ماحولیات کے معاملات سے آگہی اس کے ملک کے لئے، اور خود اس کے لئے بھی، نئی بات سہی مگر مقامی کالج کا طالب علم ہونے کے ناطے جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کی ہمہ ہمی دیکھی بھالی تھی۔ اسی تجربے کی بنا پر اس نے ساتھیوں سے مل کر آنے والے کل کی ہڑتال کے لئے بینر اور جوشیلے نعرے تیار کئے تھے۔
زندہ پیڑ کہ مردہ لکڑی ۔ زندہ پیڑ، زندہ پیڑ
زندہ پیڑ پہ وحشی آرا ۔ نہیں چلے گا، نہیں چلے گا
جنگل کے پنچھی کا بسیرا ۔ نہیں لٹے گا، نہیں لٹے گا
وغیرہ۔

گزشہ برسوں کی طرح اب کی بار بھی قریب کے جنگلات سے لکڑی کاٹنے کا پانچ سالہ ٹھیکہ اس کے باپ ہی کو ملا تھا۔ اور خود اس کے ذہن میں یہ بات واضح نہیں تھی کہ اس کے احتجاجی جوش و خروش کی وجہ جنگل کے درختوں سے اس کا لگائو ہے یا اپنے باپ سے ناراضی، یا شاید دونوں۔ اس کی راتوں کے اکثر خواب اس مار پیٹ کا منظر دہراتے جو کوئی دس پندھرہ سال پہلے اس کی ماں پر اس کے باپ کی طرف سے نازل ہوتی رہی۔ وہی کمرے کے ایک کونے میں کرب سے دوہری، کبھی اپنی کمر اور کبھی پیٹ پکڑتی، سمٹی ہوئی ایک خاتون اور اس پر ایک فربہ مرد کا سایہ، جسکے پائوں کی ہر ٹھوکر کے ساتھ یہ حکم بھی اترتا کہ خبردار جو آواز نکالی۔ تقریباً ہر خواب میں یہ ایک ہی منظر دیکھنے، آنکھ کھلنے پر چپکے چپکے رونے، اور پھر دوبارہ سو جانے کے تسلسل سے وہ تنگ آ گیا تھا۔ کسی نہ کسی طرح اس معمول سے آزاد ہوکر وہ اب اپنے خواب دیکھنا چاہتا تھا۔ پرندوں کی نغمگی میں شاخوں سے کھیلتی ہوئی لا پروا ہوا کے خواب، پیڑوں کے نیچے سوندھی گیلی پگڈنڈیوں پر نچھاور ہوتے ہوئے پتوں کے خواب، یا ان آوارا گلہیریوں کے خواب جو ان پگڈنڈیوں کا راستہ کاٹ کر اچھلتی ہوئی دوسری طرف کے درختوں کی چھال میں گم ہوجاتی ہیں۔ کئی بار کالج سے بھاگ کر وہ اکیلا جنگل کے پیڑوں کے درمیان ٹیڑھے میڑھے راستے نکال کر گھومتا، اور پھر راتوں کو سوچتا کہ دن کو دیکھے یہ مناظر نیند سے آنکھیں بند ہونے پر کھو کیوں جاتے ہیں؟ کل کے جلوس کے لئے تقریر بھی اس نے اپنے بستر پر ایسی ہی ایک نیم خوابیدہ بڑبڑاہت ہی میں تیار کی۔
'میرے شہر کے دوستو، یہ زمین ہم انسانوں اور دوسری مخلوق میں ساجھی ہے۔ اگر ساری زندہ مخلوق کا وزن ایک کلو مان لیں تو اس ساجھے جنگل کے ڈاکو ٹھیکیدار کیا یہ جانتے ہیں کہ تمام انسانوں کا وزن اس میں کتنا ہوگا؟ میں بتاتا ہوں--- صرف ایک تولہ۔ ایک تولہ میرے دوستو۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایک تولے کے ٹھیکیدار اور ان کے سنگی ساتھی ساری مخلوق کی زمین لوٹ لیں اور ہم چپ رہیں۔ اپنے محلوں کے دروازے کھڑکیاں اور فرنیچر بنانے کے لئے یہ ظالم دوسری تمام مخلوق کے گھر اجاڑ رہے ہیں، پیڑ گرا رہے ہیں۔ یہ بے آباد کر رہے ہیں پرندوں اور گلہریوں کو، اور ۔۔۔۔ اور تتلیوں کو ۔۔۔۔ اور شاخوں میں ناچتی ہوئی ہوا کو ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اور'
اور اس سے زیادہ خود اسے بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔

