The Silent Kind of Stubbornness
بے زبان ضد
बेज़बान ज़िद
Riaz Akber
27 Dec 2025
ہم دونوں نے ڈنٹسٹری مختلف یونیورسٹیوں سے پڑھی ہے مگر پچھلے چھ سال سے ایک ہی کمپنی میں کولیگز ہیں۔ ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں کئی کلینک پر مشتمل یہ ایک بڑی کمپنی ہے۔ سو کئی بار ہم نے ساتھ سفر کئے ہیں، اور دل لگا کر کام بھی۔ اب وہ میری رازداں سہیلی بن چکی ہے۔ شاید اس لئے کہ ہم دونوں اب تک شادی کے بکھیڑوں سے بے نیاز زندگی گزار رہی ہیں۔ اب اس کی وجہ تو ٹھیک سے معلوم نہیں۔ بس یوں کہہ لیں کہ شادی کرنے کو ہمارا دل ہی نہیں چاہا۔
کام میں محنت اور کام کے بعد سکون ۔۔۔ اس کے علاوہ بھی ہماری کئی عادتیں ملتی ہیں، مگر ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔ ہاں ہم دونوں میں ایک خاص فرق بھی ہے، اور وہ ہے میری اس سہیلی کی ضد کا ایک اپنا سٹائل۔ تو کچھ اس طرح ہے کہ جو کام اس نے نہ کرنا ہو، اس کے بارے میں انکار کا وہ بتاتی نہیں، مگر کرتی بھی نہیں ہے۔ مثلا دیکھیں نا، اس کے گھر والوں نے شادی کی بات پکی کر دی تھی۔ منگنی ہوئی، نکاح کیا، یہاں تک کہ مایوں بھی بیٹھی، پر رخصتی سے پہلے گھر چھوڑ کر بھاگ گئی اور طلاق لے لی- اب مشکل سے دھیرے دھیرے گھر والوں سے صلاح صفائی ہو رہی ہے۔ دوسری طرف میں ہوں، اس کے کچھ الٹ۔ بالکل اپنی اس سہیلی کی طرح مجھے بھی اپنی اٹھتی جوانی سے ہی ہیرو ہیروئین والے دو گانے اپیل نہیں کئے تھے۔ مگر پہلی ہی پروپوزل کے آنے پر میں نے اپنے لئے لڑکے نہ ڈھونڈنے کے بارے میں اپنی باجی اور امی کو بتا دیا تھا۔
دوستی گہری ہونے کے ساتھ ساتھ اسکی ضد کے سٹائل پر میرا ردِعمل الجھن کی بجائے تجسس اور دلچسپی میں بدل رہا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اسکے خاموش احتجاج، یا بغاوت کی ہلکی سی لہر کے پسِ منظر میں ایک اونچی دیوار بھی ہے، جس نے ایک بند کی طرح اس کے ذہن کے دوسری طرف کسی بے چینی اور کرب کے طلاطم کو روک کر رکھا ہوا ہے۔ اگر ایسا ہے تو آخر وہ خود توڑ کیوں نہیں سکتی یہ دیوار؟ کیا خوف ہے جو اسے اپنی مرضی کا اظہار کرنے سے منع کر دیتا ہے؟ اس کے ہونٹ رک کیوں جاتے ہیں؟ کچھ بار میں نے اسے کہا بھی، مگر وہ کسی سائیکالوجلسٹ کے پاس جانے کو تیار نہیں ہوئی۔
لیکن اس پچھلے ہفتے کی ایک بات بتائوں آپ کو۔ ہم دونوں کام کے سلسلے میں دور ایک بڑے شہر گئے۔ اسے وہاں شہر کے ایک کلینک میں جانا تھا اور مجھے مضافات میں۔ صبح سویرے ہی اسے ہوٹل میں چھوڑ کر میں کرائے کی کار میں نکل گئی۔ جانے سے پہلے کئ بار اسے سمجھایا تھا کہ میں رات سیدھی ایر پورٹ آئوں گی۔ وہیں ایر پورٹ پر کرائے کی کار واپس کر کے اس کا انتظار کروں گی اور ہم دونوں آخری فلائٹ پر لوٹ آئیں گے۔ میں نے انتظار کیا، فلائٹ چلی گئی، مگر نہ وہ نہیں آئی اور نہ ہی کسی فون کا جواب دیا۔ ہوٹل پہنچی تو اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ بکھرے ہوئے بال، پاجامے کا ایک پائنچہ گھٹنے سے اوپر چڑھا ہوا، دایاں سلیپر بائیں پائوں میں، دہانے سے ٹوتھ پیسٹ کی جھاگ جھانکتی ہوئی، اور ہاتھ میں برش۔ یقین کیجئے کہ ایسے میں اچانک سب بہت اچھا سا لگا مجھے۔ ہم دونوں بچوں کی طرح کھلھلا کر ہنس پڑے اور ٹوتھ پیسٹ کی جھاگ میری شرٹ پر بکھر گئی۔ اس پاگل پن کے دوران میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ ہنسی کے ساتھ ساتھ اس کی گالوں سے خاموش آنسووں کی لڑی بھی بکھر کر نیچے فرش پر گر رہی تھی۔
'دیوار ٹوٹ رہی ہے شاید ؟'
میں نے سوچا۔
اس رات ہم دونوں بہت گہری نیند سوئے۔ صبح کی فلائٹ بھی مِس کر دی۔
ریاض اکبر
آسٹریلیا
کام میں محنت اور کام کے بعد سکون ۔۔۔ اس کے علاوہ بھی ہماری کئی عادتیں ملتی ہیں، مگر ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔ ہاں ہم دونوں میں ایک خاص فرق بھی ہے، اور وہ ہے میری اس سہیلی کی ضد کا ایک اپنا سٹائل۔ تو کچھ اس طرح ہے کہ جو کام اس نے نہ کرنا ہو، اس کے بارے میں انکار کا وہ بتاتی نہیں، مگر کرتی بھی نہیں ہے۔ مثلا دیکھیں نا، اس کے گھر والوں نے شادی کی بات پکی کر دی تھی۔ منگنی ہوئی، نکاح کیا، یہاں تک کہ مایوں بھی بیٹھی، پر رخصتی سے پہلے گھر چھوڑ کر بھاگ گئی اور طلاق لے لی- اب مشکل سے دھیرے دھیرے گھر والوں سے صلاح صفائی ہو رہی ہے۔ دوسری طرف میں ہوں، اس کے کچھ الٹ۔ بالکل اپنی اس سہیلی کی طرح مجھے بھی اپنی اٹھتی جوانی سے ہی ہیرو ہیروئین والے دو گانے اپیل نہیں کئے تھے۔ مگر پہلی ہی پروپوزل کے آنے پر میں نے اپنے لئے لڑکے نہ ڈھونڈنے کے بارے میں اپنی باجی اور امی کو بتا دیا تھا۔
دوستی گہری ہونے کے ساتھ ساتھ اسکی ضد کے سٹائل پر میرا ردِعمل الجھن کی بجائے تجسس اور دلچسپی میں بدل رہا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اسکے خاموش احتجاج، یا بغاوت کی ہلکی سی لہر کے پسِ منظر میں ایک اونچی دیوار بھی ہے، جس نے ایک بند کی طرح اس کے ذہن کے دوسری طرف کسی بے چینی اور کرب کے طلاطم کو روک کر رکھا ہوا ہے۔ اگر ایسا ہے تو آخر وہ خود توڑ کیوں نہیں سکتی یہ دیوار؟ کیا خوف ہے جو اسے اپنی مرضی کا اظہار کرنے سے منع کر دیتا ہے؟ اس کے ہونٹ رک کیوں جاتے ہیں؟ کچھ بار میں نے اسے کہا بھی، مگر وہ کسی سائیکالوجلسٹ کے پاس جانے کو تیار نہیں ہوئی۔
لیکن اس پچھلے ہفتے کی ایک بات بتائوں آپ کو۔ ہم دونوں کام کے سلسلے میں دور ایک بڑے شہر گئے۔ اسے وہاں شہر کے ایک کلینک میں جانا تھا اور مجھے مضافات میں۔ صبح سویرے ہی اسے ہوٹل میں چھوڑ کر میں کرائے کی کار میں نکل گئی۔ جانے سے پہلے کئ بار اسے سمجھایا تھا کہ میں رات سیدھی ایر پورٹ آئوں گی۔ وہیں ایر پورٹ پر کرائے کی کار واپس کر کے اس کا انتظار کروں گی اور ہم دونوں آخری فلائٹ پر لوٹ آئیں گے۔ میں نے انتظار کیا، فلائٹ چلی گئی، مگر نہ وہ نہیں آئی اور نہ ہی کسی فون کا جواب دیا۔ ہوٹل پہنچی تو اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ بکھرے ہوئے بال، پاجامے کا ایک پائنچہ گھٹنے سے اوپر چڑھا ہوا، دایاں سلیپر بائیں پائوں میں، دہانے سے ٹوتھ پیسٹ کی جھاگ جھانکتی ہوئی، اور ہاتھ میں برش۔ یقین کیجئے کہ ایسے میں اچانک سب بہت اچھا سا لگا مجھے۔ ہم دونوں بچوں کی طرح کھلھلا کر ہنس پڑے اور ٹوتھ پیسٹ کی جھاگ میری شرٹ پر بکھر گئی۔ اس پاگل پن کے دوران میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ ہنسی کے ساتھ ساتھ اس کی گالوں سے خاموش آنسووں کی لڑی بھی بکھر کر نیچے فرش پر گر رہی تھی۔
