Aaqil Dada
عاقل دادا
आक़िल दादा
Riaz Akber
27 Dec 2025
عاقل دادا ہماری پچھلی گلی میں دودھ دہی کی دوکان کے برابر والے گھر میں رہتے تھے۔ اپنے بچپن سے میں نے انہیں سفید کھڑے پائجامے پر ہلکے نیلے رنگ کے بے داغ کرتے میں ہی دیکھا جس کے بٹن اوپر گردن تک بند ہوتے۔ بات کرتے وقت وہ اکثر اپنے سر کو اثبات کے اشارے کے طور پر ہلاتے اور ایسے میں ان کی داڑھی کے بال کرتے کے کلف دیے ہوئے سیدھی پٹی کے کالر سے ٹکرا کر اسطرح اونچے نیچے ہوتے جیسے وہ بھی دادا کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوں۔
پچھلے پچیس تیس سالوں میں محلے میں کیا کیا نہیں بدلا تھا۔ میں اور مجھ جیسے کئی اور لڑکپن سے چل کر آدھی جوانی گزار بیٹھے، برادے کی انگھیٹیوں کی جگہ مٹی کے تیل کے چولہے اور پھر گیس کے سٹوو آ گئے، ریڈیو کی سوئی گھمانا پرانی بات ہوئی، اور اب لوگ کیسٹ پر گیت سننے اور کہیں کہیں ٹی وی پر ڈرامے دیکھنے لگے، سامنے کے بازار میی ٹانگوں کا اڈا رکشا سٹینڈ بن گیا، اور سائیکلوں کی بجائے پھٹپھٹاتی موٹر سائیکلوں کو اندر صحن میں آنے جانے کے لئے گھروں کی دہلیزوں اور چبوتروں پر چھوٹی چھوٹی ڈھلوانیں ابھر آئیں۔ مگر کچھ نہیں بدلا تو وہ عاقل دادا کی سفید پائجامے اور نیلے کرتے کی یونیفارم۔ عاقل دادا پچپن ساٹھ کے پیٹے میں تو ہونگے اور اب یہ تو ناممکن ہے کہ اتنے برسوں میں وقت نے عاقل دادا کے چہرے پر کچھ لکیریں نہ کھینچی ہوں۔ مگر میں ان کے مخصوص لباس کے سوا کسی اور پہچان سے شناسائی نہ کر سکا۔
عاقل دادا کے لباس کے بارے میں محلے میں کئی کہانیاں چلتی تھیں۔ کچھ لوگ بتاتے کہ بٹوارے کے وقت خیریت سے بارڈر پار کرنے کی دعا کے ساتھ دادا نے زندگی بھر ایک سا لباس پہننے کی منت مانگی تھی۔ بعض کا کہنا تھا کہ ان کے والدین کی شادی کے سولہویں سال دادا کی اپنی پلوٹھی پیدائش ایک سفید پائجامے اور نیلے کرتے والے بزرگ کی دعا کا کرشمہ تھی۔ اسی وجہ سے بچپن ہی سے ان کے والدین نے انہیں سفید اور نیلا لباس پہنایا۔ مگر قبولیت کے سب سے قریب رائے شاید ان کے پاس کے گھر والے زیدی چاچا اور زبیدہ خالہ کی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیلا کرتہ اور سفید پائجامہ وہ آخری لباس تھا جو عاقل دادا کی مرحومہ بیوی نے ان کے لئے سیا تھا۔ اپنی بیوی کے گزرنے پر مہینوں تک دادا بس وہی کپڑے پہن کر غمزدہ گھومتے رہے۔ پھر جب چھیتڑے بن کر وہ اترے تو کسی خدا ترس نے ویسا ہی ایک اور لباس بنوا کر انہیں پہنا دیا۔ دھیرے دھیرے دادا نے از سرِ نو حواس پکڑے، مگر لباس کا انداز وہی رہا جو اب تک ہے۔
زبیدہ خالہ کے میکے والے اب بھی ہندوستان ہی میں رہتے تھے اور بٹوارے کے وقت وہ زیدی فیملی کی نو بیاہتا دلہن ہی ہونگی۔ وہ یہ بھی کہتی تھیں کہ زیدی خاندان کے کوئی تین ہفتے بعد عاقل دادا اپنی بی بی کے ہمراہ مہاجر کیمپ سے اس محلے میں پہنچے۔ ان کی آٹھ سالہ اکلوتی بیٹی پچھلے مہاجر کیمپ میں کھو گئی تھی جو پھر نہیں ملی۔ جب یہاں آئے تو بی بی پیٹ سے تھی- ابھی کئی مہینے باقی تھے مگر بٹوارے کے ہنگاموں اور سفر سے کچھ خرابی ہو گئی تھی۔ کچھ خون بھی رستا اور درد بھی اٹھتا۔ یہاں گھر میں ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی ایک سلائی مشین مل گئی تھی جسے چلا کر اس نے کپڑے سینے سلانے کا چھوٹا موٹا دھندا شروع کیا۔ بٹوارے کے بعد جو پہلی بقر عید آئی اس پر محلے کے کئی لوگوں نے اس سے اپنے کپڑوں کی سلائی بھی کروائی۔ کام گویا چل نکلا تھا مگر اس زچگی میں ہی بیچاری بیمار ہوئی اور چل بسی۔ اور تب سے عاقل دادا اکیلے ہی اس گھر میں رہتے رہے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں مجھے بھی ایک دو بار عاقل دادا کا گھر اندر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہ پرانی سلائی مشین اب تک ان کے ہاں ایک کمرے میں لکڑی کے ایک چھوٹے سے تخت پر دھری رہتی۔ ساتھ میں کپڑے کترنے کی ایک قینچی، اور اسی تخت پر مشین کے پیچھے بیٹھنے کے لئے ایک روئی بھری گدی۔ جیسے ابھی ہی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہو، اور جیسے ابھی اس نے واپس لوٹ کر باقی کی سلائی مکمل کرنی ہو۔ دراصل عاقل دادا نے اپنے گھر کو اپنی مرحوم ساتھی کی یاد کا ایک میوزیم سا بنا دیا تھا۔ سلائی کی مشین کے علاوہ برآمدے میں ایک طرف پیتل کے ایک تسلے میں کپڑے دھونے کے صابن کی ایک ٹکیہ، رسوئی میں مٹی کے لیپ کا چولہا اور اس کے اوپر تانبے کے پیندے والی ایک پتیلی بھی اسی میوزیم کا حصہ تھے۔ عاقل دادا اس میوزیم کا بہت خیال رکھتے۔ وقفے وقفے سے وہ چولہے کے لیپ کو تازہ کرتے اور اس میں آگ جلانے کی لکڑیوں کو ترتیب دیتے۔ اور تو اور، بلا ناغہ صبح وہ کچھ زنانہ اور مردانہ کپڑے نکال کر صحن کے آر پار لگی ہوئی الگنی پر پھیلاتے جیسے دھونے کا بعد سکھانے کو ڈالے ہوں، پھر ہینڈ پمپ چلا کر تانبے کی پتیلی میں پانی بھرتے اور اسے سلیقے سے اسی چولہے پر دھر دیتے جس میں برسوں سے آگ روشن نہیں ہوئی تھی۔ ان فرائض کی ادائیگی کے بعد دادا اکثر گھر کو تالا لگائے بنا باہر نکل جاتے۔ پھر شام کو لوٹتے تو کپڑے الگنی سے اٹھا کر احتیاط سے تہہ کرتے اور دیگچی خالی کر کے الٹی دھڑ دیتے۔ آندھی اور بارش کے موسم میں کبھی کبھی مَیں نے دادا کو جلدی جلدی گھر کی طرف لوٹ کر الگنی کے کپڑے اتارتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔
محلے سے کوئی میل بھر دور ایک قبرستان کی پچھلی ڈھلوان کے ایک کونے میں عاقل دادا کی بچھڑی ساتھی کی قبر بھی گویا اسی میوزیم کی ایک برانچ تھی۔ عاقل دادا کی مذہبی روایات کے مطابق اس کچی قبر پر کتبہ نہیں تھا، اور ایسی قبروں کے نشان دیر تک نہیں رہتے۔ مگر سردی گرمی یا برسات، مسجد میں عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد عاقل دادا روزانہ وہاں جاتے اور ایسے میں محلے کے لڑکوں بالوں میں سے اگر کوئی ساتھ ہونے کی کوشش کرتا تو گھرک کر اسے روک دیتے۔ جنہوں نے دور سے دیکھا وہ بتاتے تھے کہ دادا وہاں دیر تک نہیں رکتے۔ بس وہ قبر کو ذرا تھپکتے، مٹی کہیں سے اکھڑ رہی ہو تو برابر کرتے، کوئی گھاس یا جڑی بوٹی اگر سر نکال رہی ہو تو اسے نکال دیتے، اور پھر چند ہی منٹ میں لوٹ آتے۔ گویا اس قبر کی دیکھ بھال کو عاقل دادا نے اپنے روزانہ کے فرائض منصبی میں شامل کر لیا تھا۔ البتہ ہر سال برسات کے موسم کے بعد وہ گورکن سے توڑی ملی ہوئی چکنی مٹی کی ایک ڈھیری ضرور بنواتے، جیسی کچے مکانوں کی دیواروں کی مرمت کے وقت تیار ہوتی ہے۔ گورکن اس ڈھیری کے ساتھ ایک گھڑا پانی کا بھر کے قبر کے پاس رکھ دیتا، اور پھر دادا اپنے ہاتھوں سے اس مٹی کی مٹھیاں بھر بھر کے تمام قبر کی از سرِ نو تشکیل اور لیپ کا کام خود کرتے۔ اپنی ساتھی کی آخری آرامگاہ سے ان کا یہ انس دیکھ کر محلے کے بزرگوں نے گورکنوں کو اس قبر کے ساتھ والی جگہ خالی رکھنے کا کہہ رکھا تھا۔
عاقل دادا کے گھر میں چولہا جلتا نہ کپڑوں کی دھلائی ہوتی۔ بزاز سے وہ حسبِ خواہش سفید لٹھے اور نیلی پاپلین کے تھانوں سے پائجامے اور کرتے کا کپڑا الگ کروا کے برابر والے درزی کو سینے کے لئے دے دیتے۔ محلے سے ملحقہ بازار کی نکڑ پر جو ایک دو ہوٹل تھے وہیں روزانہ ناشتے، چائے، اور کھانے کے لئے جاتے اور دوسرے گاہکوں کی طرح اپنی پسند سے انتخاب کر کے کھاتے۔ دھوبی ان کے کپڑے دھوتا اور استری کر دیتا۔ اسی طرح گھر کی بجلی کا کنکشن ہمیشہ برابر والی دودھ دہی کی دوکان سے ساجھا ہی رہا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ تمام محلے میں کبھی کسی نے عاقل دادا سے سودا سلف یا کام کاج کے عوض پیسے نہیں لئے، اور انہوں نے بھی کبھی اپنی ذاتی ضرورت سے زیادہ کسی سے طلب نہیں کیا۔ اگر کوئی ان کو روک کر یا گھر جا کر اپنی طرف سے کچھ دینے کی کوشش کرتا تو وہ انکار کر دیتے۔ وہ بھکاری نہیں تھے۔ ایک طرح سے تمام محلہ ان کا اثاثہ تھا اور وہ تمام محلے کا اثاثہ۔ شاید اسی لئے احتراماً دادا کا نام ان پر خوب جچتا تھا۔
