یہ ان چند کہانیوں میں سے ایک ہے جو میرے لڑکپن میں ہم محلے کی لڑکیوں کو ماسی لووانہ نے سنائی تھیں۔ سب لوگ مانتے تھے کہ ماسی لووانہ کے نام کی طرح ان کی کہانیاں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں۔ مگر وہ کم بولتی تھیں اور کہانیاں تو شاذ ہی سناتیں۔ محلے کے گھروں میں کام کاج پر ان کا گزارا تھا۔ گرمیوں میں ان کے چھوٹے سے گھر کے صحن میں ایک کھاٹ دھری رہتی اور وہیں وہ سوتی بھی تھیں۔ سکولوں کی لمبی چھٹیاں ہوتیں تو شام پڑنے پر ہم لڑکیاں اسی کھاٹ کے گرد بیٹھتیں۔ گلی کے سب بڑوں کو معلوم تھا کہ لڑکیاں اگر گھر نہ ملیں تو کھاٹ کے آس پاس ہی کہیں ہوں گی۔ اکثر باتیں تو ہم آپس میں ہی کرتیں پر کبھی کبھار جب ماسی سے کہانی سننے کو ملتی تو سماں بندھ جاتا۔ کہانی سناتے وقت بیچ میں کئی جگہ ان کا سٹائل ایسا بن جاتا جیسے کسی ڈرامے یا فلم کے سین ان کی نظر کے سامنے چل رہے ہیں اور وہ بتا رہی ہیں کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے۔ اب آپ سے شئیر کرتے ہوئے میرے لفظوں میں ان کے جیسی خستگی اور روانی تو شاید نہ ہو مگر کوشش ضرور کروں گی کہ سٹائل ویسا ہی رہے۔
تو سنیے۔

'پہاڑی کے دامن میی ڈھلوانوں پر پہتے ہوئے قدرتی چشموں کے پانی سے بھری ہوئی ایک جھیل کے کنارے یہ بستی شاید پانچ نسلیں پہلے بزرگوں نے آباد کی تھی۔ تب سے ہی وہ سب قبیلہ یہیں رہ رہا ہے۔ جھیل کی مچھلیاں، کنول کی جڑیں اور کنارے پر طرح طرح کے قدرتی درختوں کے پھل ان کی خوراک ہیں۔ گویا ایک سیدھی سادا، مطمعن اور خوشگوار زندگی۔

مشرق کی طرف ایک تنگ پنگڈنڈی بستی سے نکل کر گھاٹیوں اور جنگلوں میں گم ہو جاتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے بزرگ اسی پگڈنڈی سے گزر کر یہاں پہنچے تھے۔ شاید اسی لئے اس راستے کا نام ماضی روڈ پڑ گیا ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے بستی والوں نے جھیل کنارے کے راستے کو حال روڈ کا نام بھی دیا ہے۔ حال روڈ پر دن بھر رونق رہتی ہے۔ مچھلیاں پکڑنے اور کنول کے پتے، جڑیں اور پھول جمع کرنے کے لئے بچے بڑے سبھی یہاں آتے، دیر تک ملتے ملاتے اور شام ڈھلے اسی راستے کے ادر گرد اپنی اپنی پناہ گاہوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ چاندنی راتیں بعض خاص تقریبات اور میل ملاپ کے لئے مخصوص ہیں۔

انسانوں کی ہر آبادی کی کچھ اپنی ریت روایت بھی ہوتی ہے۔ تو یہاں کچھ یوں ہے کہ کبھی کبھار راتوں کے سناٹے میں قریب کے پہاڑوں سے ایک عجیب سی گڑگڑاہٹ کی آواز کو دیوتائوں کی گفتگو سمجھا جاتا ہے۔ ایک رسم ماضی روڈ پر منازل کی زیارت کی بھی ہے۔ یہ منازل در اصل چٹاںوں کی کھوہ میں یا اونچے درختوں کے نیچے بنی ہوئی گزشتہ پناہ گاہوں کے باقیات ہیں۔ ان کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ بستی کے ابتدائی بزرگوں کو دیوتائوں نے اس جگہ تک پہنچنے کے لئے سفر کے جس امتحان میں ڈالا تھا اسی وقت میں یہ بنائی گئیں۔ ان میں سے ہر معلوم پناہ گاہ کے ساتھ ایک کہانی بھی جڑی ہوئی ہے جو بڑی عمر کے لوگ بچوں کو سناتے چلے آئے ہیں۔ بستی کے ہر لڑکے لڑکی سے یہ توقع ہے کہ وہ میل کا حق حاصل کرنے کے لئے اکیلے جا کر ماضی روڈ کے دشوار راستے پر کم از کم تین منازل کی زیارت ضرور کرے۔ ان میں سے بعض پانچ، سات منزلوں تک بھی جاتے ہیں۔ اور اکیس یا اس سے زیادہ منازل کے زائر کو تو سوسائٹی میں خاص احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں نیلے رنگ کے پتھروں کی ایک مالا پہنائی جاتی ہے اور بستی کے لوگ انہیں 'مالا والے' کہہ کر بلاتے ہیں۔ صرف مالا والے زائر ہی دیوتائوں سے بات چیت کے اہل ہیں۔ پھر کئی نوجوان زیارت کے سفر سے واپس نہیں لوٹتے۔ ان سے متعلق روائیتوں میں کچھ اختلاف ہے اور مشترک بات یہ ہے کہ وہ اس بستی کی آبادی کے لئے مناسب نہیں تھے؛ اسی لئے دیوتائوں نے انہیں کسی دوسری زندگی کے لئے چن لیا۔

