा, ‘मेरी माँ को बता देना… आज शाम को आस्ताने पर मेरा इंतज़ार करेगी।’

मुझे कुछ होश न रहा। भागती–साँसें फुलाती मैं विभाग के दफ़्तर पहुँची।
‘ले गए… उसे उठा कर ले गए!’
‘किसे?’
‘नसरीन को। तीन आदमी थे … जीप में डालकर ले गए।’
‘कौन? क्यों?’
इस सवाल का जवाब तो खुद नसरीन के पास भी नहीं था। मैं क्या बताती?
‘तुम्हारा विवा होने वाला है। तैयार हो जाओ। हम पता करते हैं।’
किसी ने पानी दिया।
मेरा विवा हो गया। नसरीन का भी समय निकल गया — पर किसी ने कुछ नहीं किया। शायद किसी को पता ही नहीं था किससे पूछना है — और क्या पूछना है। शायद — गाँव की एक ग़रीब लड़की
किसी की प्राथमिकता ही नहीं होती। शायद — दोनों बातें सच हों। मैं यह भी सोचती रही कि शायद वे लोग उसे ग़रीब और बेअसर समझकर खुद ही छोड़ देंगे।

जब मेरा भाई मुझे लेने आया, मैं अब भी वही सोच रही थी। उसने कहा — ‘चलो, यहाँ से निकलते हैं।’ लेकिन मैंने आख़िरी बस तक इंतज़ार किया। कॉमन रूम में गई — तो सिर्फ़ एक सूटकेस पड़ा था।नसरीन का सूटकेस।

मेरी ज़ोरदार जिद के बावजूद माँ–बाप ने मुझे नसरीन के गाँव जाने नहीं दिया।
मगर अब तो उन बातों को कितना ही वक़्त बीत गया है। इन पच्चीस सालों में अपनी ज़िंदगी की शतरंज मैंने एक खोए हुए मोहरे की जगह पत्थर रखकर खेली है। शादी दूसरे मुल्क में हुई — और अलगाव भी।
मेरी एक बेटी है — उसने कुछ महीने पहले फ़लसफ़े में पीएच.डी की है। आज यूनिवर्सिटी की डिग्री-डिस्ट्रिब्यूशन सेरेमनी में उसका नाम पुकारा जाएगा—
नसरीन फ़ातिमा।

इस बार मैंने नसरीन को एक ऐसी दुनिया में बड़ा किया है जहाँ बिजली कभी नहीं जाती।

रियाज़ अकबर
1: The University

“Oh, the power’s gone,” all of us said at once.
“Gone… or stopped?” Nasreen asked.
It was our first day at the university— or perhaps it is more accurate to call it our first evening. We had arrived from different towns and small districts;
our hostel rooms were still not allotted, and eight or ten of us girls had left our luggage in the common room and come to the tuck shop.
“Come, comrades! Our electricity has been stopped!”
Someone repeated Nasreen’s odd remark in a tone that carried amusement—and a hint of mockery. To my surprise, Nasreen laughed out loud.
“Yes, these poor helpless electrons,” she said, “that are driven back and forth on copper wires at a single signal. There are only so many—how many places can they reach, how many demands can they satisfy? That’s why our bulbs shine like someone has lit little oil lamps inside them.”
I liked the comment instantly— partly because my family had pressured me to study extra science during college, and partly because Nasreen’s earlier education
had been entirely in economics and philosophy. Now both of us had chosen philosophy for our master’s degree, and both of us dreamed of a PhD. Perhaps that is why, on the way back from the tuck shop, she agreed to become my roommate.
In the days that followed, we discussed “load-shedding” more often than I can recall.

The two years I spent with Nasreen at the university were among the finest of my life. She had come from a village and completed her BA privately. A strong, simple person — with no connection whatsoever to makeup, nail polish, or adornment. Yet whether winter or summer, she bathed daily and changed into freshly washed clothes from socks to dupatta. When I first saw her wardrobe, I found it strange:
every single kurta was white, loose, and plain, and so were her straight pajama trousers. But she owned several dupattas— vivid, colourful ones— which she wore in rotation as though they were her personal rainbow. In winter she wore her sweater under her kurta, and she had two simple overcoats from the thrift market
and a light brown woollen cap. Summer or winter, she always wore the same kind of closed black shoes— one pair at a time, replaced every six or eight months.
Inside the room she walked barefoot. Her nightclothes… well, that I shall not reveal.
Before sleeping, she would lift her hair from the nape of her neck
and spread it across the pillow — and before long, I found myself picking up the same habit. Every Wednesday night she clipped her fingernails and toenails. If she had any sort of cosmetic ritual, it was a mild lotion— applied to her hands and feet
after her morning bath and before going to bed. As far as I could tell, she used the same kind of soap for all of the two years I knew her. I suppose every person evolves a rhythm— and in our hostel, Nasreen’s rhythm became her signature.

