Descending Evening
ڈھلتی شام
ढलती शाम
Riaz Akber
10 Dec 2025
ڈھلتی شام
'سنو! کبھی ڈھلتی شام ساحل پہ ریت سے گزر کے پانی تک گئے ہو؟۔'
'محسوس کیا ۔ ریت کی خنکی سے آگے سمندر کے پانی کی تمازت کو؟'
'اور آگے آئو نا۔ اس بے پناہ قرب کی گرمی سے سارا بدن بھگو لو'۔
'ہوں یوں'
'معلوم ہے تمہیں کہ ڈھلتی شام کا سمندر سرد کیوں نہیں پڑتا؟ پرانی کہانی ہے، سنائوں؟!'
'بہت بہت پہلے کی بات ہے، ابھی دن اور رات نہیں بنے تھے۔ اور ایسے میں وہ ڈھلتی شام آئی تھی۔ بالکل ایسی ہی جیسی آج ہے۔ جگ کی پہلی شام۔
سورج کافی دیر سے کچھ تھکا ہوا سا، اور اکتایا ہوا سا لگتا تھا۔ جیسے آجکل ریل گاڑی میں کولکتہ سے دلَی کے مسافر فیروزآباد کے پاس لگتے ہیں۔ اور پھر سب نے سورج کو کسی انجانے درد میں دھیرے دھیرے جھکتے دیکھا۔ بس پھر کیا تھا، چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں۔
" کیا غم لگا ہے اسکو؟"
"توبہ سرخ انگارہ ہو رہا ہے۔ "
"آگ لگ گئی ہے شاید۔"
"یوں لگتا ہے کہ جیسے کچھ گھڑی میں راکھ ہو جائے گا"
دوسری طرف اِدھر کے سب ٹھٹھرنے بھی لگے تھے۔ زمین، سمندر، پیڑ، پنچھی پہلی بار سرد ہو رہے تھے۔ مگر سورج کی باتیں کرنے والے یہ سبھی سوچ صرف اپنے ہی بارے میں رہے تھے۔
"یہ کیا ہو رہا ہے ہمیں؟"
"کیا بنے گا ہمارا؟"
کچھ معلوم ہے تمہیں، کہ ایسے میں ایک یہی سمندر تھا جس نے سورج کا بھی غم کیا۔
"کیا ہوا ہے تمہیں؟ یوں گِرنا کاہے دوست۔ کسی نے کچھ کہہ دیا کیا، اور تم یوں انگارہ؟ جل جائو گے۔ کچھ بولو ناں، کیا بات ہے دوست؟."
اس سے پہلے کبھی کسی نے سورج سے بات نہیں کی تھی۔ سب اسے دیکھتے تھے، اور جانتے تھے کہ وہ ہے، اور بس۔ یہ سمندر تھا کہ جس نے پہلی بار سورج کو دوست کہہ کر بلایا تھا۔ سمندر کا یہ تخاطب سورج کے لئے نئی بات تھی۔ اپنے جواب کو مجتمع کرتے کرتے سورج کچھ اور نڈھال ہوا۔ کچھ اور نیچے جھک گیا۔ اور بولا:
"ساگر! کسی نے کیا کہنا تھا؟ دکھ تو یہی ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں کہتا۔ سب جانتے ہیں کہ میں ہوں۔ پر سبھی مجھے بھلا کر اپنی اپنی میں مگن ہیں۔ تم بھی تو پل پل دھرتی کے گلے میں باہیں ڈالے رہتے ہو۔ مانجھی پنچھی تمہیں ملنے آتے جاتے ہیں۔ اور ادھر میں۔ جیسے دور کو اچھال کے سب بھول گئے مجھے۔ بس خوش رہو سب۔ میں تو چلا۔"
" اس وقت سورج پھوٹ پھوٹ کے رویا تھا۔ اس بات کو اگر سمجھنا ہو تو کبھی کسی کا اکیلا ہاتھ ہلکے سے اپنے ہاتھوں میں تھام کے اسکی آنکھوں میں دیکھنا۔ پگھل جائو گے تم خود۔ کہتے ہیں کہ سورج کے غم کا سن کر اسی طرح سمندر کو بھی سنبھلتے کچھ دیر لگی تھی۔ بولا۔