اگر عاقل دادا کا کوئی شوق تھا تو وہ تھا لوک کہانیاں سنانا، اور اس میں وہ ایسا سماں باندھ دیتے تھے کہ جیسے سب کچھ آنکھوں کے سامنے بیت رہا ہو۔ اس دور میں محلے میں ہر عمر کے افراد کا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں ادھر ادھر بیٹھک کرنا تقریباً ہر شام کا مشغلہ تھا۔ ایسے میں عاقل دادا گزرتے ہوئے نظر آتے تو سلام دعا کے بعد اکثر ان سے کہانی سنانے کی درخواست بھی کی جاتی جو، اگر مسجد میں اذان کا وقت قریب نہ ہوتا، تو بخوشی قبول بھی ہو جاتی، اور یوں دس پندھرہ منٹ کے لئے محفل کا رنگ بدل جاتا۔ بس ایک کہانی سنانے کے بعد دادا وہاں رکتے نہیں تھے، فوراً سلام کر کے چل دیتے۔ وہ اپنی کتھا میں واقعات کا منطقی تجزیہ بھی کرتے، اور ایسے موقعوں پر ان کی داڑھی کے بالوں کی کرتے کے کالر پر حرکت کے ساتھ ساتھ سننے والوں کے سر بھی اسی اثبات کی دھن میں ہلتے نظر آتے۔ اور یہ بھی تھا کہ کسی فراق کا قصہ بیان کرتے وقت ان کی آواز اور الفاظ کا سوز عروج پر ہوتا۔ مثلاً ایک دیو کے محل میں شہزادی کے محصور ہونے کی بات چلی تو دادا نے اس کے والدین کا دکھ کچھ یوں بتایا کہ سب ماحول ہی غمگین ہو گیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایسے جملے بھی کہے کہ سننے والوں کے دلوں میں اس دیو سے نفرت کی بجائے ایک ہمدردی جاگ گئی۔ 'اب وہ دیو بھی تو مجبور تھا میرے بھائیو۔ تنہائی کا روگ بہت برا ہوتا ہے۔ آخر اسے بھی تو دکھ سکھ میں کوئی ساتھی چاہئے تھا۔ اور پھر اس نے شہزادی کو کوئی آزار بھی تو نہیں دیا نا، پھولوں کی سیج پر رکھا اسے'۔ شاید عاقل دادا نے زندگی کی پیچ در پیچ گھتیوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔
بس ایک بات دادا کو سخت ناپسند تھی، اور وہ تھی کہانی کے دوران کسی کا توجہ نہ دینا یا کوئی اور بات نکال لانا۔ ایسی صورت میں انہیں منا کر کہانی مکمل کرنے کے لئے روکنا ناممکنات میں سے تھا۔ ہاں کسی دوسرے روز اسی محفل میں وہ پھر اسی بشاشت سے کہانی سنانے پر راضی ہو جاتے۔ عاقل دادا کی لوک کہانی سے توجہ ہٹنے کا ایک منظر میں نے اپنے گھر کی بیٹھک میں بھی دیکھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا جب چائے کی پیالیوں کے گرد ٹرانسسٹر کی آواز دھیمی کر کے ہم نے ان سے کہانی سنی۔ دادا کی شال کندھوں سے ڈھلک کر کرسی کے بازوئوں پر دونوں جانب لٹک گئی تھی، اور وہ کچھ آگے جھک کر داستان سنانے میں مگن تھے ۔۔۔۔ جدائی کی دردناک کہانی۔
'جنگ جاری رہے گی ۔۔۔۔'
ایسے میں ٹرانسسٹر سے آواز آئی۔ چونک کر کسی نے یہ آواز اونچی کر دی۔ سب دادا کو نظر انداز کر کے اس طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ ایسے میں وہ میرے پاس سے اٹھ کر چل دئے مگر جاتے وقت دھیمی آواز میں اپنے آپ سے کہے ہوئے ان کے جملے کم از کم میں نے ضرور سنے۔
'جنگ کب تک جاری رکھو گے بھائیو۔ اب کتنا اور لڑو گے۔ کاہے۔ لاکھوں مر گئے۔ لاکھوں لٹ گئے، بے گھر ہوئے۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ میری بیٹی، میری بیٹی'۔
اگلے روز صبح دودھ لینے کے لئے دادا کے گھر کے برابر والی دکان پر گیا تو ان کے دروازے پر محلے کے کچھ لوگ جمع دیکھے۔ معلوم نہیں کہ مجھے کسی نے کیا بتایا مگر جو میں نے سنا وہ یہ تھا کہ عاقل دادا کے پاس سانسوں کا اسلحہ ختم ہو گیا تھا اور اس لئے وہ زندگی کی جنگ مزید جاری نہیں رکھ سکے۔ عصر کی نماز کے بعد ہم نے انہیں ان کی ساتھی کی قبر کے پہلو میں دفنا دیا۔ بزاز نے ان کے لئے سفید کفن کے ساتھ جنازے کے اوپر ڈالنے کے لئے نیلی چادر بھی دی تھی جو ہم نے ان کے ساتھ ہی دفنا دی۔
اس روز دادا کی تدفین کا کام بخیر و خوبی ہوا تھا۔ محلے کے بہت سے لوگوں نے مسجد میں ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اپنے اپنے کاموں کو لوٹ گئے۔ بعض قبرستان تک ہمراہ بھی گئے، اور کچھ تو قبر کی تیاری کے بعد فاتحہ تک بھی ٹھہرے رہے۔ مگر اس کے بعد جتنا جلدی ہم محلے والوں نے انہیں بھلا دیا وہ مجھے بہت عجیب سا لگا۔ ایسے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ شاید اس زندگی کی ریت ہی کچھ ایسی ہے۔ کھیل تماشے میں ہم سب اپنے اپنے کرداروں کے لبادے پہننے، ڈائیلاگ یاد کرنے، اور سٹیج پر ان کی ادائیگی کی تیاری میں اتنے مگن رہتے ہیں کہ ارد گرد کا جیتا جاگنا سب نظر انداز ہو جاتا ہے۔
عاقل دادا کے چالیسویں پر میں ان کی قبر پر فاتحہ کے لئے گیا تھا۔ ان کی ساتھی کی چکنی مٹی میں توڑی ملی ہوئی محرابی شکل کی قبر کے پہلو میں ہم محلے والوں کا بنایا ہوا بھربھری مٹی کا ایک ڈھیر ۔۔۔ یہ ان کی آخری آماجگاہ تھا۔ ادھر دادا کے جانے کے بعد پڑوسی دودھ دہی والے نے ان کے گھر پر اپنا تالا ڈال دیا تھا۔ گاہے گاہے وہ دوکان کا فالتو سامان رکھنے کے لئے اسے کھولتا۔ ایک روز اندر میری نظر پڑی۔ صحن میں کھاٹ کی وہ بان، جسے دادا خوب سیدھا کسا ہوا رکھتے تھے، ڈھیلی پڑ کے جھول رہی تھی۔ وہ کپڑے جو شاید انہوں نے آخری روز الگنی پر ڈالے تھے، ان کا رنگ دھوپ میں ماند پڑ گیا تھا، اور کچھ تو ہوا سے اڑ کر صحن میں بکھر گئے تھے۔ ہاں دور کمرے کے اندر تخت پر وہ پرانی سلائی کی مشین اب بھی وہیں رکھی تھی جہاں پہلے تھی۔ جانے یہ احترام تھا یا تاسف, کہ تجسس کے باوجود میری نظریں ہٹیں اور جھک گئیں۔
عاقل دادا 1971 کے دسمبر میں گزرے تھے، اور اس کے اگلے برس وہ گلی، محلہ اور شہر مجھ سے چھوٹ گئے۔ دنیا کےکئی شہروں نے مجھے بہت کچھ دکھایا مگر جب آگرہ میں تاج محل جانے کا موقع ملا تو اچانک عاقل دادا یاد آ گئے، اور اس کے بعد سے اب تک نہیں بھولے۔ سوچتا ہوں کہ اس دھرتی پر سمٹتی پھیلتی ہوئی محبت میں کون سی یادگار زیادہ محترم ہوگی۔ دریا کے کنارے سنگِ مرمر کی فراخی یا ایک تنگ گلی میں چھوٹی اینٹ کا وہ مکان اور کچھ دور کے قبرستان میں دو کچی قبریں، جن پر روایتاً کوئی کتبہ نہیں۔
ریاض اکبر - آسٹریلیا
پچھلے پچیس تیس سالوں میں محلے میں کیا کیا نہیں بدلا تھا۔ میں اور مجھ جیسے کئی اور لڑکپن سے چل کر آدھی جوانی گزار بیٹھے، برادے کی انگھیٹیوں کی جگہ مٹی کے تیل کے چولہے اور پھر گیس کے سٹوو آ گئے، ریڈیو کی سوئی گھمانا پرانی بات ہوئی، اور اب لوگ کیسٹ پر گیت سننے اور کہیں کہیں ٹی وی پر ڈرامے دیکھنے لگے، سامنے کے بازار میی ٹانگوں کا اڈا رکشا سٹینڈ بن گیا، اور سائیکلوں کی بجائے پھٹپھٹاتی موٹر سائیکلوں کو اندر صحن میں آنے جانے کے لئے گھروں کی دہلیزوں اور چبوتروں پر چھوٹی چھوٹی ڈھلوانیں ابھر آئیں۔ مگر کچھ نہیں بدلا تو وہ عاقل دادا کی سفید پائجامے اور نیلے کرتے کی یونیفارم۔ عاقل دادا پچپن ساٹھ کے پیٹے میں تو ہونگے اور اب یہ تو ناممکن ہے کہ اتنے برسوں میں وقت نے عاقل دادا کے چہرے پر کچھ لکیریں نہ کھینچی ہوں۔ مگر میں ان کے مخصوص لباس کے سوا کسی اور پہچان سے شناسائی نہ کر سکا۔
عاقل دادا کے لباس کے بارے میں محلے میں کئی کہانیاں چلتی تھیں۔ کچھ لوگ بتاتے کہ بٹوارے کے وقت خیریت سے بارڈر پار کرنے کی دعا کے ساتھ دادا نے زندگی بھر ایک سا لباس پہننے کی منت مانگی تھی۔ بعض کا کہنا تھا کہ ان کے والدین کی شادی کے سولہویں سال دادا کی اپنی پلوٹھی پیدائش ایک سفید پائجامے اور نیلے کرتے والے بزرگ کی دعا کا کرشمہ تھی۔ اسی وجہ سے بچپن ہی سے ان کے والدین نے انہیں سفید اور نیلا لباس پہنایا۔ مگر قبولیت کے سب سے قریب رائے شاید ان کے پاس کے گھر والے زیدی چاچا اور زبیدہ خالہ کی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیلا کرتہ اور سفید پائجامہ وہ آخری لباس تھا جو عاقل دادا کی مرحومہ بیوی نے ان کے لئے سیا تھا۔ اپنی بیوی کے گزرنے پر مہینوں تک دادا بس وہی کپڑے پہن کر غمزدہ گھومتے رہے۔ پھر جب چھیتڑے بن کر وہ اترے تو کسی خدا ترس نے ویسا ہی ایک اور لباس بنوا کر انہیں پہنا دیا۔ دھیرے دھیرے دادا نے از سرِ نو حواس پکڑے، مگر لباس کا انداز وہی رہا جو اب تک ہے۔