ہاں ایک بات اور۔ پچھلے تین چار سال سے بستی والوں کو ایک نئی الجھن آن پڑی ہے۔ اور وہ ہے بہار اور گرمیوں کے موسم میں سیاحوں کا آنا جانا۔ یہ وہ تبدیلی ہے جسے وہ روک نہیں سکتے اور شاید نہ ہی روکنا چاہتے ہیں۔ پہلے سال ہفتے میں ایک بار اور اب تو تقریباُ ہر دوسرے روز صبح سویرے شور مچاتا ہوا ایک ہیلیکوپٹر حال روڈ کے پاس کے کھلے میدان میں آ وارد ہوتا ہے۔ مختلف لباس والے چار پانچ سیاح نکل کر کسی اجنبی زبان میں باتیں کرتے، بستی کے لوگوں کے ساتھ تصویریں بناتے، اور بچوں کو رنگ برنگ کھلونے دیتے ہیں۔ ایسے کھلونے جو پہلے یہاں کسی نے دیکھے نہ سنے۔ پھر چند گھنٹے گھوم کر وہ سیاح واپس لوٹ جاتے ہیں۔

شروع میں ان اجنبی لوگوں کا آنا خود بستی والوں کے لئے ایک تماشا سا تھا۔ مگر اب دھیرے دھیرے مقامی کلچر پر اس سیاحت کے اثر نمودار ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ مثلاً اب سے پہلے بستی میں ہر ایک ملکیت ساجھی ہی رہی تھی۔ رہنے کو زمین، کھانے کو مچھلیاں اور پھل سب کو میسر تھے۔ مگر اب ان سیاحوں کے لائے ہوئے کھلونے بستی کے سب بچوں کے لئےکافی نہیں ہوتے۔ ہر مرتبہ ہیلیکوپٹر کی آواز سن کر بچوں کا ایک ہجوم سب کچھ چھوڑ کر میدان کی طرف دوڑتا ہے۔ چند ایک کو کھلونے ملنے کی خوشی نصیب ہوتی ہے مگر اکثر کو خالی ہاتھ واپسی کی مایوسی۔ وسائل کی یہ ذاتی ملکیت بستی والوں کے لئے بالکل نئی بات ہے۔ چھینا جھپٹی اور چوری کے کچھ واقعات بھی ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں والدین کے بیچ چپقلش بھی۔ اسی طرح ہیلیکوپٹر والوں نے ماضی روڈ پر تین چار پگڈنڈیوں کے راستے بہت محفوظ بنا دئے ہیں۔ ان کے پیشِ نظر تو قدیمی پناہ گاہوں کی سیاحت ہی رہی ہوگی، مگر اس کا فائدہ مقامی نوجوانوں کو زیارت کی آسانی کا بھی پہنچا ہے۔ بستی کے کچھ عمر رسیدہ اس آسانی سے ناخوش بھی ہیں۔ ان کے نزدیک راستے کو آسان بنانے کے نتیجے میں بستی کی ایک اہم روایت کی قدر اور اہمیت گھٹ گئی ہے۔ اور سچ پوچھیں تو وہ اپنی بات میں غلط بھی نہیں۔ پچھلے دو سال سے ہیلیکوپٹر والے ہر پھیرے میں نت نئے پھلوں اور سبزیوں سے بھرے ہوئے کئی تھیلے بھی لا رہے ہیں، جنہیں وہ واپس اڑنے سے پہلے میدان کے ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ بستی کے اکثر لوگ ان نئے ذائقوں کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ اب وہ اگلے سال ہیلیکوپٹر کے دوبارہ آنے کا انتظار کرتے ہیں۔

یوں تو آپس میں مسکراہٹ کی زبان کا کھلا استعمال بستی والوں اور ہیلیکوپٹر والوں میں اعتماد کے لئے کافی ہے۔ مگر بچوں نے "کیا حال ہے؟"، "شکریہ"، "ٹھیک"، اور "یہ کیا ہے؟" جیسے چند ایک لفظ کسی اجنبی زبان میں سیکھ کر اور بول کر سیاحوں اور اپنے بڑوں کو ایک خوشگوار سی حیرانی میں ڈالنا بھی شروع کر دیا ہے۔