"سورج! تمہارا دکھ میں سمجھتا ہوں۔ مگر دور سے دیکھ کر شاید تم میرا نہیں سمجھ پائے۔ یہ مانجھی، پنچھی، دھرتی، یہ سب اپنی اپنی غرض کے یار ہیں۔ کبھی گرمی ستائے۔ کبھی پار جانا ہو۔ یا بھوک لگے اور مچھلی کھانی ہو تو آ جاتے ہیں۔ ورنہ کون پوچھتا ہے مجھے۔ اب اس دھرتی کو ہی لو۔ جب مجھ سے آن کر جڑ جاتی ہے، کتنی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اگر سچ میں مجھے یاد رکھے تو مجھ سے دور جا کے بھی اس ملن کی ٹھنڈک کو نہ بھلائے۔ مگر تم تو دیکھتے ہی ہو، کچھ ہی کوس دور گئی مجھ سے، اور یہ دھرتی پھر سے گرم ہوگئی۔ سچ مانو تو اپنے اندر، بہت اندر، میں بھی تنہا ہوں۔ بالکل تنہا۔ تم سے بھی زیادہ تنہا۔ آؤ سورج، میرے پاس آجاؤ۔ ہم تم دوست بن جائیں گے۔ آتے جاتے رہا کرو۔ شاید تم سے مل کر مجھے بھی سب کی سرد مہری کا غم بھولے۔ اور شاید تمہاری یہ جدائی کی آگ بھی کم ہو۔"
اور معلوم ہے پھرسورج نے سمندر کی بات مان لی۔ وہ دن لے لو اور آج کے دن تک، ہر ڈھلتی شام سورج اور سمندر ملتے ہیں۔ تب سمندر کی لہریں سورج کی دن بھر کی تھکن دھوتی ہیں۔ تب سورج کی کرنیں سمندر کو قرب کی گرمی دیتی ہیں۔ '
'محسوس کیا تھا نا تم نے۔
اوہ رات اترنے والی ہے۔ چلو ساحل پر جلیں۔'
رہت کے اس پار گھروں کی بتیاں دھیرے دھیرے روشن ہونے لگی تھیں۔
دور کہیں مہندر کپور گا رہا تھا
'نیلے گگن کے تلے۔۔۔ایسے ہی شام ڈھلے۔'
'سنو! کبھی ڈھلتی شام ساحل پہ ریت سے گزر کے پانی تک گئے ہو؟۔'
'محسوس کیا ۔ ریت کی خنکی سے آگے سمندر کے پانی کی تمازت کو؟'
'اور آگے آئو نا۔ اس بے پناہ قرب کی گرمی سے سارا بدن بھگو لو'۔
'ہوں یوں'
'معلوم ہے تمہیں کہ ڈھلتی شام کا سمندر سرد کیوں نہیں پڑتا؟ پرانی کہانی ہے، سنائوں؟!'
'بہت بہت پہلے کی بات ہے، ابھی دن اور رات نہیں بنے تھے۔ اور ایسے میں وہ ڈھلتی شام آئی تھی۔ بالکل ایسی ہی جیسی آج ہے۔ جگ کی پہلی شام۔
سورج کافی دیر سے کچھ تھکا ہوا سا، اور اکتایا ہوا سا لگتا تھا۔ جیسے آجکل ریل گاڑی میں کولکتہ سے دلَی کے مسافر فیروزآباد کے پاس لگتے ہیں۔ اور پھر سب نے سورج کو کسی انجانے درد میں دھیرے دھیرے جھکتے دیکھا۔ بس پھر کیا تھا، چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں۔
" کیا غم لگا ہے اسکو؟"
"توبہ سرخ انگارہ ہو رہا ہے۔ "
"آگ لگ گئی ہے شاید۔"
"یوں لگتا ہے کہ جیسے کچھ گھڑی میں راکھ ہو جائے گا"
دوسری طرف اِدھر کے سب ٹھٹھرنے بھی لگے تھے۔ زمین، سمندر، پیڑ، پنچھی پہلی بار سرد ہو رہے تھے۔ مگر سورج کی باتیں کرنے والے یہ سبھی سوچ صرف اپنے ہی بارے میں رہے تھے۔
"یہ کیا ہو رہا ہے ہمیں؟"
"کیا بنے گا ہمارا؟"
کچھ معلوم ہے تمہیں، کہ ایسے میں ایک یہی سمندر تھا جس نے سورج کا بھی غم کیا۔
"کیا ہوا ہے تمہیں؟ یوں گِرنا کاہے دوست۔ کسی نے کچھ کہہ دیا کیا، اور تم یوں انگارہ؟ جل جائو گے۔ کچھ بولو ناں، کیا بات ہے دوست؟."