اس کی ماں کی شادی کب اور کیسے ہوئی اور پھر اس کو طلاق ہوئی، خود اس نے خلع لی، یا ویسے ہی مظالم سے بلبلا کر بھاگ نکلی؟ یہ اب تک اس نے پوچھا نہ ہی کسی نے بتایا۔ وہ بس استانی رشیدہ کا بیٹا تھا جو کچے محلے کی چھوٹی گلی کے بیچ کہیں ایک کمرے کے مکان میں رہتا تھا اور اس کی ماں قریب کے سکول میں پہلی جماعت کے بچوں کو الف بے رٹاتی اور گنتی سکھاتی تھی۔ اس کا باپ کون ہے؟ یہ بھی اسے آٹھ دس برس کی عمر میں باقی لڑکوں کے ماں باپ سے ہی معلوم ہوا تھا۔ ساتھ کے بڑی کالونی میں اس کے باپ کا تین منزلہ گھر تھا۔ بظاہر وہ ایک رکھ رکھاؤ والا آدمی تھا۔ شادی تو شاید اس نے نہیں کی تھی تاہم اب بڑے ہو کر دوستوں کی باتوں اور کچھ اپنے دیکھنے سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ آمد و رفت ضرور رہتی ہے۔ اور یہ کہ دوسرے ایک دو شہروں میں بھی اس کے مکان ہیں جہاں وہ آتا جاتا رہتا ہے۔ سکول کے زمانے تک وہ اپنے باپ کے ہاتھ سے کبھی کبھار کے تحفے خاموشی سے پکڑ لیتا، مگر کالج میں آنے کے بعد اس نے ایک دن باپ کے دئے ہوئے شلوار قمیض کے پیکٹ کو زمین پر دے مارا ۔ اور اس روز کے بعد سے دونوں نے گلی بازار میں نظر جھکا کر راستہ بدلنا سیکھ لیا تھا۔

ہڑتال کا وقت گزرنے کے بہت بعد، کہر میں بھیگی ہوئی سرد رات تھی جب وہ گھر لوٹا۔ ماتھے کی چوٹ پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر ایک سرخ سا دھبہ اتر آیا تھا، اور وہ پٹی اس نے گھر کے دروازے کے باہر ہی اتار کر گلی کی نالی میں پھینک دی تھی ۔ ماں نے صحن کا دروازہ کھولا اور وہ ماتھے کو ہاتھ سے ڈھک کر سہلاتا ہوا کمرے میں اپنے بستر کی طرف بڑھ گیا۔
'بہت تھک گیا ہوں امی، روٹی اب سویرے کھا لوں گا'
یہ جملہ اس نے رضائی کو چہرے سے اوپر کھینچتے ہوئے کہا۔

گھپ اندھیرے میں ایک ممی کی طرح سیدھا لیٹ کر اس نے زخم پر ہلکا سا ہاتھ پھیرا، تازہ چوٹ کا درد اور سوجن تھی مگر خون رسنا بند ہوگیا تھا۔ اس کے گھر میں روشنی کا نہ ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ در اصل ہر ماہ کی پہلی یا دوسری تاریخ کو ماں کی تنخواہ کی تقسیم کے لئے گھر کی مختلف ضروریات کے مابین خوب لوٹ کھسوٹ ہوتی۔ دس کلو آٹا اور چار کلو دالیں ہمیشہ جیت جاتیں، اور بجلی کی اس تار کو اکثر شکست ہوتی جو ہمسائے کے گھر سے چل کر اس کے کمرے میں لٹکے ہوئے ایک بلب پر آ کر رکتی تھی۔ گھر میں بلب جلانے اور بجھانے کا کوئی بٹن نہیں تھا۔ بس بھلے دنوں میں ہمسائے کو پیسے دینے پر یہ بلب مغرب کی اذان سے فجر کی اذان تک دئے کی طرح جلتا رہتا۔