اس سال کی بہار کا ابھی آغاز ہے۔ کچھ ہفتوں کے بعد ہیلیکوپٹر والے آنے لگیں گے۔ مگر اس کے ساتھ ہی پہاڑوں کی گرگڑاہٹ میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ خیال یہی ہے کہ کسی نہ کسی وجہ سے دیوتا اس بستی سے زیادہ خوش نہیں۔ اب سے کوئی ہفتہ پہلے رات کو پہاڑ اتنا گڑگڑاے کہ بستی کی زمین کانپ گئی اور جھیل کا پانی تھرتھرا کر حال روڈ کے کناروں تک آ گیا۔ اس پر ستم یہ کہ دیوتائوں کے اس پیغام کو مالا والے مکمل طور پر سمجھ بھی نہیں سکے۔ جو سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ آنے والی چودھویں چاند رات کو حال روڈ سے منازل کا ایک جلوس گزرے گا۔ اور پھر اس کے بعد بھی کچھ ہوگا ۔۔۔۔ کیا ہوگا؟ یہ ٹھیک سے معلوم نہیں ہو سکا۔

پھر سب نے دیکھا کہ چودھویں کی رات کو ایک ایک کر کے سیکڑوں پناہ گاہیں حال روڈ سے یوں گزریں جیسے انہوں نے خود ہی اپنی زیارت کو بستی والوں پر آسان کر دیا ہو۔ درختوں کے کئی جھنڈ گزرے جنکے نیچے انہی کی چھال کے بچھونے تھے۔ پیڑوں کے تنے گزرے جن پر سے لکڑی کاٹے جانے کے ایسے نشان تھے جیسے کسی نے پانی یا خوراک جمع رکھنے کے لئے پیالہ تراشا ہو۔ پہاڑوں کے ٹکڑے بھی تھے جن میں بجھے ہوئے کوئلوں کی راکھ پڑی تھی اور کھرچ کر بنائی ہوئی پرندوں، مچھلیوں اور دیوتائوں کی تصویریں بھی۔ بستی کے اکثر لوگ اپنی پچھلی زیارتوں کی وجہ سے ایسی منزلوں کو پہچانتے تھے۔
"ہاں ہم نے یہ دیکھا تھا"
"ہم نے یہ بھی دیکھا تھا"
اور اس جیسی بہت سی آوازیں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں۔
ایک اور بات یہ بھی تھی کہ منزلوں کا یہ جلوس مشرق کی طرف کے ماضی روڈ کی بجائے مغرب کے جنگلوں اور گھاٹیوں سے نکل کر حال روڈ پر آیا اور اسی جانب لوٹ گیا۔ لیکن منزلوں کے اس جلوس کے جانے کے بعد جو ہوا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ جھیل کے پرلی طرف کا پہاڑ اس زور پھٹا کہ سب کے کان بند ہو گئے۔ آگ جیسا لاوا اور بڑے بڑے پتھر اڑ اڑ کر جھیل میں گرنے لگے۔ پانی ابل گیا گھاس کو آگ لگ گئی۔ دھواں اتنا گہرا اور زہریلا تھا کہ بستی والوں کی سانس بند ہونے لگی، کئی بے ہوش ہو کر گر پڑے، کچھ کو پتھروں نے زخمی کر دیا، باقی بدحواسی میں پناہ گاہوں کی طرف دوڑے۔ اس کے بعد تیز بارش برسی اور کئی دن تک برستی ہی چلی گئی۔

اب کچھ روز بعد ایک ایک کر کے بستی کے بچے کھچے لوگ پناہ گاہوں سے باہر نکل رہے ہیں۔ سب خاموش ہیں۔ بس خوف اور حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھیں ادھر ادھر دیکھ رہی ہیں۔ جھیل ابل کر خشک پڑی ہے اور اس کے اوپر ہزاروں مری ہوئی مچھلیوں کی تہہ، کچھ تو اب تک ہولے ہولے تڑپ رہی ہیں۔ پیڑ جل کر سیاہ پڑ گئے ہیں۔ جہاں پہلے پھل ہوتے تھے وہاں کہیں کہیں ٹہنیوں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ اور جہاں کبھی حال روڈ تھا وہاں راکھ کی ایک گہری تہہ بارش پڑنے سے دلدل میں بدل گئی ہے اور اس دلدل میں ڈوبے ابھرے کئی انسانوں کے جلے ہوئے جسم۔ ایسے میں تین چار پہاڑی کوے کہیں سے اڑ کر آئے اور خشک جھیل پر مچھلیوں کی تہہ میں اتر گئے۔ پھر بستی والوں میں سے کسی کی بین کرتی ہوئی بلند چیخ آس پاس کے پہاڑوں سے ٹکرائی اور اس کے ساتھ ہی سب چیخ چیخ کر رونے لگے۔ اس روز یہی فیصلہ ہوا کہ یہ جگہ اب رہنے کے قابل نہیں۔ کل صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ کوچ کرنا ہے۔