اس سے پہلے کبھی کسی نے سورج سے بات نہیں کی تھی۔ سب اسے دیکھتے تھے، اور جانتے تھے کہ وہ ہے، اور بس۔ یہ سمندر تھا کہ جس نے پہلی بار سورج کو دوست کہہ کر بلایا تھا۔ سمندر کا یہ تخاطب سورج کے لئے نئی بات تھی۔ اپنے جواب کو مجتمع کرتے کرتے سورج کچھ اور نڈھال ہوا۔ کچھ اور نیچے جھک گیا۔ اور بولا:
"ساگر! کسی نے کیا کہنا تھا؟ دکھ تو یہی ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں کہتا۔ سب جانتے ہیں کہ میں ہوں۔ پر سبھی مجھے بھلا کر اپنی اپنی میں مگن ہیں۔ تم بھی تو پل پل دھرتی کے گلے میں باہیں ڈالے رہتے ہو۔ مانجھی پنچھی تمہیں ملنے آتے جاتے ہیں۔ اور ادھر میں۔ جیسے دور کو اچھال کے سب بھول گئے مجھے۔ بس خوش رہو سب۔ میں تو چلا۔"
" اس وقت سورج پھوٹ پھوٹ کے رویا تھا۔ اس بات کو اگر سمجھنا ہو تو کبھی کسی کا اکیلا ہاتھ ہلکے سے اپنے ہاتھوں میں تھام کے اسکی آنکھوں میں دیکھنا۔ پگھل جائو گے تم خود۔ کہتے ہیں کہ سورج کے غم کا سن کر اسی طرح سمندر کو بھی سنبھلتے کچھ دیر لگی تھی۔ بولا۔
"سورج! تمہارا دکھ میں سمجھتا ہوں۔ مگر دور سے دیکھ کر شاید تم میرا نہیں سمجھ پائے۔ یہ مانجھی، پنچھی، دھرتی، یہ سب اپنی اپنی غرض کے یار ہیں۔ کبھی گرمی ستائے۔ کبھی پار جانا ہو۔ یا بھوک لگے اور مچھلی کھانی ہو تو آ جاتے ہیں۔ ورنہ کون پوچھتا ہے مجھے۔ اب اس دھرتی کو ہی لو۔ جب مجھ سے آن کر جڑ جاتی ہے، کتنی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اگر سچ میں مجھے یاد رکھے تو مجھ سے دور جا کے بھی اس ملن کی ٹھنڈک کو نہ بھلائے۔ مگر تم تو دیکھتے ہی ہو، کچھ ہی کوس دور گئی مجھ سے، اور یہ دھرتی پھر سے گرم ہوگئی۔ سچ مانو تو اپنے اندر، بہت اندر، میں بھی تنہا ہوں۔ بالکل تنہا۔ تم سے بھی زیادہ تنہا۔ آؤ سورج، میرے پاس آجاؤ۔ ہم تم دوست بن جائیں گے۔ آتے جاتے رہا کرو۔ شاید تم سے مل کر مجھے بھی سب کی سرد مہری کا غم بھولے۔ اور شاید تمہاری یہ جدائی کی آگ بھی کم ہو۔"
اور معلوم ہے پھرسورج نے سمندر کی بات مان لی۔ وہ دن لے لو اور آج کے دن تک، ہر ڈھلتی شام سورج اور سمندر ملتے ہیں۔ تب سمندر کی لہریں سورج کی دن بھر کی تھکن دھوتی ہیں۔ تب سورج کی کرنیں سمندر کو قرب کی گرمی دیتی ہیں۔ '
'محسوس کیا تھا نا تم نے۔
اوہ رات اترنے والی ہے۔ چلو ساحل پر جلیں۔'
رہت کے اس پار گھروں کی بتیاں دھیرے دھیرے روشن ہونے لگی تھیں۔
دور کہیں مہندر کپور گا رہا تھا
'نیلے گگن کے تلے۔۔۔ایسے ہی شام ڈھلے۔'
“सुनो! कभी ढलती शाम में, रेत को पार करते हुए पानी तक गए हो?”