زبیدہ خالہ کے میکے والے اب بھی ہندوستان ہی میں رہتے تھے اور بٹوارے کے وقت وہ زیدی فیملی کی نو بیاہتا دلہن ہی ہونگی۔ وہ یہ بھی کہتی تھیں کہ زیدی خاندان کے کوئی تین ہفتے بعد عاقل دادا اپنی بی بی کے ہمراہ مہاجر کیمپ سے اس محلے میں پہنچے۔ ان کی آٹھ سالہ اکلوتی بیٹی پچھلے مہاجر کیمپ میں کھو گئی تھی جو پھر نہیں ملی۔ جب یہاں آئے تو بی بی پیٹ سے تھی- ابھی کئی مہینے باقی تھے مگر بٹوارے کے ہنگاموں اور سفر سے کچھ خرابی ہو گئی تھی۔ کچھ خون بھی رستا اور درد بھی اٹھتا۔ یہاں گھر میں ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی ایک سلائی مشین مل گئی تھی جسے چلا کر اس نے کپڑے سینے سلانے کا چھوٹا موٹا دھندا شروع کیا۔ بٹوارے کے بعد جو پہلی بقر عید آئی اس پر محلے کے کئی لوگوں نے اس سے اپنے کپڑوں کی سلائی بھی کروائی۔ کام گویا چل نکلا تھا مگر اس زچگی میں ہی بیچاری بیمار ہوئی اور چل بسی۔ اور تب سے عاقل دادا اکیلے ہی اس گھر میں رہتے رہے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں مجھے بھی ایک دو بار عاقل دادا کا گھر اندر سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہ پرانی سلائی مشین اب تک ان کے ہاں ایک کمرے میں لکڑی کے ایک چھوٹے سے تخت پر دھری رہتی۔ ساتھ میں کپڑے کترنے کی ایک قینچی، اور اسی تخت پر مشین کے پیچھے بیٹھنے کے لئے ایک روئی بھری گدی۔ جیسے ابھی ہی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہو، اور جیسے ابھی اس نے واپس لوٹ کر باقی کی سلائی مکمل کرنی ہو۔ دراصل عاقل دادا نے اپنے گھر کو اپنی مرحوم ساتھی کی یاد کا ایک میوزیم سا بنا دیا تھا۔ سلائی کی مشین کے علاوہ برآمدے میں ایک طرف پیتل کے ایک تسلے میں کپڑے دھونے کے صابن کی ایک ٹکیہ، رسوئی میں مٹی کے لیپ کا چولہا اور اس کے اوپر تانبے کے پیندے والی ایک پتیلی بھی اسی میوزیم کا حصہ تھے۔ عاقل دادا اس میوزیم کا بہت خیال رکھتے۔ وقفے وقفے سے وہ چولہے کے لیپ کو تازہ کرتے اور اس میں آگ جلانے کی لکڑیوں کو ترتیب دیتے۔ اور تو اور، بلا ناغہ صبح وہ کچھ زنانہ اور مردانہ کپڑے نکال کر صحن کے آر پار لگی ہوئی الگنی پر پھیلاتے جیسے دھونے کا بعد سکھانے کو ڈالے ہوں، پھر ہینڈ پمپ چلا کر تانبے کی پتیلی میں پانی بھرتے اور اسے سلیقے سے اسی چولہے پر دھر دیتے جس میں برسوں سے آگ روشن نہیں ہوئی تھی۔ ان فرائض کی ادائیگی کے بعد دادا اکثر گھر کو تالا لگائے بنا باہر نکل جاتے۔ پھر شام کو لوٹتے تو کپڑے الگنی سے اٹھا کر احتیاط سے تہہ کرتے اور دیگچی خالی کر کے الٹی دھڑ دیتے۔ آندھی اور بارش کے موسم میں کبھی کبھی مَیں نے دادا کو جلدی جلدی گھر کی طرف لوٹ کر الگنی کے کپڑے اتارتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔
محلے سے کوئی میل بھر دور ایک قبرستان کی پچھلی ڈھلوان کے ایک کونے میں عاقل دادا کی بچھڑی ساتھی کی قبر بھی گویا اسی میوزیم کی ایک برانچ تھی۔ عاقل دادا کی مذہبی روایات کے مطابق اس کچی قبر پر کتبہ نہیں تھا، اور ایسی قبروں کے نشان دیر تک نہیں رہتے۔ مگر سردی گرمی یا برسات، مسجد میں عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد عاقل دادا روزانہ وہاں جاتے اور ایسے میں محلے کے لڑکوں بالوں میں سے اگر کوئی ساتھ ہونے کی کوشش کرتا تو گھرک کر اسے روک دیتے۔ جنہوں نے دور سے دیکھا وہ بتاتے تھے کہ دادا وہاں دیر تک نہیں رکتے۔ بس وہ قبر کو ذرا تھپکتے، مٹی کہیں سے اکھڑ رہی ہو تو برابر کرتے، کوئی گھاس یا جڑی بوٹی اگر سر نکال رہی ہو تو اسے نکال دیتے، اور پھر چند ہی منٹ میں لوٹ آتے۔ گویا اس قبر کی دیکھ بھال کو عاقل دادا نے اپنے روزانہ کے فرائض منصبی میں شامل کر لیا تھا۔ البتہ ہر سال برسات کے موسم کے بعد وہ گورکن سے توڑی ملی ہوئی چکنی مٹی کی ایک ڈھیری ضرور بنواتے، جیسی کچے مکانوں کی دیواروں کی مرمت کے وقت تیار ہوتی ہے۔ گورکن اس ڈھیری کے ساتھ ایک گھڑا پانی کا بھر کے قبر کے پاس رکھ دیتا، اور پھر دادا اپنے ہاتھوں سے اس مٹی کی مٹھیاں بھر بھر کے تمام قبر کی از سرِ نو تشکیل اور لیپ کا کام خود کرتے۔ اپنی ساتھی کی آخری آرامگاہ سے ان کا یہ انس دیکھ کر محلے کے بزرگوں نے گورکنوں کو اس قبر کے ساتھ والی جگہ خالی رکھنے کا کہہ رکھا تھا۔
عاقل دادا کے گھر میں چولہا جلتا نہ کپڑوں کی دھلائی ہوتی۔ بزاز سے وہ حسبِ خواہش سفید لٹھے اور نیلی پاپلین کے تھانوں سے پائجامے اور کرتے کا کپڑا الگ کروا کے برابر والے درزی کو سینے کے لئے دے دیتے۔ محلے سے ملحقہ بازار کی نکڑ پر جو ایک دو ہوٹل تھے وہیں روزانہ ناشتے، چائے، اور کھانے کے لئے جاتے اور دوسرے گاہکوں کی طرح اپنی پسند سے انتخاب کر کے کھاتے۔ دھوبی ان کے کپڑے دھوتا اور استری کر دیتا۔ اسی طرح گھر کی بجلی کا کنکشن ہمیشہ برابر والی دودھ دہی کی دوکان سے ساجھا ہی رہا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ تمام محلے میں کبھی کسی نے عاقل دادا سے سودا سلف یا کام کاج کے عوض پیسے نہیں لئے، اور انہوں نے بھی کبھی اپنی ذاتی ضرورت سے زیادہ کسی سے طلب نہیں کیا۔ اگر کوئی ان کو روک کر یا گھر جا کر اپنی طرف سے کچھ دینے کی کوشش کرتا تو وہ انکار کر دیتے۔ وہ بھکاری نہیں تھے۔ ایک طرح سے تمام محلہ ان کا اثاثہ تھا اور وہ تمام محلے کا اثاثہ۔ شاید اسی لئے احتراماً دادا کا نام ان پر خوب جچتا تھا۔
اگر عاقل دادا کا کوئی شوق تھا تو وہ تھا لوک کہانیاں سنانا، اور اس میں وہ ایسا سماں باندھ دیتے تھے کہ جیسے سب کچھ آنکھوں کے سامنے بیت رہا ہو۔ اس دور میں محلے میں ہر عمر کے افراد کا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں ادھر ادھر بیٹھک کرنا تقریباً ہر شام کا مشغلہ تھا۔ ایسے میں عاقل دادا گزرتے ہوئے نظر آتے تو سلام دعا کے بعد اکثر ان سے کہانی سنانے کی درخواست بھی کی جاتی جو، اگر مسجد میں اذان کا وقت قریب نہ ہوتا، تو بخوشی قبول بھی ہو جاتی، اور یوں دس پندھرہ منٹ کے لئے محفل کا رنگ بدل جاتا۔ بس ایک کہانی سنانے کے بعد دادا وہاں رکتے نہیں تھے، فوراً سلام کر کے چل دیتے۔ وہ اپنی کتھا میں واقعات کا منطقی تجزیہ بھی کرتے، اور ایسے موقعوں پر ان کی داڑھی کے بالوں کی کرتے کے کالر پر حرکت کے ساتھ ساتھ سننے والوں کے سر بھی اسی اثبات کی دھن میں ہلتے نظر آتے۔ اور یہ بھی تھا کہ کسی فراق کا قصہ بیان کرتے وقت ان کی آواز اور الفاظ کا سوز عروج پر ہوتا۔ مثلاً ایک دیو کے محل میں شہزادی کے محصور ہونے کی بات چلی تو دادا نے اس کے والدین کا دکھ کچھ یوں بتایا کہ سب ماحول ہی غمگین ہو گیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایسے جملے بھی کہے کہ سننے والوں کے دلوں میں اس دیو سے نفرت کی بجائے ایک ہمدردی جاگ گئی۔ 'اب وہ دیو بھی تو مجبور تھا میرے بھائیو۔ تنہائی کا روگ بہت برا ہوتا ہے۔ آخر اسے بھی تو دکھ سکھ میں کوئی ساتھی چاہئے تھا۔ اور پھر اس نے شہزادی کو کوئی آزار بھی تو نہیں دیا نا، پھولوں کی سیج پر رکھا اسے'۔ شاید عاقل دادا نے زندگی کی پیچ در پیچ گھتیوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔
بس ایک بات دادا کو سخت ناپسند تھی، اور وہ تھی کہانی کے دوران کسی کا توجہ نہ دینا یا کوئی اور بات نکال لانا۔ ایسی صورت میں انہیں منا کر کہانی مکمل کرنے کے لئے روکنا ناممکنات میں سے تھا۔ ہاں کسی دوسرے روز اسی محفل میں وہ پھر اسی بشاشت سے کہانی سنانے پر راضی ہو جاتے۔ عاقل دادا کی لوک کہانی سے توجہ ہٹنے کا ایک منظر میں نے اپنے گھر کی بیٹھک میں بھی دیکھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا جب چائے کی پیالیوں کے گرد ٹرانسسٹر کی آواز دھیمی کر کے ہم نے ان سے کہانی سنی۔ دادا کی شال کندھوں سے ڈھلک کر کرسی کے بازوئوں پر دونوں جانب لٹک گئی تھی، اور وہ کچھ آگے جھک کر داستان سنانے میں مگن تھے ۔۔۔۔ جدائی کی دردناک کہانی۔
'جنگ جاری رہے گی ۔۔۔۔'
ایسے میں ٹرانسسٹر سے آواز آئی۔ چونک کر کسی نے یہ آواز اونچی کر دی۔ سب دادا کو نظر انداز کر کے اس طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ ایسے میں وہ میرے پاس سے اٹھ کر چل دئے مگر جاتے وقت دھیمی آواز میں اپنے آپ سے کہے ہوئے ان کے جملے کم از کم میں نے ضرور سنے۔
'جنگ کب تک جاری رکھو گے بھائیو۔ اب کتنا اور لڑو گے۔ کاہے۔ لاکھوں مر گئے۔ لاکھوں لٹ گئے، بے گھر ہوئے۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ میری بیٹی، میری بیٹی'۔