'دیوار ٹوٹ رہی ہے شاید ؟'
میں نے سوچا۔
اس رات ہم دونوں بہت گہری نیند سوئے۔ صبح کی فلائٹ بھی مِس کر دی۔
ریاض اکبر
آسٹریلیا
हम दोनों ने डेंटिस्ट्री अलग-अलग यूनिवर्सिटीों से पढ़ी है, मगर पिछले छह साल से एक ही कम्पनी में कलीग हैं। यह एक बड़ी कंपनी है जिसके देश भर के छोटे-बड़े शहरों में कई क्लीनिक हैं। सो कई बार हमने साथ सफ़र किये हैं, और दिल लगाकर काम भी। अब वह मेरी राज़दाँ सहेली बन चुकी है। शायद इसलिये कि हम दोनों अब तक शादी के बखेड़ों से बे-नियाज़ ज़िन्दगी गुज़ार रही हैं। इसकी वजह तो ठीक से मालूम नहीं — बस यूँ कह लीजिए कि शादी करने को हमारा दिल ही नहीं चाहा। काम में मेहनत और काम के बाद सुकून… इसके अलावा भी हमारी कई आदतें मिलती हैं, मगर उनका ज़िक्र फिर कभी सही। हाँ, हम दोनों में एक ख़ास फ़र्क़ भी है — और वह है मेरी इस सहेली की ज़िद का अपना अन्दाज़। तो कुछ इस तरह है कि जो काम वह नहीं करना चाहती, उसके बारे में इंकार वह कभी बताती नहीं, मगर करती भी नहीं है। मसलन देखिए — उसके घरवालों ने शादी की बात पक्की कर दी थी। मंगनी हुई, निकाह हुआ, मायों भी बैठी, पर रुख़्सती से पहले घर छोड़कर भाग गई और तलाक़ ले ली। अब मुश्किल से, धीरे-धीरे घरवालों से सुलह-सफ़ाई हो रही है। दूसरी तरफ़ मैं हूँ, कुछ उसके उलट। बिल्कुल अपनी इस सहेली की तरह मुझे भी अपनी उठती जवानी से फ़िल्मों के हीरो–हीरोइन वाले गीत कभी अपील नहीं किये। मगर पहले ही प्रपोज़ल के आते ही मैंने अपनी बाज़ी और अम्मी को बता दिया था कि मेरे लिये लड़के ढूँढना बन्द कर दें। दोस्ती गहरी होने के साथ-साथ उसकी ज़िद के इस स्टाइल पर मेरा रद्द-ए-अमल उलझन की बजाय तजस्सुस और दिलचस्पी में बदलता जा रहा है।
मुझे लगता है कि उसके इस ख़ामोश एहतिजाज — या बग़ावत की हल्की-सी लहर के पीछे एक ऊँची दीवार भी है, जिसने एक बाँध की तरह उसके ज़ेहन की दूसरी तरफ़ किसी बेचैनी और कर्ब के तूफ़ान को रोक कर रखा हुआ है। अगर ऐसा है तो वह ख़ुद यह दीवार तोड़ क्यों नहीं सकती? कौन-सा डर है जो उसे अपनी मर्ज़ी का इज़हार करने से रोक देता है? उसके होंठ रुक क्यों जाते हैं? कई बार मैंने कहा भी, मगर वह किसी साइकोलॉजिस्ट के पास जाने को तैयार नहीं हुई।
लेकिन पिछले हफ़्ते की एक बात सुनिए। हम दोनों काम के सिलसिले में दूर एक बड़े शहर गये। उसे शहर के एक क्लिनिक में जाना था और मुझे मुज़ाफ़ात में। सुबह-सवेरे ही उसे होटल में छोड़कर मैं किराये की कार लेकर निकल गई। जाने से पहले कई बार उसे समझाया था कि मैं रात सीधी एयरपोर्ट आऊँगी, वहीं कार वापस करके उसका इंतज़ार करूँगी और हम दोनों आख़िरी फ़्लाइट से लौट आएँगे।