“महसूस किया… रेत की ठंडक के आगे समुंदर के पानी की गरमाहट को?”
“और चलो न आगे… इस बेपनाह क़ुर्बत की गर्मी से पूरा तन भिगो लो।”
“हूँ… यूँ।”
“पता है तुम्हें कि ढलती शाम का समुंदर ठंडा क्यों नहीं पड़ता? एक पुरानी कहानी है—सुनाऊँ?”
“बहुत, बहुत पहले की बात है। अभी दिन और रात बने ही नहीं थे। और ऐसे ही एक ढलती शाम आई थी—बिलकुल ऐसी ही जैसे आज है। जगत की पहली शाम।
सूरज काफ़ी देर से कुछ थका-थका, उकता-सा लग रहा था। जैसे आजकल कोलकाता से दिल्ली जाने वाली ट्रेन में फ़िरोज़ाबाद के पास यात्री लगते हैं।
और फिर सबने सूरज को किसी अनजाने दर्द में धीरे-धीरे झुकते देखा। बस, फिर क्या था—चह-मगगियाँ होने लगीं।
“क्या ग़म लग गया इसे?”
“तौबा, लाल अंगारा हो रहा है।”
“कहीं आग तो नहीं लग गई?”
“यूँ लगता है जैसे अभी राख हो जाएगा।”
इधर धरती, समुंदर, पेड़, पंछी—सब पहली बार सिहर रहे थे।
पर सूरज के बारे में बातें करने वाले सभी बस अपने ही बारे में सोच रहे थे।
“ये हमारे साथ क्या हो रहा है?”
“हमारा क्या बनेगा?”
पर जानते हो, ऐसे में एक वही समुंदर था जिसने सूरज का भी ग़म किया।
“क्या हुआ तुम्हें? ऐसे क्यों झुक रहे हो, दोस्त? किसी ने कुछ कह दिया क्या… और तुम ऐसे अंगारा? जल जाओगे। कुछ बोलो न, क्या बात है?”
इससे पहले कभी किसी ने सूरज से बात नहीं की थी।
सब उसे देखते थे, जानते थे कि वह है… बस।
समुंदर ही पहला था जिसने उसे ‘दोस्त’ कहकर पुकारा।
सूरज यह संबोधन सुनकर और पिघल गया। जवाब जुटाते-जुटाते और नीचे झुक आया।
“सागर… किसी ने क्या कहना था? दुख तो यही है कि कोई कुछ भी नहीं कहता।
सब जानते हैं कि मैं हूँ, पर सब मुझे भुलाकर अपनी-अपनी में मस्त हैं।
तुम ही देखो—तुम्हारे पास तो धरती आती-जाती रहती है।
मानझी, पंछी तुमसे मिलने आते रहते हैं।
और इधर मैं… जैसे दूर कहीं उछाल कर सबने मुझे भुला दिया हो।
बस, खुश रहो सब… मैं तो चला।”
कहते हैं, सूरज उस वक़्त फूट-फूटकर रोया था।
समझना हो तो कभी किसी का अकेला हाथ अपने हाथ में लेकर उसकी आँखों में देखना… ख़ुद पिघल जाओगे।
समुंदर को भी सँभलते कुछ पल लगे। फिर बोला—
“सूरज, तुम्हारा दुख मैं समझता हूँ।
पर दूर से देखकर शायद तुम मेरा दुख नहीं समझ पाए।
ये मानझी, पंछी, धरती—ये सब अपने मतलब के साथी हैं।
कभी गर्मी सताए, कभी पार जाना हो, कभी भूख लगे और मछली खानी हो—तभी आते हैं।
वरना कौन पूछता है मुझे?