اگلے روز صبح دودھ لینے کے لئے دادا کے گھر کے برابر والی دکان پر گیا تو ان کے دروازے پر محلے کے کچھ لوگ جمع دیکھے۔ معلوم نہیں کہ مجھے کسی نے کیا بتایا مگر جو میں نے سنا وہ یہ تھا کہ عاقل دادا کے پاس سانسوں کا اسلحہ ختم ہو گیا تھا اور اس لئے وہ زندگی کی جنگ مزید جاری نہیں رکھ سکے۔ عصر کی نماز کے بعد ہم نے انہیں ان کی ساتھی کی قبر کے پہلو میں دفنا دیا۔ بزاز نے ان کے لئے سفید کفن کے ساتھ جنازے کے اوپر ڈالنے کے لئے نیلی چادر بھی دی تھی جو ہم نے ان کے ساتھ ہی دفنا دی۔
اس روز دادا کی تدفین کا کام بخیر و خوبی ہوا تھا۔ محلے کے بہت سے لوگوں نے مسجد میں ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اپنے اپنے کاموں کو لوٹ گئے۔ بعض قبرستان تک ہمراہ بھی گئے، اور کچھ تو قبر کی تیاری کے بعد فاتحہ تک بھی ٹھہرے رہے۔ مگر اس کے بعد جتنا جلدی ہم محلے والوں نے انہیں بھلا دیا وہ مجھے بہت عجیب سا لگا۔ ایسے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ شاید اس زندگی کی ریت ہی کچھ ایسی ہے۔ کھیل تماشے میں ہم سب اپنے اپنے کرداروں کے لبادے پہننے، ڈائیلاگ یاد کرنے، اور سٹیج پر ان کی ادائیگی کی تیاری میں اتنے مگن رہتے ہیں کہ ارد گرد کا جیتا جاگنا سب نظر انداز ہو جاتا ہے۔
عاقل دادا کے چالیسویں پر میں ان کی قبر پر فاتحہ کے لئے گیا تھا۔ ان کی ساتھی کی چکنی مٹی میں توڑی ملی ہوئی محرابی شکل کی قبر کے پہلو میں ہم محلے والوں کا بنایا ہوا بھربھری مٹی کا ایک ڈھیر ۔۔۔ یہ ان کی آخری آماجگاہ تھا۔ ادھر دادا کے جانے کے بعد پڑوسی دودھ دہی والے نے ان کے گھر پر اپنا تالا ڈال دیا تھا۔ گاہے گاہے وہ دوکان کا فالتو سامان رکھنے کے لئے اسے کھولتا۔ ایک روز اندر میری نظر پڑی۔ صحن میں کھاٹ کی وہ بان، جسے دادا خوب سیدھا کسا ہوا رکھتے تھے، ڈھیلی پڑ کے جھول رہی تھی۔ وہ کپڑے جو شاید انہوں نے آخری روز الگنی پر ڈالے تھے، ان کا رنگ دھوپ میں ماند پڑ گیا تھا، اور کچھ تو ہوا سے اڑ کر صحن میں بکھر گئے تھے۔ ہاں دور کمرے کے اندر تخت پر وہ پرانی سلائی کی مشین اب بھی وہیں رکھی تھی جہاں پہلے تھی۔ جانے یہ احترام تھا یا تاسف, کہ تجسس کے باوجود میری نظریں ہٹیں اور جھک گئیں۔
عاقل دادا 1971 کے دسمبر میں گزرے تھے، اور اس کے اگلے برس وہ گلی، محلہ اور شہر مجھ سے چھوٹ گئے۔ دنیا کےکئی شہروں نے مجھے بہت کچھ دکھایا مگر جب آگرہ میں تاج محل جانے کا موقع ملا تو اچانک عاقل دادا یاد آ گئے، اور اس کے بعد سے اب تک نہیں بھولے۔ سوچتا ہوں کہ اس دھرتی پر سمٹتی پھیلتی ہوئی محبت میں کون سی یادگار زیادہ محترم ہوگی۔ دریا کے کنارے سنگِ مرمر کی فراخی یا ایک تنگ گلی میں چھوٹی اینٹ کا وہ مکان اور کچھ دور کے قبرستان میں دو کچی قبریں، جن پر روایتاً کوئی کتبہ نہیں۔
ریاض اکبر - آسٹریلیا
आक़िल दादा हमारी पिछली गली में दूध-दही की दुकान के बराबर वाले घर में रहते थे। अपने बचपन से मैंने उन्हें सफ़ेद खड़े पायजामे पर हल्के नीले रंग के बेदाग़ कुर्ते में ही देखा, जिसके बटन ऊपर गर्दन तक बंद रहते। बात करते समय वे अक्सर अपने सिर को स्वीकृति के संकेत में हिलाते, और ऐसे में उनकी दाढ़ी के बाल कुर्ते के कड़क इस्त्री किए हुए सीधे कॉलर से टकरा कर इस तरह ऊपर-नीचे होते, जैसे वे भी दादा की हाँ में हाँ मिला रहे हों।
पिछले पच्चीस-तीस वर्षों में मोहल्ले में क्या-क्या नहीं बदला था। मैं और मेरे जैसे कई लोग लड़कपन से चलकर आधी जवानी गुज़ार चुके थे। भूसे की अंगीठियों की जगह मिट्टी के तेल के चूल्हे आए और फिर गैस के स्टोव। रेडियो की सुई घुमाना बीती बात हो गई। अब लोग कैसेट पर गीत सुनने लगे थे और कहीं-कहीं टीवी पर धारावाहिक भी देखे जाने लगे थे। सामने के बाज़ार में ताँगों का अड्डा रिक्शा स्टैंड बन गया था, और साइकिलों की जगह फटफटाती मोटरसाइकिलों के आना-जाना आसान करने के लिए घरों की देहरी और चबूतरों पर छोटी-छोटी ढलानें उभर आई थीं। और यह असंभव है कि इतने वर्षों में समय ने उनके चेहरे पर कुछ लकीरें न खींची हों, मगर उनके उस विशेष पहनावे के अलावा मैं उन्हें किसी और पहचान से जोड़ ही नहीं पाया।
आक़िल दादा के पहनावे को लेकर मोहल्ले में कई कहानियाँ प्रचलित थीं। कुछ लोग कहते थे कि बँटवारे के समय सुरक्षित सीमा पार करने की दुआ के साथ दादा ने मन्नत मानी थी कि वे जीवन भर एक ही तरह का पहनावा पहनेंगे। कुछ का कहना था कि उनके माता-पिता की शादी के सोलहवें वर्ष दादा का जन्म एक ऐसे बुज़ुर्ग की दुआ का फल था, जो सफ़ेद पायजामा और नीला कुर्ता पहनता था। इसी कारण बचपन से ही उन्हें सफ़ेद-नीला पहनाया गया। लेकिन सच्चाई के सबसे क़रीब बात शायद पास के घर में रहने वाले ज़ैदी चाचा और ज़ुबैदा ख़ाला ही जानते थे। उनका कहना था कि नीला कुर्ता और सफ़ेद पायजामा वह आख़िरी जोड़ा था, जो आक़िल दादा की दिवंगत पत्नी ने उनके लिए सिया था। पत्नी के गुज़र जाने के बाद महीनों तक दादा वही कपड़े पहन कर ग़मज़दा भटकते रहे। जब वे कपड़े फट-घिस गए, तो किसी ईश्वर-भक्त ने वैसा ही एक और जोड़ा बनवा कर उन्हें पहना दिया। धीरे-धीरे दादा ने फिर से जीवन की पकड़ संभाली, मगर पहनावे का ढंग वही रहा।
ज़ुबैदा ख़ाला के मायके वाले आज भी भारत में रहते थे, और बँटवारे के समय वे ज़ैदी परिवार की नई-नवेली दुल्हन ही थीं। वे बताया करती थीं कि बँटवारे के लगभग तीन हफ़्ते बाद आक़िल दादा अपनी बीवी के साथ शरणार्थी शिविर से इस मोहल्ले में पहुँचे थे। उनकी आठ साल की इकलौती बेटी पिछले शिविर में खो गई थी, जो फिर कभी नहीं मिली। जब वे यहाँ पहुँचे, तो बीवी गर्भवती थीं — अभी कई महीने बाकी थे, मगर बँटवारे की अफ़रातफ़री और यात्रा की थकान से तबीयत बिगड़ गई थी। कुछ रक्तस्राव भी होता था और दर्द भी उठता था। घर में हिंदुओं द्वारा छोड़ी गई एक सिलाई मशीन मिल गई थी। उसी को चला कर उन्होंने कपड़े सिलाने का छोटा-मोटा काम शुरू किया। बँटवारे के बाद आई पहली बक़र-ईद पर मोहल्ले के कई लोगों ने अपने कपड़े उनसे सिलवाए। काम चल निकला, मगर उसी प्रसव के दौरान बेचारी बीमार पड़ीं और चल बसीं। तब से आक़िल दादा उसी घर में अकेले रहते आए।
पिछले कुछ वर्षों में मुझे भी एक-दो बार दादा का घर भीतर से देखने का अवसर मिला। वह पुरानी सिलाई मशीन आज भी एक कमरे में लकड़ी के छोटे से तख़्त पर रखी रहती थी। पास ही कपड़ा काटने की कैंची और मशीन के पीछे बैठने के लिए रूई भरी गद्दी। जैसे अभी-अभी कोई उठकर गया हो, और जैसे अभी लौटकर अधूरी सिलाई पूरी करनी हो। असल में आक़िल दादा ने अपने घर को अपनी दिवंगत साथी की स्मृति का एक संग्रहालय बना लिया था। सिलाई मशीन के अलावा बरामदे में पीतल के तसले में कपड़े धोने का साबुन, रसोई में मिट्टी का लेपा हुआ चूल्हा और उसके ऊपर ताँबे की तली वाली पतीली — सब उसी संग्रहालय का हिस्सा थे। दादा इस संग्रहालय की बड़ी देखभाल करते। समय-समय पर चूल्हे की मिट्टी नई करते, लकड़ियों को सलीके से जमाते। रोज़ सुबह बिना नागा कुछ स्त्री-पुरुषों के कपड़े निकालकर आँगन में लगी रस्सी पर फैलाते, जैसे धुलने के बाद सुखाने के लिए डाले गए हों। फिर हैंड-पंप चलाकर ताँबे की पतीली में पानी भरते और उसे उसी चूल्हे पर रख देते, जिसमें वर्षों से आग नहीं जली थी। इन सब कामों के बाद दादा अक्सर बिना ताला लगाए घर से निकल जाते। शाम को लौटकर कपड़े उतारते, तह करते और पतीली खाली कर उलटी रख देते। आँधी-बारिश में मैंने कई बार दादा को तेज़ी से घर लौटकर कपड़े समेटते भी देखा था।
मोहल्ले से कोई मील भर दूर एक कब्रिस्तान की पिछली ढलान के कोने में दादा की बिछड़ी हुई साथी की कच्ची क़ब्र भी उसी संग्रहालय की एक शाखा थी। उनकी धार्मिक परंपरा के अनुसार उस क़ब्र पर कोई पत्थर या शिलालेख नहीं था। मगर सर्दी-गर्मी या बरसात — मस्जिद में अस्र की नमाज़ के बाद दादा रोज़ वहाँ जाते। कोई लड़का साथ चलना चाहता तो वे सख़्ती से मना कर देते। जो दूर से देखते, कहते कि दादा वहाँ ज़्यादा देर नहीं रुकते। बस क़ब्र को थपथपाते, जहाँ मिट्टी उखड़ी होती उसे बराबर करते, कोई घास उग आई हो तो निकाल देते, और कुछ ही मिनटों में लौट आते। मानो उस क़ब्र की देखभाल उनके दैनिक कर्तव्यों में शामिल हो। हर साल बरसात के बाद वे कब्र खोदने वाले से भूसे मिली चिकनी मिट्टी की ढेरी बनवाते। पानी का घड़ा पास रख दिया जाता, और दादा अपने हाथों से पूरी क़ब्र की मरम्मत और लेप का काम करते। यह लगाव देख मोहल्ले के बुज़ुर्गों ने क़ब्र के पास की जगह खाली रखने को कह रखा था।