اس نے گزرے ہوئے دن کی جگالی کی۔ اسے یاد تھا کہ محکمہ جنگلات کے دفتر کے قریب سڑک کے دوسری طرف لکڑی کے ایک چرچراتے ہوئے چبوترے پر چڑھ کر جب اس نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو اس کے سامنے نوجوان ساتھیوں کا ہجوم بہت پرجوش ہو گیا تھا۔ ان کے 'نہیں چلے گا' اور نہیں لٹے گا' کے اچھلتے ہوئے نعروں کی گونج میں وہ اپنے میگا فون کو بھی بمشکل سن سکا تھا۔ اس جوشیلے ہجوم کے پار وہ باوردی سپاہیوں کی دو قطاروں کو دیکھ سکتا تھا۔ اور ان سپاہیوں کے پیچھے دفتر جنگلات کے برآمدے میں کچھ اور پولیس افسروں کے ہمراہ محکمہ کے ملازمین اور ٹھیکیدار تھے۔ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس کی تقریر کے آغاز پر اس کے باپ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی ابھر آئی تھی اور وہ برآمدے میں کچھ قدم آگے بھی آیا تھا۔ مگر یہ مسکراہٹ اس کے باپ کا فخر تھی ہا طنز، یہ سوچنے کا اسے وقت نہیں ملا۔

یہ اسے یاد نہیں تھا کہ تقریر کے دوران ماتھے کی یہ چوٹ اسے کسی پتھر کے لگنے سے آئی یا کسی پولیس والے کی لاٹھی سے۔ یا پھر بھگدڑ میں اسکا اپنا ہی میگا فون اس کے سر سے ٹکرایا ہو۔ ہاں کچھ دیر بعد اس نے خود کو اپنے کچھ اور ساتھیوں کے ہمراہ قریب کے پولیس تھانے کی حوالات میں بند پایا تھا، جہاں وہ سب خاموش سر جھکائے بیٹھے تھے۔ وہاں اس نے بس صرف ایک دوست کو ذرا سا بڑبڑاتے سنا تھا،
'ایر فورس میں ایپلائی کر رکھا تھا یار۔ یہ سالی حوالات نے تو کیریر پر پانی پھیر دیا۔'
باقی سب کا اسے معلوم نہیں ہوا کہ ان کی خاموشی کی وجہ تھکن تھی یا پچھتاوا۔

پھر شام سے کچھ پہلے تھانے کا پراسرار سکوت موٹر سائیکلوں، رکشوں، اور کبھی کبھار کاروں کی آواز، اور قریب کہیں قدموں کی چاپ اور لوگوں کی گفتگو سے ٹوٹنا شروع ہوا۔ یہ حوالات میں بند طلبا کے عزیز و اقارب تھے جو عدالت سے ضمانت کے کاغذات مکمل کروا کے ان کی رہائی لینے آئے تھے۔

اندھیرا چھانے تک بس اکیلا وہی رہ گیا تھا جب بڑے سے ٹھنڈے کمرے میں اچانک ایک بلب بیمار سی روشنی لئے جاگ اٹھا اور ایسے میں اسے اپنی ماں کا خیال آیا۔
کیا سوچتی ہوگی؟
کیا اسے کسی نے بتایا؟
شاید وہ اپنے بیٹے کی ضمانت دینے پر کسی کو راضی کرنے کے لئے گھر گھر گھوم رہی ہوگی۔
وہ زخمی ماتھا جھکائے بیٹھا رہا اور دو آنسو اس کی آنکھوں سے لڑھک کر سیمنٹ کے فرش پر جمی مٹی کی تہہ میں جذب ہو گئے۔
'مجھ سے پہلے بھی جانے کون کون رویا ہوگا یہاں؟' اس نے سوچا تھا۔

عشا کی اذانیں ہوئے دیر ہو چکی تھی کہ کسی نے حوالات کا دروازہ کھولا۔
'جائو ارسلان پرویز! تماری ضمانت ہو گئی ہے۔'
تھانے سے باہر نکل کر اس نے دیکھا۔ دور کہیں ایک جاتی ہوئی موٹر سائیکل کی پچھلی بتی اور دھیمی پھٹپھٹاہٹ کے سوا سڑک ویران تھی اور اسے گھر لے جانے والا کوئی نہیں تھا۔

اب بستر پر لیٹ کر گزرے دن کی اس جگالی میں بارہا یہ سوالات اس کے ذہن میں ابھرے کہ حوالات کے کمرے سے نکلتے وقت اسے جلدی کاہے کی تھی؟ اسے پولیس تھانے کے دفتر والے حصے میں جانے کی جرات کیوں نہ ہوئی؟ آخر وہ کیوں نہ یہ پوچھ پایا کہ اس کی ضمانت کس نے دی ہے؟
'غربت ہمیں اچھے برے حالات کو بِنا سوال کئے قبول کرنے کا عادی بنا دیتی ہے۔' اس کے ذہن نے خود ہی ان سوالوں جواب دیا۔