और यह धरती… जब मुझसे आकर लगती है तो कितनी ठंडी होती है।
अगर सच में मुझे याद रखे तो दूर जाकर भी इस मिलन की ठंडक न भूले।
पर देखो—कुछ ही कोस दूर जाते ही फिर गरम हो जाती है।
सच कहूँ सूरज—अपने अंदर, बहुत भीतर, मैं भी अकेला हूँ।
तुमसे भी ज़्यादा अकेला।
आओ सूरज, मेरे पास आ जाओ।
हम दोस्त बन जाएँ।
आते-जाते रहा करो।
शायद तुमसे मिलकर मैं भी सबकी बेरुख़ी भूल जाऊँ।
और शायद तुम्हारी यह जुदाई की आग भी कुछ कम हो।”
और तुम्हें पता है, सूरज ने समुंदर की बात मान ली।
तभी से—उस दिन से आज तक—हर ढलती शाम सूरज और समुंदर मिलते हैं।
समुंदर की लहरें सूरज की दिन-भर की थकान धोती हैं।
सूरज की किरणें समुंदर को क़ुर्बत की गर्मी देती हैं।
“महसूस किया था न तुमने?
ओह, रात उतरने लगी है—चलो, फिर से तट की ओर चलें।
रेत के उस पार घरों की बत्तियाँ धीरे-धीरे जगमगाने लगी थीं।
दूर कहीं महेन्द्र कपूर गा रहा था—
“नीले गगन के तले… ऐसे ही शाम ढले…”
रियाज़ अकबर
“महसूस किया… रेत की ठंडक के आगे समुंदर के पानी की गरमाहट को?”
“और चलो न आगे… इस बेपनाह क़ुर्बत की गर्मी से पूरा तन भिगो लो।”
“हूँ… यूँ।”
“पता है तुम्हें कि ढलती शाम का समुंदर ठंडा क्यों नहीं पड़ता? एक पुरानी कहानी है—सुनाऊँ?”
“बहुत, बहुत पहले की बात है। अभी दिन और रात बने ही नहीं थे। और ऐसे ही एक ढलती शाम आई थी—बिलकुल ऐसी ही जैसे आज है। जगत की पहली शाम।
सूरज काफ़ी देर से कुछ थका-थका, उकता-सा लग रहा था। जैसे आजकल कोलकाता से दिल्ली जाने वाली ट्रेन में फ़िरोज़ाबाद के पास यात्री लगते हैं।
और फिर सबने सूरज को किसी अनजाने दर्द में धीरे-धीरे झुकते देखा। बस, फिर क्या था—चह-मगगियाँ होने लगीं।
“क्या ग़म लग गया इसे?”
“तौबा, लाल अंगारा हो रहा है।”
“कहीं आग तो नहीं लग गई?”
“यूँ लगता है जैसे अभी राख हो जाएगा।”
इधर धरती, समुंदर, पेड़, पंछी—सब पहली बार सिहर रहे थे।
पर सूरज के बारे में बातें करने वाले सभी बस अपने ही बारे में सोच रहे थे।
“ये हमारे साथ क्या हो रहा है?”
“हमारा क्या बनेगा?”
पर जानते हो, ऐसे में एक वही समुंदर था जिसने सूरज का भी ग़म किया।
“क्या हुआ तुम्हें? ऐसे क्यों झुक रहे हो, दोस्त? किसी ने कुछ कह दिया क्या… और तुम ऐसे अंगारा? जल जाओगे। कुछ बोलो न, क्या बात है?”