پھر صبح سویرے سب اپنا تھوڑا بہت سامان کمر پر باندھ کر جمع ہوئے۔ اور اس روز پہلی بار بستی کے لوگوں میں کسی بات پر اختلاف ہوا۔ کچھ کا کہنا تھا کہ ہمیں مشرق کا رخ کرنا چاہئے جہاں ہمارے اسلاف کی پناہ گاہیں باقی ہیں۔ دوسرا گروہ مغرب کو جانا چاہتا تھا کیونکہ منازل کا جلوس اس طرف سے آیا، اور ادھر ہی کو گیا۔ ایک تیسرا گروپ یہیں رہ کر ہیلیکوپٹر کے انتظار کے حق میں تھا۔ ان کاخیال تھا کہ سیاح لوگ بستی کی حالت دیکھ کر انہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ کوئی گروہ بھی اپنی سوچ سے نہیں ہٹا اس لئے کوئی ایک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بھائی بہنوں سے بچھڑ گئے۔ بچے بڑوں سے جدا ہو گئے۔'

ماسی لووانہ کی کہانی یہیں پر رک گئی اور ہم سب پہ بھی خاموشی چھا گئی۔۔
' تو کیا ہیلیکوپٹر والے آ کر بستی والوں کو نکال لائے؟' کچھ دیر بعد کسی نے پوچھا۔
ماسی خاموش رہیں۔ ہمیں کہانی سناتے سناتے وہ خود سو گئی تھیں۔ بس نیند کی اس کیفیت میں ہی انہوں نے سر ہلا کر نفی میں جواب دیا۔ پھر ان کی بند مٹھی ذرا سی کھلی اور ایک کھلونا ہیلیکوپٹر ہاتھ سے پھسل کر کھاٹ کے نیچے بالکل میرے سامنے آ گرا۔ چپکے سے میں نے اسے اپنی مٹھی میں چھپا لیا۔

وقت گزر گیا ہے۔ میں نے ائیروناٹیکل انجینیرنگ پڑھی ہے اور ہیلیکوپٹر بنانے والی ایک کمپنی میں کام کرتی ہوں۔ کھاٹ کے پاس سے چرایا ہوا وہ کھلونا ہیلیکوپٹر اب بھی میرے ڈیسک پر پڑا ہے۔ شاید ماسی لووانہ کی کہانی کہ وہ جملے یاد دلانے کے لئے جو وہ خود کہہ نہیں پائیں۔
'بستی کے بچو! ان ہیلیکوپٹر والوں کا اعتبار مت کرنا۔ تمہارے ہاتھوں میں رنگین کھلونے تھما کر یہ کبھی واپس نہیں آتے۔ کبھی نہیں آئیں گے۔'

ریاض اکبر
آسٹریلیا
यह उन गिनी-चुनी कहानियों में से एक है जो मेरे बचपन में मोहल्ले की लड़कियों को मासी लोवाना सुनाया करती थीं। सब लोग मानते थे कि मासी लोवाना के नाम की तरह उनकी कहानियाँ भी आम रास्ते से हटकर होती थीं। मगर वे कम बोलती थीं और कहानियाँ तो बहुत ही कम सुनाती थीं। मोहल्ले के घरों में काम-काज करके उनका गुज़ारा चलता था। गर्मियों में उनके छोटे-से घर के आँगन में एक खाट पड़ी रहती थी और वे वहीं सोती भी थीं। स्कूलों की लंबी छुट्टियाँ होतीं तो शाम ढलते ही हम लड़कियाँ उसी खाट के चारों ओर बैठ जातीं। गली के सभी बड़े जानते थे कि अगर लड़कियाँ घर में न मिलें, तो खाट के आसपास ही कहीं होंगी। ज़्यादातर बातें हम आपस में ही करती थीं, लेकिन कभी-कभी जब मासी से कहानी सुनने को मिल जाती, तो जैसे पूरा माहौल बदल जाता। कहानी सुनाते समय कई जगह उनका अंदाज़ ऐसा हो जाता मानो किसी नाटक या फ़िल्म के दृश्य उनकी आँखों के सामने चल रहे हों और वे बता रही हों कि उस पल क्या हो रहा है। आपके साथ साझा करते हुए मेरे शब्दों में वैसी थकान भरी मिठास और बहाव तो शायद न हो, मगर मैं पूरी कोशिश करूँगी कि उनका अंदाज़ वैसा ही बना रहे।
तो सुनिए।