شاید تمام رات وہ اس گزرے دن کو سوچتا رہتا مگر بستر پر چھلانگ لگا کر چڑھ آنے والی ایک بلی نے خیالات کا رخ موڑ دیا۔ سردیوں کی راتوں میں کچے محلے کی یہ نیم پالتو بلی اکثر ان ماں بیٹے کے کمرے کے طاق کے مکمل بند نہ ہو سکنے کا فائدہ اٹھاتی، اور ان کے بستروں یا چولہے کے گرد بچی کھچی گرمی میں پناہ گزین ہوتی۔
'آ جائو بلی' اس نے آہستہ سے کہا۔ 'تم تو اندھیرے میں بھی راستہ دیکھ سکتی ہو۔ سو اس گرم بستر کو ڈھونڈ کر یہاں رکنے کا حق مجھ سے زیادہ تمہارا ہے'۔
'آ جائو، یہ کشتیِ نوح ہے اور باہر بہت طوفان ہے۔ تم، میں، یہ میری ماں ۔۔۔ ہم سب اس کشتی کے مسافر ہیں۔ اور ہمیں پار اترنا ہے۔ دور کہیں اُس زمین پر جہاں سورج نکلتا ہے'۔

صبح ماں کے جگانے پر اس کی آنکھ کھلی۔ وہ روٹی پکانے کے بعد اسکے ساتھ کھانے کو چٹنی کا سامان کر رہی تھی۔ ماں کی انگلیوں میں کانپتی ہوئی ہرے دھنئے کی شاخ اسے طوفانِ نوح کے بعد کسی فاختہ کے پاس زیتون کی ٹہنی کی طرح لگی۔
کتابیں اٹھا کر کالج جاتے وقت اس نے کہا۔
'آپ اور مَیں مسافر ہیں امی اور ہمارا گھر کشتیِ نوح ہے۔ یہ طوفان ضرور تھمے گا۔ کسی وادی کے سبز جنگل میں دھنک کے کنارے یہ کشتی ضرور رکے گی۔ آپ دیکھتی رہنا امی ۔۔۔ اور ۔۔۔اور'
اور اس سے زیادہ اسے خود کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

'دھنک کا کنارا' استانی رشیدہ نے لمحہ بھر کو سوچا ضرور لیکن خاموش رہی۔ وہ حسبِ معمول اپنے کالج جاتے ہوئے بیٹے کے لئے زیرِ لب دعائوں میں مصروف تھی۔

ریاض اکبر ۔ آسٹریلیا
माहौलियात के मामलों से जागरूकता उसके मुल्क के लिए, और ख़ुद उसके लिए भी, नई बात सही, मगर स्थानीय कॉलेज का विद्यार्थी होने के नाते जलसे-जलूस और हड़तालों की हलचल वह देखता-सुनता आया था। उसी तजुर्बे की बुनियाद पर उसने साथियों के साथ मिलकर आने वाले कल की हड़ताल के लिए बैनर और जोशीले नारे तैयार किए थे।
ज़िंदा पेड़ कि मुरदा लकड़ी — ज़िंदा पेड़, ज़िंदा पेड़
ज़िंदा पेड़ पर वहशी आरा — नहीं चलेगा, नहीं चलेगा
जंगल के पंछी का बसेरा — नहीं लुटेगा, नहीं लुटेगा
वग़ैरह।

पिछले बरसों की तरह इस बार भी क़रीब के जंगलों से लकड़ी काटने का पाँच साल का ठेका उसके बाप को ही मिला था। और ख़ुद उसके मन में यह बात साफ़ नहीं थी कि उसके विरोध का जोश-जुनून पेड़ों से मोहब्बत की वजह से था, या बाप से नाराज़गी की वजह से — या शायद दोनों।