इससे पहले कभी किसी ने सूरज से बात नहीं की थी।
सब उसे देखते थे, जानते थे कि वह है… बस।
समुंदर ही पहला था जिसने उसे ‘दोस्त’ कहकर पुकारा।
सूरज यह संबोधन सुनकर और पिघल गया। जवाब जुटाते-जुटाते और नीचे झुक आया।
“सागर… किसी ने क्या कहना था? दुख तो यही है कि कोई कुछ भी नहीं कहता।
सब जानते हैं कि मैं हूँ, पर सब मुझे भुलाकर अपनी-अपनी में मस्त हैं।
तुम ही देखो—तुम्हारे पास तो धरती आती-जाती रहती है।
मानझी, पंछी तुमसे मिलने आते रहते हैं।
और इधर मैं… जैसे दूर कहीं उछाल कर सबने मुझे भुला दिया हो।
बस, खुश रहो सब… मैं तो चला।”
कहते हैं, सूरज उस वक़्त फूट-फूटकर रोया था।
समझना हो तो कभी किसी का अकेला हाथ अपने हाथ में लेकर उसकी आँखों में देखना… ख़ुद पिघल जाओगे।
समुंदर को भी सँभलते कुछ पल लगे। फिर बोला—
“सूरज, तुम्हारा दुख मैं समझता हूँ।
पर दूर से देखकर शायद तुम मेरा दुख नहीं समझ पाए।
ये मानझी, पंछी, धरती—ये सब अपने मतलब के साथी हैं।
कभी गर्मी सताए, कभी पार जाना हो, कभी भूख लगे और मछली खानी हो—तभी आते हैं।
वरना कौन पूछता है मुझे?
और यह धरती… जब मुझसे आकर लगती है तो कितनी ठंडी होती है।
अगर सच में मुझे याद रखे तो दूर जाकर भी इस मिलन की ठंडक न भूले।
पर देखो—कुछ ही कोस दूर जाते ही फिर गरम हो जाती है।
सच कहूँ सूरज—अपने अंदर, बहुत भीतर, मैं भी अकेला हूँ।
तुमसे भी ज़्यादा अकेला।
आओ सूरज, मेरे पास आ जाओ।
हम दोस्त बन जाएँ।
आते-जाते रहा करो।
शायद तुमसे मिलकर मैं भी सबकी बेरुख़ी भूल जाऊँ।
और शायद तुम्हारी यह जुदाई की आग भी कुछ कम हो।”
और तुम्हें पता है, सूरज ने समुंदर की बात मान ली।
तभी से—उस दिन से आज तक—हर ढलती शाम सूरज और समुंदर मिलते हैं।
समुंदर की लहरें सूरज की दिन-भर की थकान धोती हैं।
सूरज की किरणें समुंदर को क़ुर्बत की गर्मी देती हैं।
“महसूस किया था न तुमने?
ओह, रात उतरने लगी है—चलो, फिर से तट की ओर चलें।
रेत के उस पार घरों की बत्तियाँ धीरे-धीरे जगमगाने लगी थीं।
दूर कहीं महेन्द्र कपूर गा रहा था—
“नीले गगन के तले… ऐसे ही शाम ढले…”
रियाज़ अकबर
“Tell me… have you ever walked across warm sand at dusk and stepped into the sea?”
“Have you felt it—the coolness of the sand giving way to the tender warmth of the evening tide?”
“Come closer then. Let this nearness drench your whole being.”
“Mmm… like this?”
“Do you know why the sea doesn’t turn cold at dusk? There’s an old tale—shall I tell you?
It happened long, long ago, when day and night did not yet exist. And on such an evening—just like this—arrived the very first dusk of the world. The sun had been glowing with a strange fatigue, a restless boredom—
the way passengers travelling from Kolkata to Delhi seem when their train slows near Firozabad.
And then everyone saw the sun bend, gently, painfully— and whispers began to rise.
“What sorrow has struck it?”
“It’s turning red—like a burning ember!”
“Has some fire caught it?”
“At this rate, it will turn to ash any moment!”
All around, the earth, the seas, the trees, the birds— everything shivered for the very first time. Yet those who spoke of the sun thought only of themselves—
“What is happening to us?”
“What will become of us?”
But there was one—the sea— the only one who felt the sun’s grief.
“What has happened to you, my friend? Why do you sink like this? Did someone hurt you? Why burn so fiercely? You’ll consume yourself. Tell me, what troubles you?”
Until that moment, no one had ever spoken to the sun. They looked at it, acknowledged its existence, but never addressed it. The sea was the first to call the sun a friend The sun, gathering its failing strength, bent lower still, and whispered:
“Sea… no one has said anything. That is the sorrow. Everyone knows I exist, but all have forgotten me.
You—earth wraps her arms around you; sailors and birds come to you, rest on you, live because of you.
But me? They have cast me far away from their thoughts. Let them be. I shall go.”