“पहाड़ी की तलहटी में, ढलानों से बहते प्राकृतिक झरनों के पानी से भरी एक झील के किनारे, यह बस्ती शायद पाँच पीढ़ियाँ पहले बुज़ुर्गों ने बसाई थी। तब से वही पूरा कबीला यहीं रहता आ रहा है। झील की मछलियाँ, कमल की जड़ें, और किनारों पर उगने वाले तरह-तरह के जंगली पेड़ों के फल उनका भोजन हैं। यानी एक सादा, संतोषभरी और सुखद ज़िंदगी। पूरब की ओर एक संकरी पगडंडी बस्ती से निकलकर घाटियों और जंगलों में खो जाती है। लोगों का मानना है कि उनके पुरखे उसी रास्ते से यहाँ पहुँचे थे। शायद इसी कारण उस रास्ते का नाम ‘माज़ी रोड’ पड़ गया। और शायद इसी वजह से झील के किनारे वाले रास्ते को ‘हाल रोड’ कहा जाने लगा। हाल रोड पर दिन भर चहल-पहल रहती है। मछलियाँ पकड़ने और कमल के पत्ते, जड़ें और फूल इकट्ठा करने के लिए बच्चे-बड़े सभी यहाँ आते हैं, देर तक मिलते-जुलते हैं और शाम ढलते ही इसी रास्ते से अपनी-अपनी झोपड़ियों की ओर लौट जाते हैं। चाँदनी रातें कुछ ख़ास उत्सवों और मेल-जोल के लिए तय होती हैं।

हर इंसानी बस्ती की अपनी परंपराएँ होती हैं। यहाँ यह मान्यता है कि कभी-कभी रात के सन्नाटे में पास के पहाड़ों से आने वाली अजीब-सी गड़गड़ाहट को देवताओं की आपसी बातचीत समझा जाता है।
एक रस्म माज़ी रोड पर स्थित ‘मंज़िलों’ की यात्रा की भी है। ये मंज़िलें असल में चट्टानों की ओट में या ऊँचे पेड़ों के नीचे बनी पुरानी शरणस्थलियों के अवशेष हैं। माना जाता है कि बस्ती के शुरुआती बुज़ुर्गों को देवताओं ने यात्रा के जिन कठिन इम्तिहानों से गुज़ारा था, उन्हीं के दौरान ये शरणस्थल बनाए गए थे।

हर जानी-पहचानी मंज़िल के साथ एक कहानी जुड़ी है, जो बड़े लोग पीढ़ी-दर-पीढ़ी बच्चों को सुनाते आए हैं। बस्ती के हर लड़के और लड़की से उम्मीद की जाती है कि वह वयस्क होने का अधिकार पाने के लिए अकेले माज़ी रोड के कठिन रास्ते पर कम से कम तीन मंज़िलों की यात्रा ज़रूर करे। कुछ पाँच या सात मंज़िलों तक भी जाते हैं। और जो इक्कीस या उससे अधिक मंज़िलों तक पहुँच जाता है, उसे समाज में विशेष सम्मान मिलता है। ऐसे यात्रियों को नीले पत्थरों की एक माला पहनाई जाती है और लोग उन्हें ‘माला वाले’ कहकर पुकारते हैं। सिर्फ़ माला वाले ही देवताओं से संवाद करने के योग्य माने जाते हैं। मगर कई युवा इस यात्रा से कभी लौटकर नहीं आते। उनसे जुड़ी कथाओं में मतभेद हैं, पर एक बात सब मानते हैं—वे इस बस्ती के लिए उपयुक्त नहीं थे, इसलिए देवताओं ने उन्हें किसी और जीवन के लिए चुन लिया।

हाँ, एक बात और। पिछले तीन-चार सालों से बस्ती वालों को एक नई परेशानी ने घेर लिया है—बसंत और गर्मियों में आने वाले पर्यटक। यह ऐसा बदलाव है जिसे वे न रोक सकते हैं और शायद रोकना भी नहीं चाहते। पहले साल हफ्ते में एक बार, और अब तो लगभग हर दूसरे दिन, सुबह-सुबह शोर करता हुआ एक हेलीकॉप्टर हाल रोड के पास खुले मैदान में उतर आता है। अलग-अलग कपड़े पहने चार-पाँच सैलानी किसी अनजानी भाषा में बातें करते हैं, बस्ती के लोगों के साथ तस्वीरें खिंचवाते हैं और बच्चों को रंग-बिरंगे खिलौने बाँटते हैं—ऐसे खिलौने जो यहाँ किसी ने पहले न देखे थे, न सुने थे। फिर कुछ घंटों बाद वे लौट जाते हैं।

शुरू में इन अजनबियों का आना खुद बस्ती वालों के लिए तमाशा था। मगर धीरे-धीरे इस पर्यटन का असर स्थानीय संस्कृति पर दिखने लगा। पहले यहाँ हर चीज़ साझा होती थी—रहने की ज़मीन, खाने की मछलियाँ और फल। मगर अब सैलानियों के लाए खिलौने सब बच्चों के लिए पर्याप्त नहीं होते। हर बार हेलीकॉप्टर की आवाज़ सुनते ही बच्चे सब कुछ छोड़ मैदान की ओर दौड़ पड़ते हैं। कुछ को खिलौने मिलते हैं, ज़्यादातर खाली हाथ लौटते हैं। संसाधनों की यह निजी मिल्कियत बस्ती के लिए बिल्कुल नई बात है। छीना-झपटी और चोरी की घटनाएँ हुई हैं, और माता-पिता के बीच तनाव भी बढ़ा है। इसी बीच हेलीकॉप्टर वालों ने माज़ी रोड की कुछ पगडंडियों को सुरक्षित बना दिया है। उनका उद्देश्य शायद पुरानी मंज़िलों को देखने का था, मगर इससे स्थानीय युवाओं के लिए यात्रा आसान हो गई। बस्ती के कुछ बुज़ुर्ग इस आसानी से नाख़ुश हैं। उनका मानना है कि रास्तों के सरल होने से एक अहम परंपरा का मूल्य घट गया है—और सच कहें तो वे ग़लत भी नहीं। पिछले दो सालों से हेलीकॉप्टर वाले हर बार नए फल और सब्ज़ियों से भरे थैले भी लाने लगे हैं, जिन्हें उड़ान से पहले मैदान के एक कोने में रख देते हैं। बस्ती के लोग इन नए स्वादों के आदी होते जा रहे हैं और अब अगले साल हेलीकॉप्टर के आने का इंतज़ार करते हैं।