दादा के घर में न चूल्हा जलता था, न कपड़े धुलते। कपड़े बाज़ार से सिलवाए जाते, खाना पास के होटल में। धोबी कपड़े धो-इस्त्री कर देता। बिजली भी पड़ोस की दुकान से साझा थी। हैरत की बात यह थी कि मोहल्ले में किसी ने कभी दादा से कोई पैसा नहीं लिया, न उन्होंने किसी से ज़रूरत से ज़्यादा माँगा। पूरा मोहल्ला उनका सहारा था — और वे पूरे मोहल्ले का। शायद इसीलिए "दादा" की उपाधि उन पर इतनी अच्छी तरह से जंचती थी।
अगर आक़िल दादा का कोई शौक़ था, तो वह था लोक-कथाएँ सुनाना। और वह ऐसा समाँ बाँध देते थे कि लगता, सब कुछ आँखों के सामने ही घट रहा हो। उन दिनों मोहल्ले में हर उम्र के लोग छोटी-छोटी टोलियों में इधर-उधर बैठकर गपशप किया करते थे। यह लगभग हर शाम का मामूल था। ऐसे में जब आक़िल दादा उधर से गुज़रते दिखाई देते, तो सलाम-दुआ के बाद उनसे अक्सर कहानी सुनाने की फ़रमाइश भी की जाती। अगर मस्जिद में अज़ान का वक़्त क़रीब न होता, तो वे ख़ुशी-ख़ुशी यह फ़रमाइश मान लेते, और यों दस-पंद्रह मिनट के लिए पूरी महफ़िल का रंग ही बदल जाता।
एक कहानी सुना देने के बाद दादा वहाँ रुकते नहीं थे। फ़ौरन सलाम करके आगे बढ़ जाते। अपनी कथा में वे घटनाओं का तार्किक विश्लेषण भी करते, और ऐसे मौक़ों पर उनकी दाढ़ी के बाल, कुर्ते के कॉलर से टकराते हुए हिलते, तो साथ-साथ सुनने वालों के सिर भी उसी हामी की लय में हिलते नज़र आते। और यह भी था कि जब किसी जुदाई का क़िस्सा बयान करते, तो उनकी आवाज़ और अल्फ़ाज़ का सोज़ अपने शिखर पर होता। मसलन, किसी दैत्य के महल में एक राजकुमारी के क़ैद होने की बात चली, तो दादा ने उसके माता-पिता का दुख कुछ इस अंदाज़ में बयान किया कि पूरा माहौल ही ग़मगीन हो गया। मगर साथ ही उन्होंने ऐसे जुमले भी कहे कि सुनने वालों के दिलों में उस दैत्य के लिए नफ़रत के बजाय एक तरह की हमदर्दी जाग उठी।
“अब वह दैत्य भी तो मजबूर था, मेरे भाइयो। तन्हाई का रोग बहुत बुरा होता है। आख़िर उसे भी तो दुख-सुख में कोई साथी चाहिए था। और फिर उसने राजकुमारी को कोई तकलीफ़ भी तो नहीं दी — फूलों की सेज पर रखा था उसे।”
शायद आक़िल दादा ने ज़िंदगी की उलझी हुई गिरहों को बहुत क़रीब से देखा था।
बस एक बात उन्हें सख़्त नापसंद थी — कहानी के दौरान किसी का ध्यान न देना या कोई दूसरी बात छेड़ देना। ऐसी सूरत में उन्हें मना कर कहानी पूरी करवाने के लिए रोकना नामुमकिन हो जाता। हाँ, किसी और दिन, उसी महफ़िल में, वे फिर उसी ताज़गी और ख़ुशनुमा अंदाज़ से कहानी सुनाने पर राज़ी हो जाते।
आक़िल दादा की कथा से ध्यान भटकने का एक मंज़र मैंने अपने घर की बैठक में भी देखा। दिसंबर का महीना था। चाय की प्यालियों के गिर्द बैठे हम लोगों ने ट्रांजिस्टर की आवाज़ धीमी कर दी थी और दादा से कहानी सुन रहे थे। उनकी शाल कंधों से ढलककर कुर्सी के बाजुओं पर दोनों तरफ़ लटक गई थी, और वे कुछ आगे झुककर एक दर्दनाक जुदाई की दास्तान सुनाने में मग्न थे…
“जंग जारी रहेगी…”
इतने में ट्रांजिस्टर से यह आवाज़ उभरी। किसी ने चौंककर आवाज़ तेज़ कर दी। सब लोग दादा को नज़रअंदाज़ करके उधर ही मुतवज्जह हो गए। ऐसे में वे मेरे पास से उठकर चल दिए। मगर जाते-जाते, बहुत धीमी आवाज़ में, अपने आप से कहे गए उनके अल्फ़ाज़ कम-से-कम मैंने ज़रूर सुने—
“जंग कब तक जारी रखोगे, भाइयो… अब कितना और लड़ोगे… क्यों… लाखों मर गए, लाखों लुट गए, बेघर हो गए… और… और… मेरी बेटी… मेरी बेटी…”
अगली सुबह जब मैं दादाजी के घर के बगल वाली दुकान पर दूध खरीदने गया, तो मैंने देखा कि मोहल्ले के कुछ लोग उनके दरवाजे पर जमा थे। पता नहीं किसने मुझे क्या बताया, मगर जो मैंने सुना, वह यह था कि आक़िल दादा के पास साँसों का हथियार ख़त्म हो गया था, और इस तरह वे ज़िंदगी की जंग और आगे नहीं लड़ सके। असर की नमाज़ के बाद हमने उन्हें उनकी साथी की क़ब्र के पहलू में दफ़्न कर दिया। बज़्ज़ाज़ ने सफ़ेद कफ़न के साथ जनाज़े पर डालने के लिए एक नीली चादर भी दी थी, जिसे हमने उनके साथ ही दफ़्न कर दिया। उस दिन दादा की तदफ़ीन ख़ैर-ओ-ख़ूबी से हो गई। मोहल्ले के बहुत-से लोगों ने मस्जिद में उनकी नमाज़-ए-जनाज़ा पढ़ी और फिर अपने-अपने कामों में लग गए। कुछ लोग क़ब्रिस्तान तक साथ गए, और कुछ क़ब्र की तैयारी के बाद फ़ातिहा तक भी रुके। मगर इसके बाद जिस तेज़ी से हम मोहल्ले वालों ने उन्हें भुला दिया, वह मुझे बहुत अजीब लगा — जैसे कुछ हुआ ही न हो। शायद इस ज़िंदगी की रीत ही कुछ ऐसी है। इस तमाशे में हम सब अपने-अपने किरदारों के लिबास पहनने, संवाद याद करने, और मंच पर उनके निर्वाह की तैयारी में इतने मशग़ूल रहते हैं कि आसपास का जीता-जागता सब कुछ नज़रअंदाज़ हो जाता है।
आक़िल दादा के चालीसवें पर मैं उनकी क़ब्र पर फ़ातिहा के लिए गया। उनकी साथी की चिकनी मिट्टी से बनी, थोड़ी टूटी-सी मेहराबी क़ब्र के पास, हम मोहल्ले वालों की बनाई हुई भुरभुरी मिट्टी का एक ढेर — यही उनकी आख़िरी आरामगाह थी। दादा के जाने के बाद पड़ोसी दूध-दही वाले ने उनके घर पर ताला डाल दिया था। कभी-कभार वह दुकान का फ़ालतू सामान रखने के लिए उसे खोलता। एक दिन मेरी नज़र भीतर पड़ी। आँगन में खाट की वह बान, जिसे दादा बड़े सलीके से कसा रखते थे, अब ढीली पड़कर झूल रही थी। वे कपड़े, जो शायद उन्होंने आख़िरी दिन रस्सी पर डाले थे, धूप में फीके पड़ गए थे, और कुछ हवा से उड़कर आँगन में बिखर गए थे। हाँ, दूर वाले कमरे में तख़्त पर वह पुरानी सिलाई मशीन अब भी वहीं रखी थी, जहाँ पहले थी। पता नहीं यह एहतराम था या अफ़सोस — कि उत्सुकता के बावजूद मेरी नज़रें हट गईं और झुक गईं।
आक़िल दादा दिसंबर 1971 में गुज़र गए थे। और उसके अगले ही साल वह गली, वह मोहल्ला, वह शहर मुझसे छूट गया। दुनिया के कई शहरों ने मुझे बहुत कुछ दिखाया, मगर जब आगरा में ताजमहल देखने का मौक़ा मिला, तो अचानक आक़िल दादा याद आ गए — और फिर कभी नहीं भूले।
सोचता हूँ, इस धरती पर सिमटती-फैलती मोहब्बत में कौन-सी यादगार ज़्यादा सम्माननीय होगी —
नदी के किनारे संग-ए-मरमर की वह भव्यता, या एक तंग गली में ईंटों का छोटा-सा मकान, और कुछ दूर क़ब्रिस्तान में दो कच्ची क़ब्रें, जिन पर रिवायतन कोई क़त्बा नहीं।
रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
पिछले पच्चीस-तीस वर्षों में मोहल्ले में क्या-क्या नहीं बदला था। मैं और मेरे जैसे कई लोग लड़कपन से चलकर आधी जवानी गुज़ार चुके थे। भूसे की अंगीठियों की जगह मिट्टी के तेल के चूल्हे आए और फिर गैस के स्टोव। रेडियो की सुई घुमाना बीती बात हो गई। अब लोग कैसेट पर गीत सुनने लगे थे और कहीं-कहीं टीवी पर धारावाहिक भी देखे जाने लगे थे। सामने के बाज़ार में ताँगों का अड्डा रिक्शा स्टैंड बन गया था, और साइकिलों की जगह फटफटाती मोटरसाइकिलों के आना-जाना आसान करने के लिए घरों की देहरी और चबूतरों पर छोटी-छोटी ढलानें उभर आई थीं। और यह असंभव है कि इतने वर्षों में समय ने उनके चेहरे पर कुछ लकीरें न खींची हों, मगर उनके उस विशेष पहनावे के अलावा मैं उन्हें किसी और पहचान से जोड़ ही नहीं पाया।
आक़िल दादा के पहनावे को लेकर मोहल्ले में कई कहानियाँ प्रचलित थीं। कुछ लोग कहते थे कि बँटवारे के समय सुरक्षित सीमा पार करने की दुआ के साथ दादा ने मन्नत मानी थी कि वे जीवन भर एक ही तरह का पहनावा पहनेंगे। कुछ का कहना था कि उनके माता-पिता की शादी के सोलहवें वर्ष दादा का जन्म एक ऐसे बुज़ुर्ग की दुआ का फल था, जो सफ़ेद पायजामा और नीला कुर्ता पहनता था। इसी कारण बचपन से ही उन्हें सफ़ेद-नीला पहनाया गया। लेकिन सच्चाई के सबसे क़रीब बात शायद पास के घर में रहने वाले ज़ैदी चाचा और ज़ुबैदा ख़ाला ही जानते थे। उनका कहना था कि नीला कुर्ता और सफ़ेद पायजामा वह आख़िरी जोड़ा था, जो आक़िल दादा की दिवंगत पत्नी ने उनके लिए सिया था। पत्नी के गुज़र जाने के बाद महीनों तक दादा वही कपड़े पहन कर ग़मज़दा भटकते रहे। जब वे कपड़े फट-घिस गए, तो किसी ईश्वर-भक्त ने वैसा ही एक और जोड़ा बनवा कर उन्हें पहना दिया। धीरे-धीरे दादा ने फिर से जीवन की पकड़ संभाली, मगर पहनावे का ढंग वही रहा।