It is said that the sun wept then— wept the way only a lonely heart can. And if you wish to understand it, hold someone’s solitary hand someday and look into their eyes—you will melt.
The sea, too, took time to steady itself. Then it spoke gently:
“Sun, I understand your sorrow. But from the distance where you stand, you may not understand mine These sailors, these birds, even the earth— they come to me only when they need something. Shade, passage, food. Otherwise, no one remembers me either.
And earth—when she leans against me, she is cool and soft. If she truly cherished me, she would remember that coolness even when far away. But you see—just a little distance, and she grows hot again.
Believe me, deep within myself, I too am alone. More alone than you.
Come to me, Sun. Let us be companions. Come whenever you wish Perhaps your nearness will help me forget the world’s indifference. And perhaps your ache of separation will soften too.”
And so the sun agreed. From that day to this, every descending evening the sun and the sea meet The waves wash away the sun’s weariness. The sun’s fading rays warm the sea with tender closeness.
“You felt it today too… didn’t you?”
Night was beginning to settle. Lights across the sandy stretch flickered on one by one. And from somewhere far away, Mahendra Kapoor’s voice drifted through the wind:
“Neelé gagan ke talé… aisí hi shaam dhalé…”
(Under the blue lit heavens ... dust descent exactly so)
Riaz Akber
“Have you felt it—the coolness of the sand giving way to the tender warmth of the evening tide?”
“Come closer then. Let this nearness drench your whole being.”
“Mmm… like this?”
“Do you know why the sea doesn’t turn cold at dusk? There’s an old tale—shall I tell you?
It happened long, long ago, when day and night did not yet exist. And on such an evening—just like this—arrived the very first dusk of the world. The sun had been glowing with a strange fatigue, a restless boredom—
the way passengers travelling from Kolkata to Delhi seem when their train slows near Firozabad.
And then everyone saw the sun bend, gently, painfully— and whispers began to rise.
“What sorrow has struck it?”
“It’s turning red—like a burning ember!”
“Has some fire caught it?”
“At this rate, it will turn to ash any moment!”
All around, the earth, the seas, the trees, the birds— everything shivered for the very first time. Yet those who spoke of the sun thought only of themselves—
“What is happening to us?”
“What will become of us?”
But there was one—the sea— the only one who felt the sun’s grief.
“What has happened to you, my friend? Why do you sink like this? Did someone hurt you? Why burn so fiercely? You’ll consume yourself. Tell me, what troubles you?”
Until that moment, no one had ever spoken to the sun. They looked at it, acknowledged its existence, but never addressed it. The sea was the first to call the sun a friend The sun, gathering its failing strength, bent lower still, and whispered:
“Sea… no one has said anything. That is the sorrow. Everyone knows I exist, but all have forgotten me.
You—earth wraps her arms around you; sailors and birds come to you, rest on you, live because of you.
But me? They have cast me far away from their thoughts. Let them be. I shall go.”
It is said that the sun wept then— wept the way only a lonely heart can. And if you wish to understand it, hold someone’s solitary hand someday and look into their eyes—you will melt.
The sea, too, took time to steady itself. Then it spoke gently:
“Sun, I understand your sorrow. But from the distance where you stand, you may not understand mine These sailors, these birds, even the earth— they come to me only when they need something. Shade, passage, food. Otherwise, no one remembers me either.
And earth—when she leans against me, she is cool and soft. If she truly cherished me, she would remember that coolness even when far away. But you see—just a little distance, and she grows hot again.
Believe me, deep within myself, I too am alone. More alone than you.
Come to me, Sun. Let us be companions. Come whenever you wish Perhaps your nearness will help me forget the world’s indifference. And perhaps your ache of separation will soften too.”
And so the sun agreed. From that day to this, every descending evening the sun and the sea meet The waves wash away the sun’s weariness. The sun’s fading rays warm the sea with tender closeness.
“You felt it today too… didn’t you?”
Night was beginning to settle. Lights across the sandy stretch flickered on one by one. And from somewhere far away, Mahendra Kapoor’s voice drifted through the wind:
“Neelé gagan ke talé… aisí hi shaam dhalé…”
(Under the blue lit heavens ... dust descent exactly so)
Riaz Akber