मैंने इंतज़ार किया — फ़्लाइट चली गई — मगर वह न आयी और न ही फ़ोन उठाया। होटल पहुँची तो उसने कमरे का दरवाज़ा खोला। बिखरे बाल, पायजामे का एक पायचा घुटने से ऊपर चढ़ा हुआ, दायाँ स्लीपर बाएँ पाँव में, मुँह से टूथपेस्ट की झाग झाँकती हुई और हाथ में ब्रश। यक़ीन मानिए, ऐसे में अचानक सब बहुत प्यारा-सा लगा मुझे। हम दोनों बच्चों की तरह खिलखिला कर हँस पड़े और टूथपेस्ट की झाग मेरी शर्ट पर बिखर गई।
उस पागलपन के बीच मैंने नज़र उठाई — हँसी के साथ-साथ उसकी गालों से ख़ामोश आँसुओं की एक लड़ी भी टूटकर नीचे फ़र्श पर गिर रही थी।
“दीवार टूट रही है शायद?”
मैंने सोचा।
उस रात हम दोनों बहुत गहरी नींद सोए। सुबह की फ़्लाइट भी मिस कर दी।
रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
मुझे लगता है कि उसके इस ख़ामोश एहतिजाज — या बग़ावत की हल्की-सी लहर के पीछे एक ऊँची दीवार भी है, जिसने एक बाँध की तरह उसके ज़ेहन की दूसरी तरफ़ किसी बेचैनी और कर्ब के तूफ़ान को रोक कर रखा हुआ है। अगर ऐसा है तो वह ख़ुद यह दीवार तोड़ क्यों नहीं सकती? कौन-सा डर है जो उसे अपनी मर्ज़ी का इज़हार करने से रोक देता है? उसके होंठ रुक क्यों जाते हैं? कई बार मैंने कहा भी, मगर वह किसी साइकोलॉजिस्ट के पास जाने को तैयार नहीं हुई।
लेकिन पिछले हफ़्ते की एक बात सुनिए। हम दोनों काम के सिलसिले में दूर एक बड़े शहर गये। उसे शहर के एक क्लिनिक में जाना था और मुझे मुज़ाफ़ात में। सुबह-सवेरे ही उसे होटल में छोड़कर मैं किराये की कार लेकर निकल गई। जाने से पहले कई बार उसे समझाया था कि मैं रात सीधी एयरपोर्ट आऊँगी, वहीं कार वापस करके उसका इंतज़ार करूँगी और हम दोनों आख़िरी फ़्लाइट से लौट आएँगे।
मैंने इंतज़ार किया — फ़्लाइट चली गई — मगर वह न आयी और न ही फ़ोन उठाया। होटल पहुँची तो उसने कमरे का दरवाज़ा खोला। बिखरे बाल, पायजामे का एक पायचा घुटने से ऊपर चढ़ा हुआ, दायाँ स्लीपर बाएँ पाँव में, मुँह से टूथपेस्ट की झाग झाँकती हुई और हाथ में ब्रश। यक़ीन मानिए, ऐसे में अचानक सब बहुत प्यारा-सा लगा मुझे। हम दोनों बच्चों की तरह खिलखिला कर हँस पड़े और टूथपेस्ट की झाग मेरी शर्ट पर बिखर गई।
उस पागलपन के बीच मैंने नज़र उठाई — हँसी के साथ-साथ उसकी गालों से ख़ामोश आँसुओं की एक लड़ी भी टूटकर नीचे फ़र्श पर गिर रही थी।
“दीवार टूट रही है शायद?”
मैंने सोचा।
उस रात हम दोनों बहुत गहरी नींद सोए। सुबह की फ़्लाइट भी मिस कर दी।
रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
We studied dentistry at different universities, but for the past six years we’ve been colleagues in the same company — a big organisation with clinics scattered across cities and towns all over the country. We’ve travelled together many times, worked hard together, and somewhere along the way she became my closest confidante.