मुस्कान की भाषा बस्ती वालों और सैलानियों के बीच भरोसे के लिए काफ़ी है, लेकिन बच्चों ने
“क्या हाल है?”,
“धन्यवाद”,
“ठीक है”,
और “यह क्या है?”
जैसे कुछ शब्द किसी अजनबी भाषा में सीख लिए हैं और उन्हें बोलकर वे सैलानियों और अपने बड़ों—दोनों को हल्की-सी हैरानी में डाल देते हैं।

इस साल बसंत की शुरुआत ही हुई है। कुछ हफ्तों में हेलीकॉप्टर फिर आने लगेंगे। मगर पहाड़ों की गड़गड़ाहट लगातार बढ़ रही है। लगता है किसी न किसी वजह से देवता इस बस्ती से प्रसन्न नहीं हैं। एक हफ्ता पहले रात में पहाड़ इतने ज़ोर से गूँजे कि ज़मीन काँप उठी और झील का पानी थरथराता हुआ हाल रोड के किनारों तक आ गया। दुर्भाग्य यह कि माला वाले भी देवताओं के संदेश को पूरी तरह समझ न सके। बस इतना समझ आया कि आने वाली चौदहवीं की चाँदनी रात को हाल रोड से मंज़िलों का एक जुलूस गुज़रेगा—और उसके बाद कुछ और होगा। क्या होगा, यह स्पष्ट नहीं।

जिनके नीचे उन्हीं की छाल के बिछौने थे। कटे तनों पर ऐसे निशान थे जैसे किसी ने पानी या भोजन रखने के लिए कटोरियाँ तराशी हों। पहाड़ों के टुकड़ों में बुझी हुई अंगारों की राख थी और उकेरी गई चिड़ियों, मछलियों और देवताओं की आकृतियाँ भी। बहुत से लोग अपनी पिछली यात्राओं के कारण इन मंज़िलों को पहचान रहे थे।
“हाँ, हमने यह देखा था।”
“यह भी देखा था।”
ऐसी आवाज़ें हर ओर गूँज रही थीं।
एक और बात यह थी कि मंज़िलों का यह जुलूस पूरब की ओर माज़ी रोड से नहीं, बल्कि पश्चिम के जंगलों और घाटियों से निकलकर हाल रोड पर आया और उधर ही लौट गया।

इसके बाद जो हुआ, वह बयान से बाहर है। झील के पार का पहाड़ ऐसे फटा कि सबके कान सुन्न हो गए। आग जैसा लावा और विशाल पत्थर उड़ते हुए झील में गिरने लगे। पानी उबलने लगा, घास जल उठी। धुआँ इतना घना और ज़हरीला था कि लोगों की साँसें रुकने लगीं। कई बेहोश होकर गिर पड़े, कुछ पत्थरों से घायल हो गए, बाकी बदहवासी में शरणस्थलों की ओर भागे। इसके बाद तेज़ बारिश हुई और कई दिनों तक होती रही।

कुछ दिनों बाद बस्ती के बचे-खुचे लोग एक-एक कर शरणस्थलों से बाहर निकले। सब चुप थे। डर और हैरानी से फटी आँखें चारों ओर देख रही थीं। झील उबलकर सूख चुकी थी और उस पर हज़ारों मरी हुई मछलियों की परत जमी थी—कुछ अब भी हल्की-हल्की तड़प रही थीं। पेड़ जलकर काले पड़ गए थे। जहाँ पहले फल लटकते थे, वहाँ अब टहनियों से धुआँ उठ रहा था। और जहाँ कभी हाल रोड था, वहाँ राख की मोटी परत बारिश से दलदल बन चुकी थी—उस दलदल में आधे डूबे, जले हुए इंसानी शरीर।
इसी बीच तीन-चार पहाड़ी कौए कहीं से उड़कर आए और सूखी झील में मछलियों की परत पर उतर गए। तभी बस्ती वालों में से किसी की विलाप करती चीख पहाड़ों से टकराई और सब ज़ोर-ज़ोर से रोने लगे। उसी दिन तय हुआ कि यह जगह अब रहने योग्य नहीं। अगली सुबह सूरज की पहली किरण के साथ प्रस्थान करना है।