ज़ुबैदा ख़ाला के मायके वाले आज भी भारत में रहते थे, और बँटवारे के समय वे ज़ैदी परिवार की नई-नवेली दुल्हन ही थीं। वे बताया करती थीं कि बँटवारे के लगभग तीन हफ़्ते बाद आक़िल दादा अपनी बीवी के साथ शरणार्थी शिविर से इस मोहल्ले में पहुँचे थे। उनकी आठ साल की इकलौती बेटी पिछले शिविर में खो गई थी, जो फिर कभी नहीं मिली। जब वे यहाँ पहुँचे, तो बीवी गर्भवती थीं — अभी कई महीने बाकी थे, मगर बँटवारे की अफ़रातफ़री और यात्रा की थकान से तबीयत बिगड़ गई थी। कुछ रक्तस्राव भी होता था और दर्द भी उठता था। घर में हिंदुओं द्वारा छोड़ी गई एक सिलाई मशीन मिल गई थी। उसी को चला कर उन्होंने कपड़े सिलाने का छोटा-मोटा काम शुरू किया। बँटवारे के बाद आई पहली बक़र-ईद पर मोहल्ले के कई लोगों ने अपने कपड़े उनसे सिलवाए। काम चल निकला, मगर उसी प्रसव के दौरान बेचारी बीमार पड़ीं और चल बसीं। तब से आक़िल दादा उसी घर में अकेले रहते आए।
पिछले कुछ वर्षों में मुझे भी एक-दो बार दादा का घर भीतर से देखने का अवसर मिला। वह पुरानी सिलाई मशीन आज भी एक कमरे में लकड़ी के छोटे से तख़्त पर रखी रहती थी। पास ही कपड़ा काटने की कैंची और मशीन के पीछे बैठने के लिए रूई भरी गद्दी। जैसे अभी-अभी कोई उठकर गया हो, और जैसे अभी लौटकर अधूरी सिलाई पूरी करनी हो। असल में आक़िल दादा ने अपने घर को अपनी दिवंगत साथी की स्मृति का एक संग्रहालय बना लिया था। सिलाई मशीन के अलावा बरामदे में पीतल के तसले में कपड़े धोने का साबुन, रसोई में मिट्टी का लेपा हुआ चूल्हा और उसके ऊपर ताँबे की तली वाली पतीली — सब उसी संग्रहालय का हिस्सा थे। दादा इस संग्रहालय की बड़ी देखभाल करते। समय-समय पर चूल्हे की मिट्टी नई करते, लकड़ियों को सलीके से जमाते। रोज़ सुबह बिना नागा कुछ स्त्री-पुरुषों के कपड़े निकालकर आँगन में लगी रस्सी पर फैलाते, जैसे धुलने के बाद सुखाने के लिए डाले गए हों। फिर हैंड-पंप चलाकर ताँबे की पतीली में पानी भरते और उसे उसी चूल्हे पर रख देते, जिसमें वर्षों से आग नहीं जली थी। इन सब कामों के बाद दादा अक्सर बिना ताला लगाए घर से निकल जाते। शाम को लौटकर कपड़े उतारते, तह करते और पतीली खाली कर उलटी रख देते। आँधी-बारिश में मैंने कई बार दादा को तेज़ी से घर लौटकर कपड़े समेटते भी देखा था।
मोहल्ले से कोई मील भर दूर एक कब्रिस्तान की पिछली ढलान के कोने में दादा की बिछड़ी हुई साथी की कच्ची क़ब्र भी उसी संग्रहालय की एक शाखा थी। उनकी धार्मिक परंपरा के अनुसार उस क़ब्र पर कोई पत्थर या शिलालेख नहीं था। मगर सर्दी-गर्मी या बरसात — मस्जिद में अस्र की नमाज़ के बाद दादा रोज़ वहाँ जाते। कोई लड़का साथ चलना चाहता तो वे सख़्ती से मना कर देते। जो दूर से देखते, कहते कि दादा वहाँ ज़्यादा देर नहीं रुकते। बस क़ब्र को थपथपाते, जहाँ मिट्टी उखड़ी होती उसे बराबर करते, कोई घास उग आई हो तो निकाल देते, और कुछ ही मिनटों में लौट आते। मानो उस क़ब्र की देखभाल उनके दैनिक कर्तव्यों में शामिल हो। हर साल बरसात के बाद वे कब्र खोदने वाले से भूसे मिली चिकनी मिट्टी की ढेरी बनवाते। पानी का घड़ा पास रख दिया जाता, और दादा अपने हाथों से पूरी क़ब्र की मरम्मत और लेप का काम करते। यह लगाव देख मोहल्ले के बुज़ुर्गों ने क़ब्र के पास की जगह खाली रखने को कह रखा था।
दादा के घर में न चूल्हा जलता था, न कपड़े धुलते। कपड़े बाज़ार से सिलवाए जाते, खाना पास के होटल में। धोबी कपड़े धो-इस्त्री कर देता। बिजली भी पड़ोस की दुकान से साझा थी। हैरत की बात यह थी कि मोहल्ले में किसी ने कभी दादा से कोई पैसा नहीं लिया, न उन्होंने किसी से ज़रूरत से ज़्यादा माँगा। पूरा मोहल्ला उनका सहारा था — और वे पूरे मोहल्ले का। शायद इसीलिए "दादा" की उपाधि उन पर इतनी अच्छी तरह से जंचती थी।
अगर आक़िल दादा का कोई शौक़ था, तो वह था लोक-कथाएँ सुनाना। और वह ऐसा समाँ बाँध देते थे कि लगता, सब कुछ आँखों के सामने ही घट रहा हो। उन दिनों मोहल्ले में हर उम्र के लोग छोटी-छोटी टोलियों में इधर-उधर बैठकर गपशप किया करते थे। यह लगभग हर शाम का मामूल था। ऐसे में जब आक़िल दादा उधर से गुज़रते दिखाई देते, तो सलाम-दुआ के बाद उनसे अक्सर कहानी सुनाने की फ़रमाइश भी की जाती। अगर मस्जिद में अज़ान का वक़्त क़रीब न होता, तो वे ख़ुशी-ख़ुशी यह फ़रमाइश मान लेते, और यों दस-पंद्रह मिनट के लिए पूरी महफ़िल का रंग ही बदल जाता।
एक कहानी सुना देने के बाद दादा वहाँ रुकते नहीं थे। फ़ौरन सलाम करके आगे बढ़ जाते। अपनी कथा में वे घटनाओं का तार्किक विश्लेषण भी करते, और ऐसे मौक़ों पर उनकी दाढ़ी के बाल, कुर्ते के कॉलर से टकराते हुए हिलते, तो साथ-साथ सुनने वालों के सिर भी उसी हामी की लय में हिलते नज़र आते। और यह भी था कि जब किसी जुदाई का क़िस्सा बयान करते, तो उनकी आवाज़ और अल्फ़ाज़ का सोज़ अपने शिखर पर होता। मसलन, किसी दैत्य के महल में एक राजकुमारी के क़ैद होने की बात चली, तो दादा ने उसके माता-पिता का दुख कुछ इस अंदाज़ में बयान किया कि पूरा माहौल ही ग़मगीन हो गया। मगर साथ ही उन्होंने ऐसे जुमले भी कहे कि सुनने वालों के दिलों में उस दैत्य के लिए नफ़रत के बजाय एक तरह की हमदर्दी जाग उठी।
“अब वह दैत्य भी तो मजबूर था, मेरे भाइयो। तन्हाई का रोग बहुत बुरा होता है। आख़िर उसे भी तो दुख-सुख में कोई साथी चाहिए था। और फिर उसने राजकुमारी को कोई तकलीफ़ भी तो नहीं दी — फूलों की सेज पर रखा था उसे।”
शायद आक़िल दादा ने ज़िंदगी की उलझी हुई गिरहों को बहुत क़रीब से देखा था।
बस एक बात उन्हें सख़्त नापसंद थी — कहानी के दौरान किसी का ध्यान न देना या कोई दूसरी बात छेड़ देना। ऐसी सूरत में उन्हें मना कर कहानी पूरी करवाने के लिए रोकना नामुमकिन हो जाता। हाँ, किसी और दिन, उसी महफ़िल में, वे फिर उसी ताज़गी और ख़ुशनुमा अंदाज़ से कहानी सुनाने पर राज़ी हो जाते।
आक़िल दादा की कथा से ध्यान भटकने का एक मंज़र मैंने अपने घर की बैठक में भी देखा। दिसंबर का महीना था। चाय की प्यालियों के गिर्द बैठे हम लोगों ने ट्रांजिस्टर की आवाज़ धीमी कर दी थी और दादा से कहानी सुन रहे थे। उनकी शाल कंधों से ढलककर कुर्सी के बाजुओं पर दोनों तरफ़ लटक गई थी, और वे कुछ आगे झुककर एक दर्दनाक जुदाई की दास्तान सुनाने में मग्न थे…
“जंग जारी रहेगी…”
इतने में ट्रांजिस्टर से यह आवाज़ उभरी। किसी ने चौंककर आवाज़ तेज़ कर दी। सब लोग दादा को नज़रअंदाज़ करके उधर ही मुतवज्जह हो गए। ऐसे में वे मेरे पास से उठकर चल दिए। मगर जाते-जाते, बहुत धीमी आवाज़ में, अपने आप से कहे गए उनके अल्फ़ाज़ कम-से-कम मैंने ज़रूर सुने—
“जंग कब तक जारी रखोगे, भाइयो… अब कितना और लड़ोगे… क्यों… लाखों मर गए, लाखों लुट गए, बेघर हो गए… और… और… मेरी बेटी… मेरी बेटी…”
अगली सुबह जब मैं दादाजी के घर के बगल वाली दुकान पर दूध खरीदने गया, तो मैंने देखा कि मोहल्ले के कुछ लोग उनके दरवाजे पर जमा थे। पता नहीं किसने मुझे क्या बताया, मगर जो मैंने सुना, वह यह था कि आक़िल दादा के पास साँसों का हथियार ख़त्म हो गया था, और इस तरह वे ज़िंदगी की जंग और आगे नहीं लड़ सके। असर की नमाज़ के बाद हमने उन्हें उनकी साथी की क़ब्र के पहलू में दफ़्न कर दिया। बज़्ज़ाज़ ने सफ़ेद कफ़न के साथ जनाज़े पर डालने के लिए एक नीली चादर भी दी थी, जिसे हमने उनके साथ ही दफ़्न कर दिया। उस दिन दादा की तदफ़ीन ख़ैर-ओ-ख़ूबी से हो गई। मोहल्ले के बहुत-से लोगों ने मस्जिद में उनकी नमाज़-ए-जनाज़ा पढ़ी और फिर अपने-अपने कामों में लग गए। कुछ लोग क़ब्रिस्तान तक साथ गए, और कुछ क़ब्र की तैयारी के बाद फ़ातिहा तक भी रुके। मगर इसके बाद जिस तेज़ी से हम मोहल्ले वालों ने उन्हें भुला दिया, वह मुझे बहुत अजीब लगा — जैसे कुछ हुआ ही न हो। शायद इस ज़िंदगी की रीत ही कुछ ऐसी है। इस तमाशे में हम सब अपने-अपने किरदारों के लिबास पहनने, संवाद याद करने, और मंच पर उनके निर्वाह की तैयारी में इतने मशग़ूल रहते हैं कि आसपास का जीता-जागता सब कुछ नज़रअंदाज़ हो जाता है।