Perhaps it’s because neither of us has stepped into the chaos of marriage. Why, we can’t say for sure — maybe the desire simply never came.
We share many habits: we work with discipline, and after work we protect our peace. There are other similarities too, but those can wait. There is one difference though, and it’s her very distinctive way of being stubborn. If she doesn’t want to do something, she won’t say no — she simply won’t do it.
Take this example: her family arranged her marriage. The engagement happened, the nikah was performed, she even sat through the traditional pre-wedding rituals. But just before the final ceremony, she ran away from home and eventually filed for divorce. It’s only now, slowly and painfully, that she’s rebuilding trust with her family.
And then there’s me — almost her opposite. Like her, I never cared for filmi hero-heroine romance songs, even in my youth. But the moment the first proposal came for me, I told my mother and sister not to look for a boy for me anymore.
As our friendship deepened, my reaction to her peculiar stubbornness shifted from confusion to curiosity. It feels as though behind her silent refusals — those faint ripples of rebellion — there stands a tall wall, like a dam holding back a storm of anxiety and hurt on the other side.
If such a wall exists, why can’t she break it herself?
What fear stops her from expressing her own desires?
Why do her lips fall silent just when she wants to speak?
I suggested several times that she see a psychologist, but she never agreed.
And then something happened last week.
We were out of town for work — she had a shift at a city clinic, and I was assigned to one in the outskirts.
I left her at the hotel early in the morning with clear instructions:
“I’ll meet you directly at the airport tonight… I’ll return the rental car, wait for you there, and we’ll take the last flight home together.”
I waited.
The flight left.
She didn’t come.
She didn’t answer her phone.
When I reached the hotel, she opened the door — hair in disarray, one leg of her pyjama rolled above the knee, the right slipper on her left foot, toothpaste foam at the corner of her lips, toothbrush in hand. And strangely, in that moment, everything felt… tender. We burst into laughter like children, and the toothpaste splattered onto my shirt. In the middle of that silliness, I looked up. Her laughter was real — but so were the silent tears slipping down her cheeks and falling to the floor.
“Maybe the wall is breaking,”
I thought.
We both slept deeply that night.
And the next early morning — we missed that flight too۔
Riaz Akber
Australia
Perhaps it’s because neither of us has stepped into the chaos of marriage. Why, we can’t say for sure — maybe the desire simply never came.
We share many habits: we work with discipline, and after work we protect our peace. There are other similarities too, but those can wait. There is one difference though, and it’s her very distinctive way of being stubborn. If she doesn’t want to do something, she won’t say no — she simply won’t do it.
Take this example: her family arranged her marriage. The engagement happened, the nikah was performed, she even sat through the traditional pre-wedding rituals. But just before the final ceremony, she ran away from home and eventually filed for divorce. It’s only now, slowly and painfully, that she’s rebuilding trust with her family.
And then there’s me — almost her opposite. Like her, I never cared for filmi hero-heroine romance songs, even in my youth. But the moment the first proposal came for me, I told my mother and sister not to look for a boy for me anymore.
As our friendship deepened, my reaction to her peculiar stubbornness shifted from confusion to curiosity. It feels as though behind her silent refusals — those faint ripples of rebellion — there stands a tall wall, like a dam holding back a storm of anxiety and hurt on the other side.
If such a wall exists, why can’t she break it herself?
What fear stops her from expressing her own desires?
Why do her lips fall silent just when she wants to speak?
I suggested several times that she see a psychologist, but she never agreed.
And then something happened last week.
We were out of town for work — she had a shift at a city clinic, and I was assigned to one in the outskirts.
I left her at the hotel early in the morning with clear instructions:
“I’ll meet you directly at the airport tonight… I’ll return the rental car, wait for you there, and we’ll take the last flight home together.”
I waited.
The flight left.
She didn’t come.
She didn’t answer her phone.
When I reached the hotel, she opened the door — hair in disarray, one leg of her pyjama rolled above the knee, the right slipper on her left foot, toothpaste foam at the corner of her lips, toothbrush in hand. And strangely, in that moment, everything felt… tender. We burst into laughter like children, and the toothpaste splattered onto my shirt. In the middle of that silliness, I looked up. Her laughter was real — but so were the silent tears slipping down her cheeks and falling to the floor.
“Maybe the wall is breaking,”
I thought.
We both slept deeply that night.
And the next early morning — we missed that flight too۔
Riaz Akber
Australia