उसकी रातों के ज़्यादातर ख़्वाब वही मारपीट का मंज़र दोहराते रहे जो दस–पंद्रह साल पहले उसकी माँ पर उसके बाप की तरफ़ से टूटता था। वही कमरे के कोने में दर्द से दोगुनी हुई, कभी कमर और कभी पेट संभालती एक सिमटी हुई औरत — और उस पर एक भारी-भरकम मर्द का साया, जिसके हर ठोकर के साथ यह हुक्म भी उतरता: “ख़बरदार, जो आवाज़ निकाली।”
लगभग हर ख़्वाब एक ही मंज़र लिए आता — आँख खुलने पर उसका धीमे-धीमे रोना, फिर दोबारा सो जाना, और यही सिलसिला उसे थका चुका था। किसी तरह इस बदहाली से आज़ाद होकर अब वह अपने ख़्वाब देखना चाहता था — पंछियों की नغمगी में शाख़ों से खेलने वाली बेपरवाह हवा के ख़्वाब, पेड़ों तले गीली–सोंधी पगडंडियों पर बिखरते पत्तों के ख़्वाब, और आवारा गिलहरियों के ख़्वाब जो पगडंडियों को काटकर उछलती हुई सामने के पेड़ों की छाल में गुम हो जातीं।
कई बार कॉलेज से भागकर वह अकेला जंगल के पेड़ों के बीच टेढ़े–मेढ़े रास्ते निकालकर घूमता, और रात को सोचता कि दिन में देखे हुए ये मंज़र नींद की आग़ोश में क्यों खो जाते हैं?
कल के जलूस के लिए भाषण भी उसने बिस्तर पर ऐसी ही एक अर्ध–स्वप्निल बड़बड़ाहट में तैयार किया।

“मेरे शहर के दोस्त, यह ज़मीन हम इंसानों और बाकी जीव-जंतुओं की साझी है। अगर सारी ज़िंदा मख़लूक़ का वज़न एक किलो मान लें, तो इस जंगल पर क़ब्ज़ा करने वाले लुटेरे ठेकेदार जानते हैं कि इंसानों का हिस्सा कितना है? सिर्फ़ एक तोला, मेरे दोस्त — सिर्फ़ एक तोला! तो कैसे मुमकिन है कि एक तोले वाले ठेकेदार और उनके साथी सारी मख़लूक़ की ज़मीन लूट लें और हम चुप रह जाएँ? अपने घरों के दरवाज़े–खिड़कियाँ और फ़र्नीचर बनाने के लिए ये ज़ालिम बाकी सब प्राणियों के घर उजाड़ रहे हैं — पेड़ गिरा रहे हैं। ये उजाड़ रहे हैं पंछियों और गिलहरियों को… और… और तितलियों को… और शाख़ों में नाचती हवा को… और… और…”
और इससे आगे उसे ख़ुद भी कुछ मालूम नहीं था।

उसकी माँ की शादी कब और कैसे हुई, फिर तलाक़ हुआ, या उसने ख़ुलअ लिया — या ज़ुल्म से तंग आकर भाग निकली — यह उसने कभी पूछा नहीं, और न किसी ने बताया। वह बस अध्यापिका रशीदा का बेटा था, जो कच्चे मोहल्ले की एक छोटी गली में एक कमरे के मकान में रहता था। माँ क़रीब के स्कूल में पहली जमात के बच्चों को वर्णमाला और गिनती पढ़ाती थी।
उसका बाप कौन? यह भी उसे आठ–दस साल की उम्र में दूसरे लड़कों और उनके माँ–बाप से ही पता चला। नज़दीक की बड़ी कालोनी में उस आदमी का तीन मंज़िला घर था। बाहिरा वह सलीक़े वाला आदमी दिखता था, शादी शायद नहीं की थी, मगर अब बड़ा होकर दोस्तों की बातों और अपने देखे से उसे समझ आया था कि उसकी कुछ न कुछ “आवाजाही” रही करती है — और दो–तीन शहरों में भी उसके मकान हैं। स्कूल के दिनों में वह कभी-कभार बाप के हाथ से मिले छोटे-मोटे तौहफ़े चुपचाप ले लेता। लेकिन कॉलेज आने के बाद एक दिन उसने बाप के दिए हुए पैकेट को ज़मीन पर दे मारा। और उस दिन के बाद दोनों ने गली–बाज़ार में नज़रें झुका लेना और रास्ता बदल लेना सीख लिया।