Once she spread her dupattas across the bed and showed them to me.
“Violet, indigo, blue, green, yellow, orange, red — the seven colours of the rainbow,” she said. “Take even one away, and the sunlight loses its clarity. I wear them to remind myself of that.”
Like those dupattas, a quiet spectrum of colours lay hidden within her apparently simple personality.

In class, Nasreen rarely asked questions. She listened, and noted down short, precise points in her notebook. Each lecture had a date, a day, and the teacher’s name. Before every new topic she drew a line and left three or four blank lines. She was an excellent student and I was not too far behind. So. between us ran a pleasant, unspoken rivalry that never grew into envy.

I never saw her study lying in bed. Sometimes she picked up her pillow and set it on the chair. The lamp, the neatly arranged books and notebooks, the pen and pencils,
and in the drawer a candle and a matchbox — that was her entire treasure. She was obsessed with reading. Beyond the university library, she borrowed books from the big city library as well. Our desks were in different corners of the room. When speaking to me, she never turned her chair, instead she sat with her legs outstretched. We talked about everything — openly, fearlessly.

In the common room, she almost never watched TV dramas. But she played table tennis exceptionally well — a skill from her school days. All of us addressed lecturers as “Madam” or “Sir,” but Nasreen called them by name — simply adding “Doctor” or “Professor”. Another defining feature of hers was her identical manner with boys and girls. She shook hands easily, walked with either, and spoke with a natural confidence free from awkwardness or pretense. Once I asked her
how she managed to talk so freely with everyone.
“I don’t know,” she said, “but I don’t feel any difference. Maybe because I worked outdoors, in the fields, since childhood.”

2: The Village

Nasreen and her mother lived in a mud-walled room in their village — with half an acre of land beside it. Every second Friday, after her lectures, Nasreen boarded a bus for the village. Saturday and Sunday she worked in the fields with her mother,
returning to the university on Monday morning. “To reach home from the main road,” she said, “I walk about six kilometres. Halfway there is a small shrine with a water tap. My mother often waits for me there. Sometimes she brings a roti filled with jaggery and ghee. We sit under the tree, eat, and talk as we walk home—it’s evening by the time we reach.”
That day, despite the blisters on her large, strong hands, I could not shake the uneasy feeling that the brilliant Nasreen of the university and the Nasreen of the village field were two different characters in two different films— and this girl sitting in front of me in the hostel room was performing both roles.

She referred to her parents as “my mother” and “my father”— and something about that struck me as oddly formal compared to Mum and Dad.
“My father owned two and a half acres of land,” she said. "I was very young, but I remember. He had a cardboard chessboard. The wooden pieces were kept in an earthen pot. Every Friday after the prayers, he and a friend played under the peepal tree. It was a small spectacle for the village boys, as they gathered around, shouting with every piece that got taken."
"Those captured black-and-white pieces were my toys. I sat by the charpai
waiting for each one to fall into the pot. Once, a white pawn got lost during my play— after that, a stone replaced it on the board. See this mark on my forehead, above my eye? That is the price of that lost pawn— taken from me by my father.”
Her father considered Nasreen and her mother unlucky, because eight years after Nasreen’s birth her mother did not conceive again.
" He wanted a son. But he died before taking a second wife."

“What happened after his death?" I asked.
" I don’t remember,” she said. “When we became aware again, our land had shrunk
from two and a half acres to a half-acre strip. My mother had changed too — the thin, shrinking woman had become upright, strong, outspoken— determined to educate her Nasreen at any cost."
“She wanted me to become a doctor,” Nasreen said. “But the swarm of questions in my mind pushed me toward philosophy.”

“I was born in that very mud-walled room. There was only one midwife in our village— she’s very old now. She told me that my mother went through great pain, lost a lot of blood, and her wounds healed very slowly. When I grew up, I read that those wounds may have been the reason she couldn’t conceive again.”

That night we talked about childbirth without medical help, about the suffering of rural women. Nasreen’s vast reading, and her simple, clear language gave weight to her thoughts. But her rational, analytical tone had not pleased everyone in the University. She had not merely studied philosophy— she had become it. And because of that, she made friends — and also a few quiet enemies.

3: The Last Evening

I will never forget our last evening in the hostel, mid-December The next morning was our final viva, and the same faces that had met in the tuck shop
on the first day — now sipped tea flavoured with the sadness of parting.

“Tea… Ah, this tea—and us today!” Nasreen said in her typical tone. For the first time I noticed a glimmer of joy in her voice— the kind of joy that awakens in weary travellers when the destination finally appears.
“Think about it,” she said. “Our earth did us a great favour— it created tea plants and humans at the same time. Four hundred thousand years ago tea plants grew in Assam and China, while our ancestors lived in Morocco and Ethiopia. There were six other human species then— but only we survived and eventually reached China—
and met tea. Was it coincidence? Or were we fit for it? Who knows?
But this .... our last tea in the tuck shop— congratulations!”