सुबह-सुबह सब लोग थोड़ा-बहुत सामान कमर पर बाँधकर इकट्ठा हुए। और उसी दिन पहली बार बस्ती वालों के बीच मतभेद हुआ। कुछ ने कहा कि पूरब की ओर जाना चाहिए, जहाँ पुरखों की शरणस्थलियाँ अब भी हैं। दूसरा समूह पश्चिम जाना चाहता था, क्योंकि मंज़िलों का जुलूस उधर से आया और उधर ही गया था। तीसरा समूह यहीं रुककर हेलीकॉप्टर का इंतज़ार करना चाहता था—उन्हें भरोसा था कि सैलानी बस्ती की हालत देखकर उन्हें अपने साथ ले जाएँगे। कोई भी अपनी बात से पीछे नहीं हटा। नतीजा यह हुआ कि कोई एक फैसला नहीं हो सका। भाई-बहन बिछड़ गए। बच्चे बड़ों से अलग हो गए।

यहीं मासी लोवाना की कहानी रुक गई और हम सब पर ख़ामोशी छा गई।
“तो क्या हेलीकॉप्टर वाले आकर बस्ती वालों को ले गए?”
कुछ देर बाद किसी ने पूछा।
मासी चुप रहीं। कहानी सुनाते-सुनाते वे खुद सो गई थीं। नींद में ही उन्होंने सिर हिलाकर ‘न’ कहा। फिर उनकी बंद मुट्ठी थोड़ी खुली और एक खिलौना हेलीकॉप्टर हाथ से फिसलकर खाट के नीचे, ठीक मेरे सामने गिर पड़ा। चुपके से मैंने उसे अपनी मुट्ठी में छिपा लिया।

वक़्त गुज़र गया। मैंने एयरोनॉटिकल इंजीनियरिंग पढ़ी है और अब एक हेलीकॉप्टर बनाने वाली कंपनी में काम करती हूँ। खाट के पास से चुराया हुआ वह खिलौना हेलीकॉप्टर आज भी मेरी मेज़ पर रखा है—शायद मासी लोवाना की कहानी के वे अधूरे वाक्य याद दिलाने के लिए, जो वे खुद कह नहीं पाईं।

रियाज़ अकबर
ऑस्ट्रेलिया
This is one of those few stories that Masī Luwāna used to tell us neighbourhood girls when I was a child. People believed that, like her name, her stories too wandered away from well-trodden paths. She was a quiet woman and rarely spoke at length; stories were rarer still. She earned her living doing housework in nearby homes. In summer, a simple rope bed was kept in the courtyard of her small house, and that was where she slept.

During the long school holidays, as evening fell, we girls would gather around that bed. Everyone in the lane knew that if the girls were not at home, they would be somewhere near Masī’s cot. Most of the time we chatted among ourselves, but on those rare evenings when Masī decided to tell a story, the air itself seemed to change. As she spoke, her manner would shift—as though scenes from a play or a film were unfolding before her eyes and she was merely describing what she could see. Sharing her story now, I know my words may lack her languid ease and quiet fluency, but I will try to keep the spirit of her telling alive.
So listen.

'At the foot of a hill, on gentle slopes fed by natural springs, beside a lake full of clear water, a settlement was founded—perhaps five generations ago—by the ancestors of the people who still live there. Since then, the tribe has remained in this place. Fish from the lake, lotus roots, and the fruits of many wild trees form their food. It is a simple, contented, and untroubled life.

To the east, a narrow footpath leaves the settlement and disappears into ravines and forests. People believe their ancestors arrived through this very path, and perhaps that is why it is called the Road of the Past. For similar reasons, the path that runs along the lake is called the Road of the Present. The Road of the Present is lively throughout the day. Children and adults alike come here to fish, to gather lotus leaves, roots, and flowers. They linger, talk, and at dusk return to their shelters along the same path . Moonlit nights are reserved for festivals and gatherings.

Every human settlement develops its own customs. Here, it is believed that at times, in the deep silence of night, the strange rumbling sounds from the nearby mountains are the voices of the gods in conversation. Another ritual involves visiting the Destinations along the Road of the Past. These Destinations are the remains of old shelters—built beneath tall trees or inside rock hollows. It is believed they were created during the trials the gods imposed on the earliest ancestors during their journey to this land. Each known shelter has a story attached to it, passed down by elders to children. Every boy and girl in the settlement is expected to earn adulthood by travelling alone along the difficult Road of the Past and visiting at least three Destinations. Some go on to five or seven. Those who reach twenty-one or more are held in special respect. They are given a necklace of blue stones and are known as the Garlanded Ones. Only these Garlanded Ones are believed capable of communicating with the gods. Many young people, however, never return from these pilgrimages. Stories about them differ, but all agree on one point: they were not meant for the life of this settlement, and so the gods chose them for another existence.