हड़ताल का वक़्त बीतने के काफ़ी बाद, धुंध में भीगी ठंडी रात थी जब वह घर लौटा। माथे पर बँधी पट्टी के ऊपर एक लाल धब्बा फैल आया था, और वह पट्टी वह दरवाज़े के बाहर ही नाली में फेंक आया था।
माँ ने आँगन का दरवाज़ा खोला। वह माथा हाथ से सहलाता हुआ बिस्तर की तरफ़ बढ़ गया।
“बहुत थक गया हूँ अम्मी… रोटी अब सुबह खा लूँगा,” उसने रज़ाई सिर तक खींचते हुए कहा।
अँधेरे में सीधा लेटकर उसने ज़ख़्म पर हल्का हाथ फेरा। ताज़ा चोट का दर्द और सूजन थी, मगर ख़ून रुक चुका था। हर महीने की पहली–दूसरी तारीख़ को माँ की तनख़्वाह आने पर घर की ज़रूरतों के बीच खूब खींचातानी होती। दस किलो आटा और चार किलो दाल हमेशा जीत जाते। और वह पतली बिजली की तार अक्सर हार जाती, जो पड़ोसी के घर से चलकर उनके कमरे में लटके एक बल्ब तक आती थी। घर में बल्ब जलाने–बुझाने का कोई बटन नहीं था — पड़ोसी को पैसे मिलते तो बल्ब मग़रिब की अज़ान से फ़ज्र तक चिराग़ की तरह जलता रहता।

बिस्तर पर लेटकर उसने गुज़रे हुए दिन को अपने ज़ेहन में दोहराया। जब उसने विभाग के दफ़्तर के सामने लकड़ी के चरचराते चबूतरे पर चढ़कर भाषण शुरू किया, तो सामने युवा साथियों की भीड़ बहुत जोश में आ गई थी। उनके “नहीं चलेगा” और “नहीं लुटेगा” के नारे उछल रहे थे।
भीड़ के उस पार वह पुलिस के सिपाहियों की दो कतारें देख सकता था। और उनके पीछे बरामदे में विभाग के अफ़सर, पुलिसवाले और ठेकेदार। भाषण शुरू होते ही उसने देखा था कि उसके बाप के चेहरे पर एक हल्की मुस्कान उभरी थी — वह दो कदम आगे भी आया था। यह मुस्कान फ़ख़्र थी या तंज — सोचने का मौक़ा ही नहीं मिला। यह भी उसे याद न रहा कि यह माथे की चोट पत्थर से लगी या पुलिस की लाठी से, या भगदड़ में मेगाफ़ोन ही सिर से टकरा गया। बस इतना याद रहा कि थोड़ी देर बाद वह और उसके कुछ साथी पास के थाने की कोठरी में बंद थे — सब सिर झुकाए, चुप। वहाँ बस एक दोस्त की धीमी बड़बड़ाहट उसने सुनी:
“एयर फ़ोर्स में अप्लाई किया था, यार… यह सालि याँ कोठरी तो करियर पर पानी फेर देगी!”
बाक़ी सब की ख़ामोशी थकावट थी या पछतावा — पता न चला।

शाम ढले थाने का सन्नाटा बाहर से आती मोटर–साइकिलों, रिक्शों, और भीड़ की आहट से टूटने लगा। यह सब छात्रों के रिश्तेदार थे, जो ज़मानतनामे पूरे कराकर उन्हें छुड़ाने आए थे।
अँधेरा छा चुका था जब बड़ा-सा कमरा अचानक एक बीमार-सी रोशनी में नहाया, और उसे माँ का ख़याल आया:
क्या उसे पता चला होगा?
क्या किसी ने बताया होगा?
क्या वह घर-घर जाकर मनाने की कोशिश कर रही होगी कि कोई उसके बेटे की ज़मानत दे दे?
दो आँसू उसके गालों से लुढ़ककर फ़र्श की धूल में समा गए।
“मुझसे पहले भी जाने कौन रोया होगा यहाँ…?” उसने सोचा।
इशा की अज़ान हुए देर हो चुकी थी जब कोठरी का दरवाज़ा खुला:
“जाओ, अर्सलान परवेज़! तुम्हारी ज़मानत हो गई है।”
थाने से बाहर आकर उसने देखा — दूर जाती मोटर–साइकिल की धुंधली लाल बत्ती और धीमी “फट-फट” के अलावा सड़क खाली थी। घर ले जाने वाला कोई नहीं था।
रात बिस्तर पर लेटे वह बार–बार सोचता रहा कि वह इतना उतावला क्यों था?
क्यों थाने के दफ़्तर में जाकर यह न पूछ पाया कि उसकी ज़मानत किसने दी?
मन ने खुद जवाब दिया:
“ग़रीबी हमें हालात को बिना सवाल किए स्वीकार करना सिखा देती है।”