Amid laughter and applause, a voice rose: “Then were Adam and Eve not created in Paradise?!”
I saw — it was the same girl who had mocked Nasreen two years earlier
on our very first day. And Nasreen— she continued speaking in her own flow.
“Of course that’s the question. Who are we, and where do we come from? Are we clay figures given life?
In the Middle East this idea goes back at least three thousand years. The Greeks also held a similar view. Both likely inherited it from the ancient civilizations
of Babylon, Tigris, and Euphrates five thousand years ago. But the ancient Aryans
of Iran and India believed something different—”

“What is the truth, then?” the girl snapped. “Tell the truth— are you a boy or a girl?”
I was listening. Watching. Frozen.
Nasreen lowered her gaze, looked at her own body, then at the knotted calluses
on her strong palms.
“I… I don’t know,” she whispered.
“Maybe… since childhood…working in the fields… My father wanted a son…
Look… I’m not sure…but maybe one or two in every hundred…”
“And if you didn’t know,” the girl said sharply, “then why did you play table tennis
in the girls’ team?”

The tea in our cups had turned cold. We dispersed silently to our rooms—
each carrying a cold heaviness in her chest.

That night, the power went out again.
“May I ..... come?” I asked.
“Hm.” She replied softly.
We had slept together on rare occasions — but never like this. Never with her tears flowing silently.
“What is the truth … and where is it?” she said quietly.
“Maybe no one knows. Maybe it is right here, around us—but we frightened humans, captives of tradition, refuse to recognise it.
And I… I kept reading, kept searching — and what did I find?
Only explanations… justifications… and a handful of question marks.”
I had no answers. I only wiped the tears running down her cheek and felt my own tears overflow. Sometime later I fell asleep. Our hair lay entangled across the pillow like two threads from the same torn cloth.

4: Morning — and the Man in Plain Clothes

After vacating the hostel room, we placed our suitcases in the common room
and took breakfast trays into the sunlit corridor. My viva was at eleven; hers just before lunch.
“And after that?” I asked.
“I think I’ll find a job,” she said. “Bring my mother here to the city. I’ll do an MPhil part-time. Today, after the viva, I’m meeting a school principal— I met him in the city library. He knows our logic professor.”
“And you?”
“You know my father works in irrigation — one dam today, another tomorrow.
He keeps requesting a posting to the big city, but competition is tough — and one needs recommendations…”
“Yes… recommendations.”
“We’ll stay in touch.”
“Yes… we’ll stay in touch.”
“For life.”
“For life.”
We were lost in our conversation when a tall, middle-aged stranger in simple trousers and shirt walked up to our table and stared directly at Nasreen.
“Nasreen Fatima Chaudhry?” he said, pronouncing her full name.
“Yes… I… why?” she asked.
“You will have to come with us.”
“Where? Why? I… I have my last exam…”

Another man of similar build joined him. Behind the fence, a jeep was parked—
with a third man inside.
“We will explain later. Come now,” the second man said.
Even then, Nasreen’s voice did not rise. Philosophy had taught her to reason—
and perhaps it had also strangled her instinct to scream.
As she was led away, she said only this:
“Tell my mother… she will be waiting for me at the shrine this evening.”
I ran — breathless— to the department office.
“They took her! They lifted her and took her!”
“Who?”
“Nasreen. Three men. In a jeep.”
“Who were they? Why did they take her?”
But even Nasreen herself did not know that answer. What could I say?
“Your viva is about to begin,” someone told me. “Prepare yourself. We will find out.”
They handed me a glass of water.

My viva concluded. Nasreen’s time passed. No one made inquiries.
Perhaps no one even knew whom to ask or what to ask.
Perhaps, for a poor village girl. no one had time.
Perhaps both were true.
I kept hoping her captors would release her— thinking her too insignificant
to matter.
When my brother arrived to take me home, I was still hoping. He insisted we leave— but I waited until the last bus. When I went to retrieve my luggage from the common room, only one suitcase remained. Nasreen’s.

Despite my furious insistence, my parents did not allow me to go to her village—
despite my furious insistence.
And now ....
so much time has passed.
Twenty-five years.
In these twenty-five years I have played the chessboard of my own life
with a stone in place of a missing pawn.
I married in another country— and separated in another.
I have one daughter. A few months ago she completed her PhD in philosophy. Today, in the university’s convocation ceremony, her name will be announced:
Nasreen Fatima.
This time, I have raised a Nasreen in a world where the power never goes out.

Riaz Akber, Australia