One more thing.
Over the past three or four years, the people of the settlement have faced a new confusion—the arrival of tourists during spring and summer. This change cannot be stopped, and perhaps they do not wish to stop it. In the first year, once a week; now, almost every second day, a noisy helicopter arrives early in the morning and lands in an open field near the Road of the Present. Four or five tourists step out, dressed differently, speaking an unfamiliar language. They take photographs with the villagers and give colourful toys to the children—objects never seen or imagined before. After wandering for a few hours, they leave.

At first, the arrival of these strangers was a spectacle. Slowly, however, tourism began to affect the local culture. Until then, everything in the settlement had been shared—land to live on, fish to eat, fruit to gather. But the toys brought by the tourists were never enough for all the children. Each time the helicopter’s sound echoed, children would abandon whatever they were doing and race towards the field. A few would return joyful with toys; most returned empty-handed and disappointed. Private ownership of resources was entirely new to the settlement. There were incidents of snatching and stealing, followed by tensions among parents.

The helicopter visitors also made several of the footpaths along the Road of the Past safer and easier. While their intention may have been to facilitate tourism of ancient shelters, it also made pilgrimages easier for the young. Some elders resented this change. To them, easing the journey diminished the meaning and value of an essential tradition—and, truthfully, they were not entirely wrong.

For the past two years, the helicopter visitors have also brought bags full of new fruits and vegetables, leaving them near the field before departing. Many villagers have grown accustomed to these new tastes. Now they wait for the helicopter’s return each year.

Smiles alone have been enough to build trust between villagers and visitors. But the children have also learned a few words in the visitors’ language; like:
“How are you?”,
“Thank you”,
“Okay”, and
“What is this?”
They delight both tourists and elders by speaking them aloud.

This spring has only just begun. In a few weeks, the helicopters will return. But at the same time, the rumbling from the mountains has been growing steadily louder. It is believed that, for some reason, the gods are displeased with the settlement.
About a week ago, the mountains roared so violently at night that the ground shook and the lake’s water surged up to the edges of the Road of the Present. Worse still, even the Garlanded Ones failed to fully understand the gods’ message. All that could be understood was this: on the night of the full moon, a procession of Destinations would pass along the Road of the Present—and afterward, something else would happen. What that would be remained unclear.

Then, on the night of the full moon, hundreds of shelters passed one by one along the Road of the Present, as though they themselves had decided to make pilgrimage easier for the people. Groves of trees passed, beneath which lay bedding made from their own bark. Tree trunks passed bearing marks where wood had been carved into bowls for storing water or food. Pieces of mountains followed—containing ashes of old fires and scratched images of birds, fish, and gods.
Many villagers recognised these Destinations from their own pilgrimages.
“Yes, we saw this one.”
“We saw this too.”
Voices echoed everywhere.
One strange thing was this: instead of coming from the eastern Road of the Past, the procession emerged from the western forests and ravines, and returned the same way.

What happened after the procession passed is beyond description. The mountain on the far side of the lake exploded with such force that everyone’s ears rang. Lava like fire and massive rocks flew into the lake. The water boiled. Grass caught fire. Smoke became so thick and poisonous that people struggled to breathe. Many collapsed unconscious; others were injured by falling rocks; the rest fled in panic toward the shelters.
Then heavy rain fell—for days without stopping.

Now, after some days, the surviving villagers are emerging one by one from the shelters. They are silent. Only wide, frightened eyes move from side to side. The lake has boiled dry, covered with thousands of dead fish—some still twitching faintly. Trees stand blackened and burnt. Where fruit once grew, smoke rises from broken branches. Where the Road of the Present once ran, a deep layer of ash has turned into mud—and within that mud lie half-submerged, charred human bodies.
At that moment, three or four mountain crows flew in from nowhere and descended upon the fish-covered lakebed. Then a single wailing cry from one of the villagers struck the surrounding mountains—and everyone began to scream and weep.
That day it was decided: this place was no longer livable. At sunrise, they would leave.

At dawn, people gathered with whatever belongings they could carry. For the first time, a serious disagreement arose. Some insisted on going east, toward the ancestral shelters. Others wanted to go west, the direction from which the procession had come and returned. A third group wished to stay and wait for the helicopter, believing the tourists would rescue them.
No agreement was reached.
Brothers were separated from sisters. Children were torn from parents. ....'.

Masī Luwāna’s story ended there, and silence settled over us. After a while, someone asked softly,
“So… did the helicopter people come and take them away?”
Masī remained silent. She had fallen asleep while telling the story. In that drowsy state, she shook her head slowly in denial. Her clenched fist loosened slightly, and a toy helicopter slipped from her hand and fell beneath the cot—right in front of me.
Quietly, I hid it in my palm.

Time has passed. I studied aeronautical engineering and now work for a helicopter manufacturing company. That stolen toy helicopter still sits on my desk—perhaps to remind me of the words Masī Luwāna could not bring herself to say:
“Children of the settlement, do not trust these helicopter people.
They place colourful toys in your hands—
and they never come back.
They never will.”

Riaz Akber
Australia