आक़िल दादा के चालीसवें पर मैं उनकी क़ब्र पर फ़ातिहा के लिए गया। उनकी साथी की चिकनी मिट्टी से बनी, थोड़ी टूटी-सी मेहराबी क़ब्र के पास, हम मोहल्ले वालों की बनाई हुई भुरभुरी मिट्टी का एक ढेर — यही उनकी आख़िरी आरामगाह थी। दादा के जाने के बाद पड़ोसी दूध-दही वाले ने उनके घर पर ताला डाल दिया था। कभी-कभार वह दुकान का फ़ालतू सामान रखने के लिए उसे खोलता। एक दिन मेरी नज़र भीतर पड़ी। आँगन में खाट की वह बान, जिसे दादा बड़े सलीके से कसा रखते थे, अब ढीली पड़कर झूल रही थी। वे कपड़े, जो शायद उन्होंने आख़िरी दिन रस्सी पर डाले थे, धूप में फीके पड़ गए थे, और कुछ हवा से उड़कर आँगन में बिखर गए थे। हाँ, दूर वाले कमरे में तख़्त पर वह पुरानी सिलाई मशीन अब भी वहीं रखी थी, जहाँ पहले थी। पता नहीं यह एहतराम था या अफ़सोस — कि उत्सुकता के बावजूद मेरी नज़रें हट गईं और झुक गईं।
आक़िल दादा दिसंबर 1971 में गुज़र गए थे। और उसके अगले ही साल वह गली, वह मोहल्ला, वह शहर मुझसे छूट गया। दुनिया के कई शहरों ने मुझे बहुत कुछ दिखाया, मगर जब आगरा में ताजमहल देखने का मौक़ा मिला, तो अचानक आक़िल दादा याद आ गए — और फिर कभी नहीं भूले।
सोचता हूँ, इस धरती पर सिमटती-फैलती मोहब्बत में कौन-सी यादगार ज़्यादा सम्माननीय होगी —
नदी के किनारे संग-ए-मरमर की वह भव्यता, या एक तंग गली में ईंटों का छोटा-सा मकान, और कुछ दूर क़ब्रिस्तान में दो कच्ची क़ब्रें, जिन पर रिवायतन कोई क़त्बा नहीं।
रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
(This story is set in a South Asian neighbourhood in the decades following Partition of India.)
Aaqil Dada lived in the house next to the milk-and-yoghurt shop in our back lane. From my earliest childhood, I remember him in the same clothes: a spotless pale-blue kurta worn over white, stiffly pressed pyjamas, the buttons fastened right up to his neck. When he spoke, he often nodded in affirmation, and then the hairs of his beard would brush against the sharply starched collar, rising and falling as if they too were agreeing with him.
Over the past twenty-five or thirty years, almost everything in the neighbourhood had changed. I, like many others, had crossed from boyhood into early middle age. Wood-fired braziers gave way to kerosene stoves, then to gas cookers. Turning the dial of a radio became a thing of the past. People began listening to songs on cassette tapes, and some even started watching television dramas. The horse-carriage stand in the market became a rickshaw stop. Small concrete ramps appeared on doorsteps and courtyards so that sputtering motorcycles could replace bicycles. Yet one thing never changed: Aaqil Dada’s uniform of white pyjamas and a blue kurta. He must have been in his late fifties or early sixties, and it was impossible that time had not drawn lines across his face. Still, apart from his clothes, I could never recognise him through any other marker of age.
Many stories circulated in the neighbourhood about his attire. Some said that during the upheaval of Partition, he had vowed to wear the same kind of clothes all his life if he crossed the border safely. Others believed his birth—sixteen years into his parents’ marriage—was itself the result of a blessing from an elderly man dressed in white and blue, and so his parents dressed him the same way from childhood.
The account closest to the truth, however, came from his neighbours, Zaidi Chacha and Zubaida Khala. They said the blue kurta and white pyjamas were the last clothes Aaqil Dada’s late wife had stitched for him. After her death, he wandered for months wearing only those clothes, sunk in grief. When they eventually fell into rags, a kind soul had another identical set made for him. Slowly, Dada returned to life—but his dress never changed.
Zubaida Khala’s family still lived in India, and at the time of Partition she herself had been a newly married bride. She recalled that about three weeks after the division of the land, Aaqil Dada arrived in the neighbourhood with his wife from a refugee camp. Their only daughter, eight years old, had been lost in the previous camp and was never found again.
When they arrived, his wife was pregnant—months still remained—but the chaos of migration had taken its toll. She suffered bleeding and pain. In their house, they found a sewing machine abandoned by the Hindu family that had fled. Using it, she began a small tailoring business. When the first Eid after Partition arrived, many neighbours had their clothes stitched by her. Work picked up—but due to complications of pregnancy , she fell seriously ill and passed away. From then on, Aaqil Dada lived alone in that house.
In later years, I occasionally saw the inside of his home. The old sewing machine still rested on a small wooden platform in one room. Beside it lay a pair of fabric scissors, and behind it a cotton-filled cushion to sit on—everything arranged as though someone had just stepped away, as though she might return to finish the stitching. In truth, Aaqil Dada had turned his home into a museum of memory. Alongside the sewing machine, a brass basin with a bar of washing soap sat in the veranda. In the kitchen, a clay-plastered stove and a copper-bottomed pot rested quietly. He tended this museum with devotion—renewing the clay on the stove, arranging firewood, even spreading men’s and women’s clothes on the washing line every morning, as if freshly washed. He would fill the copper pot with water and place it carefully on the stove where no fire had burned for years. After these rituals, he often left the house unlocked. In the evenings, he returned, folded the clothes neatly, emptied the pot, and turned it upside down. During storms, I sometimes saw him hurry back to take the clothes down from the line.
About a mile from the neighbourhood, at the far edge of a cemetery, lay the grave of his lost companion—another branch of his private museum. According to his religious tradition, the grave bore no marker; such graves fade quickly. Yet in heat or cold, rain or sun, after afternoon prayers, Aaqil Dada went there every day. If a neighbourhood boy tried to accompany him, he firmly refused. Those who watched from a distance said he never stayed long. He would gently pat the grave, smooth any loosened soil, remove weeds, and return within minutes. Caring for the grave had become one of his daily duties. Each year after the monsoon, he would have fresh clay mixed with straw prepared, bring water, and personally replaster the grave by hand. Moved by this devotion, the elders ensured that the adjoining burial space remained empty.