सर्दियों की रातों में यह अर्ध-पालित मोहल्ले की बिल्ली उनके कमरे की अधखुली खिड़की से घुसकर गर्मी तलाश लेती थी।
“आ जाओ, बिल्ली,” वह फुसफुसाया। “अँधेरे में भी तुम रास्ता देख सकती हो। तो यह गर्म बिस्तर ढूँढ लेने का हक़ तुमसे ज़्यादा किसका?”
“आ जाओ — यह नूह की कश्ती है, और बाहर बहुत तूफ़ान है। तुम, मैं, मेरी माँ — हम सब इस कश्ती के मुसाफ़िर हैं।
हमें उस किनारे पहुँच जाना है… वहाँ, जहाँ सूरज उगता है।”
सुबह माँ ने उसे जगाया। वह रोटी पकाकर धनिये की चटनी बना रही थी। माँ की काँपती उँगलियों में हरा धनिया उसे नूह के तूफ़ान के बाद कबूतर की लाई जैतून की टहनी जैसा लगा।
किताबें उठाकर कॉलेज जाते समय उसने कहा:
“हम मुसाफ़िर हैं, अम्मी… और हमारा घर नूह की कश्ती है। यह तूफ़ान थमेगा। किसी हरी-भरी वादी में, धनक के किनारे — यह कश्ती ज़रूर रुकेगी।
आप देखती रहना, अम्मी… और… और…”
और इससे ज़्यादा उसे ख़ुद भी नहीं पता था।

“धनक का किनारा…” अध्यापिका रशीदा ने एक पल को सोचा, मगर कुछ बोली नहीं। वह हमेशा की तरह अपने कॉलेज जाते बेटे के लिए दुआ करने लगी।

रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
Awareness about environmental issues was new for his country, and even for him. But as a student of the local college, he was no stranger to slogans, and the fervor of student strikes. Drawing on this experience, he and his friends had prepared banners and fiery chants for the strike planned for the next day.
“Living trees, not dead timber!
Living trees, living trees!
Savage saws on living trees —
We will not allow it!
The birds of the forest —
Their homes will not be stolen!”
And so on.

As in previous years, the five-year contract to cut timber from the nearby forests had once again been awarded to his father. He could not fully understand whether his passion for protest was driven by his love for the forest, or by his anger towards his father? Or both?

Most nights his dreams replayed the same brutal scene from ten or fifteen years ago — a woman doubled over in pain in a corner of the room, clutching her stomach or back, shrinking into herself, while the shadow of a heavy man towered over her. With every violent kick came the command: “Don’t you dare make a sound.”
Night after night, the same nightmare; waking in tears; drifting back to sleep; he was exhausted by it. Somehow, he wanted to free himself — to dream his own dreams now.
Dreams of the playful wind weaving through branches to the music of birds.
Dreams of damp, earthy footpaths carpeted with fallen leaves.
Dreams of squirrels darting across the track and vanishing into the bark of distant trees.
Often he would slip out of college and wander alone through the forest, carving out crooked, secret paths for himself. And at night he wondered why, when sleep closed his eyes, the beauty he saw during the day dissolved like mist.
His speech for tomorrow’s rally was also shaped in a kind of half-dream, muttered into his pillow.
“Friends of my town, this land belongs equally to humans and all other living beings.
If we imagine the total weight of all life as one kilogram, do these looters — these contractors of our shared forest — know how much of that weight belongs to human beings?
I’ll tell you: only ten grams .... one tola.
One tola, my friends!
So how is it possible that this one-tola contractor and his cronies can take over the entire land meant for all creatures? They are destroying homes — the birds’, the squirrels’, and… and the butterflies’.
They are cutting the wind that dances in the branches, and… and…”
He himself did not know what more he meant to say.

He never learned exactly how his mother’s marriage began or ended. Whether she was divorced, or sought dissolution herself, or simply fled from cruelty — he never asked, and no one ever offered answers. He was simply Rasheeda Madam’s son: living with her in a single-room home in a narrow lane of a low suburb. She taught the alphabet and counting to children in the nearby primary school. It was only through the whispers from other boys and their parents that he discovered who his father was.

His father lived in a three-storey house in the large colony nearby. A man of outward propriety, though unmarried — he certainly did not live alone. As he grew older, piecing together fragments from friends' conversations and his own observations, the boy understood that the man maintained “visits” — and houses in other cities as well. As a schoolboy he would quietly accept the occasional small gift from his father. But once he entered college, he hurled a packet of new clothes from his father — onto the ground. After that day, both father and son learned to lower their eyes and take a different route whenever they crossed paths in the bazaar.

Long after the strike had ended, he returned home on a freezing night soaked with fog. Blood had seeped through the bandage on his forehead; he pulled it off at the door and flung it into the drain outside. His mother opened the courtyard door. He covered his forehead with his palm and walked straight to his bed.
“I’m very tired, Ammi… I’ll eat in the morning,” he murmured, pulling the quilt over his head.

Lying rigidly in the darkness, he touched the wound. The pain and swelling were fresh, but the bleeding had stopped. Electricity was no stranger in that house — absence of it, even less so. At the beginning of every month, his mother’s small salary was stretched and tugged among competing needs. Ten kilos of flour and a few kilos of pulses always won. The thin wire that carried electricity from the neighbour’s house usually lost. There was no switch to turn the lone bulb on or off. On the good days, when the neighbour had been paid, the bulb glowed like a small oil lamp from sunset until dawn.

He replayed the events of the day. He remembered standing on the creaking wooden platform opposite the Forest Department office, beginning his speech as the young crowd surged with excitement. Their chants — “Won’t allow it!” and “Will not let them steal!” — nearly drowned out his megaphone.
Beyond the crowd he could see two lines of uniformed police. And behind them, in the office veranda, forest officials other police officers — and the contractors including his father. At the start of his speech, a faint smile had appeared on his father's face as he took a few steps forward. But was that smile pride? Or mockery?
He had no time to decide.

He could not recall whether the wound came from a stone, a policeman’s baton, or the megaphone hitting his own head in the chaos. He only remembered that soon he and several friends were locked in the police holding cell — all sitting quietly, heads bowed. He heard only one friend mutter:
“I’d applied to the Air Force, yaar… This damned lock-up has ruined everything.”
Whether the others were silent from exhaustion or regret, he could not tell.

Toward evening, the stillness of the police station broke — motorcycles, rickshaws, cars, footsteps, murmurs. Relatives of the arrested students had arrived with bail papers ... and by the time darkness settled, he was the only one left.
A weak bulb flickered to life in the cold room and suddenly he thought of his mother.
'What must she be thinking?
Has anyone told her?
Is she going from door to door, begging someone to stand surety for her son?'
Two tears rolled down his face and disappeared into the dust of the cement floor.
'How many others must have cried here before me?' he wondered.

It was long past the evening prayer when the cell door opened.
“Arsalan Parvez! You’re released on bail!”
He stepped outside.
Far down the empty road, only the receding red light of a motorcycle and its fading sputter remained.
No one was there to take him home.
Later, lying in bed, questions troubled him over and over:
Why had he rushed out of the cell?
Why hadn’t he gone to the front office to ask who had arranged his bail?
His mind answered quietly: “Poverty teaches us to accept circumstances without asking questions.”

Perhaps he would have thought all night, but just then a cat leapt onto his bed.
In winter, this half-tame alley cat often slipped through their imperfectly shut window, seeking warmth near their beds or stove.
“Come, little cat,” he whispered. “You can see in the dark. If anyone deserves a warm place tonight, it’s you.”
“Come — this is Noah’s Ark. Outside, the storm is fierce.
You, me, my mother — we are all travellers on this Ark.
And we must reach that far shore… the land where the sun rises.”

At dawn, his mother woke him. She had made roti and was chopping green coriander for chutney. In her trembling fingers, the sprig of coriander looked to him like the olive branch carried by the dove after Noah’s flood.
As he picked up his books to leave for college, he said:
“We are travellers, Ammi. And our home is Noah’s Ark.
This storm will pass.
In some green valley, at the rainbow’s edge, our Ark will come to rest.
You’ll see, Ammi… you’ll see…”
He himself knew nothing beyond that.

“The rainbow’s edge…?!”
Rasheeda Madam paused for a moment as the words passed through her mind.
But she remained silent, as always — whispering prayers for the son walking away toward college.

Riaz Akber
Australia