Aaqil Dada never cooked at home, nor washed clothes. He selected cloth from the fabric merchant and had his pyjamas and kurtas stitched by a tailor. He ate at small roadside eateries, choosing his meals like any other customer. A washerman cleaned and pressed his clothes. Even electricity for his house was shared from the dairy shop next door. Strangely, no one in the neighbourhood ever charged him money for errands or services, and he never asked for more than he needed. When someone tried to offer help, he politely refused. He was not a beggar. In a way, the entire neighbourhood was his wealth—and he was the neighbourhood’s. Perhaps that is why the title “Dada,” grandfather, suited him so well.
If Aaqil Dada had a passion, it was storytelling. His folk tales unfolded so vividly that they felt real. In those days, people of all ages gathered in small groups every evening. When Dada passed by, someone would ask for a story—provided the call to prayer was not imminent—then for ten or fifteen minutes, the gathering would be transformed. He never lingered after finishing a story. He analysed events logically, and as his beard brushed against his collar, listeners’ heads nodded in rhythm. When narrating separation, his voice trembled with pain. Once, while describing a princess imprisoned by a demon, he spoke of the parents’ sorrow so movingly that the atmosphere grew heavy with grief. Yet he also softened the demon:
“He too was helpless, my brothers. Loneliness is a cruel disease. He needed a companion. And he never harmed the princess—he placed her on a bed of flowers.”
Perhaps Aaqil Dada had seen life’s tangled paths too closely.
One thing, however, he could not tolerate—distraction during a story. If attention drifted, he would leave, impossible to persuade otherwise. On another day, he would return with the same warmth. I once saw such a moment in my own home. It was December. We lowered the transistor’s volume and listened as Dada leaned forward, telling a heartbreaking tale of separation. His shawl had slipped from his shoulders, draping over the chair arms. Then the radio announced,
“The war will continue…”
Someone turned the volume up. Everyone turned their attention to the news. Dada stood up and left. As he passed me, I heard him murmur:
“How long will you keep fighting, my brothers? How much more? Millions dead. Millions uprooted. And… and… my daughter, my daughter.”
The next morning, when I went to buy milk, people were gathered outside his door - softly talking with one another. What I understood was this: Aaqil Dada had run out of breath. He could no longer continue life’s battle. After afternoon prayers, we buried him beside his companion. The cloth merchant provided a blue sheet to place over his shroud, and we buried that with him too. His funeral passed quietly and with dignity. People returned to their lives. What struck me was how quickly we forgot him—almost as if nothing had happened. Perhaps that is the way of life. We become so absorbed in playing our assigned roles that we ignore the living presence around us.
On the fortieth day after his death, I visited his grave. Beside his companion’s smooth, arched mound lay a crumbling pile of earth—his final resting place. The neighbour locked his house and used it for storage. One day, I looked inside. The woven bed sagged. Clothes left on the line had faded in the sun, some blown into the courtyard. Only the old sewing machine remained untouched. Out of respect—or perhaps sorrow—I lowered my eyes.
Aaqil Dada died in December 1971. The following year, I left that lane, that neighbourhood, that city. I have seen many cities since. Yet when I visited the Taj Mahal in Agra, he came back to me suddenly—and has never left my thoughts. I wonder which memorial holds greater dignity: marble by a riverbank, or a small brick house in a narrow lane, and two unmarked graves in a distant cemetery.
Riaz Akber
Australia
Aaqil Dada lived in the house next to the milk-and-yoghurt shop in our back lane. From my earliest childhood, I remember him in the same clothes: a spotless pale-blue kurta worn over white, stiffly pressed pyjamas, the buttons fastened right up to his neck. When he spoke, he often nodded in affirmation, and then the hairs of his beard would brush against the sharply starched collar, rising and falling as if they too were agreeing with him.
Over the past twenty-five or thirty years, almost everything in the neighbourhood had changed. I, like many others, had crossed from boyhood into early middle age. Wood-fired braziers gave way to kerosene stoves, then to gas cookers. Turning the dial of a radio became a thing of the past. People began listening to songs on cassette tapes, and some even started watching television dramas. The horse-carriage stand in the market became a rickshaw stop. Small concrete ramps appeared on doorsteps and courtyards so that sputtering motorcycles could replace bicycles. Yet one thing never changed: Aaqil Dada’s uniform of white pyjamas and a blue kurta. He must have been in his late fifties or early sixties, and it was impossible that time had not drawn lines across his face. Still, apart from his clothes, I could never recognise him through any other marker of age.
Many stories circulated in the neighbourhood about his attire. Some said that during the upheaval of Partition, he had vowed to wear the same kind of clothes all his life if he crossed the border safely. Others believed his birth—sixteen years into his parents’ marriage—was itself the result of a blessing from an elderly man dressed in white and blue, and so his parents dressed him the same way from childhood.
The account closest to the truth, however, came from his neighbours, Zaidi Chacha and Zubaida Khala. They said the blue kurta and white pyjamas were the last clothes Aaqil Dada’s late wife had stitched for him. After her death, he wandered for months wearing only those clothes, sunk in grief. When they eventually fell into rags, a kind soul had another identical set made for him. Slowly, Dada returned to life—but his dress never changed.
Zubaida Khala’s family still lived in India, and at the time of Partition she herself had been a newly married bride. She recalled that about three weeks after the division of the land, Aaqil Dada arrived in the neighbourhood with his wife from a refugee camp. Their only daughter, eight years old, had been lost in the previous camp and was never found again.
When they arrived, his wife was pregnant—months still remained—but the chaos of migration had taken its toll. She suffered bleeding and pain. In their house, they found a sewing machine abandoned by the Hindu family that had fled. Using it, she began a small tailoring business. When the first Eid after Partition arrived, many neighbours had their clothes stitched by her. Work picked up—but due to complications of pregnancy , she fell seriously ill and passed away. From then on, Aaqil Dada lived alone in that house.
In later years, I occasionally saw the inside of his home. The old sewing machine still rested on a small wooden platform in one room. Beside it lay a pair of fabric scissors, and behind it a cotton-filled cushion to sit on—everything arranged as though someone had just stepped away, as though she might return to finish the stitching. In truth, Aaqil Dada had turned his home into a museum of memory. Alongside the sewing machine, a brass basin with a bar of washing soap sat in the veranda. In the kitchen, a clay-plastered stove and a copper-bottomed pot rested quietly. He tended this museum with devotion—renewing the clay on the stove, arranging firewood, even spreading men’s and women’s clothes on the washing line every morning, as if freshly washed. He would fill the copper pot with water and place it carefully on the stove where no fire had burned for years. After these rituals, he often left the house unlocked. In the evenings, he returned, folded the clothes neatly, emptied the pot, and turned it upside down. During storms, I sometimes saw him hurry back to take the clothes down from the line.
About a mile from the neighbourhood, at the far edge of a cemetery, lay the grave of his lost companion—another branch of his private museum. According to his religious tradition, the grave bore no marker; such graves fade quickly. Yet in heat or cold, rain or sun, after afternoon prayers, Aaqil Dada went there every day. If a neighbourhood boy tried to accompany him, he firmly refused. Those who watched from a distance said he never stayed long. He would gently pat the grave, smooth any loosened soil, remove weeds, and return within minutes. Caring for the grave had become one of his daily duties. Each year after the monsoon, he would have fresh clay mixed with straw prepared, bring water, and personally replaster the grave by hand. Moved by this devotion, the elders ensured that the adjoining burial space remained empty.
Aaqil Dada never cooked at home, nor washed clothes. He selected cloth from the fabric merchant and had his pyjamas and kurtas stitched by a tailor. He ate at small roadside eateries, choosing his meals like any other customer. A washerman cleaned and pressed his clothes. Even electricity for his house was shared from the dairy shop next door. Strangely, no one in the neighbourhood ever charged him money for errands or services, and he never asked for more than he needed. When someone tried to offer help, he politely refused. He was not a beggar. In a way, the entire neighbourhood was his wealth—and he was the neighbourhood’s. Perhaps that is why the title “Dada,” grandfather, suited him so well.
If Aaqil Dada had a passion, it was storytelling. His folk tales unfolded so vividly that they felt real. In those days, people of all ages gathered in small groups every evening. When Dada passed by, someone would ask for a story—provided the call to prayer was not imminent—then for ten or fifteen minutes, the gathering would be transformed. He never lingered after finishing a story. He analysed events logically, and as his beard brushed against his collar, listeners’ heads nodded in rhythm. When narrating separation, his voice trembled with pain. Once, while describing a princess imprisoned by a demon, he spoke of the parents’ sorrow so movingly that the atmosphere grew heavy with grief. Yet he also softened the demon:
“He too was helpless, my brothers. Loneliness is a cruel disease. He needed a companion. And he never harmed the princess—he placed her on a bed of flowers.”
Perhaps Aaqil Dada had seen life’s tangled paths too closely.
One thing, however, he could not tolerate—distraction during a story. If attention drifted, he would leave, impossible to persuade otherwise. On another day, he would return with the same warmth. I once saw such a moment in my own home. It was December. We lowered the transistor’s volume and listened as Dada leaned forward, telling a heartbreaking tale of separation. His shawl had slipped from his shoulders, draping over the chair arms. Then the radio announced,
“The war will continue…”
Someone turned the volume up. Everyone turned their attention to the news. Dada stood up and left. As he passed me, I heard him murmur:
“How long will you keep fighting, my brothers? How much more? Millions dead. Millions uprooted. And… and… my daughter, my daughter.”
The next morning, when I went to buy milk, people were gathered outside his door - softly talking with one another. What I understood was this: Aaqil Dada had run out of breath. He could no longer continue life’s battle. After afternoon prayers, we buried him beside his companion. The cloth merchant provided a blue sheet to place over his shroud, and we buried that with him too. His funeral passed quietly and with dignity. People returned to their lives. What struck me was how quickly we forgot him—almost as if nothing had happened. Perhaps that is the way of life. We become so absorbed in playing our assigned roles that we ignore the living presence around us.
On the fortieth day after his death, I visited his grave. Beside his companion’s smooth, arched mound lay a crumbling pile of earth—his final resting place. The neighbour locked his house and used it for storage. One day, I looked inside. The woven bed sagged. Clothes left on the line had faded in the sun, some blown into the courtyard. Only the old sewing machine remained untouched. Out of respect—or perhaps sorrow—I lowered my eyes.
Aaqil Dada died in December 1971. The following year, I left that lane, that neighbourhood, that city. I have seen many cities since. Yet when I visited the Taj Mahal in Agra, he came back to me suddenly—and has never left my thoughts. I wonder which memorial holds greater dignity: marble by a riverbank, or a small brick house in a narrow lane, and two unmarked graves in a distant cemetery.
Riaz Akber
Australia